"MIK" (space) message & send to 7575

شاہ صاحب کا شکریہ !

کسی کا پیر پھسل جائے تو دریا میں یا پھر کنویں جا گرتا ہے۔ یعنی جان سے جاتا ہے۔ یہ تو صرف شاہ سائیں یعنی سید قائم علی شاہ کی زبان کا کمال تھا کہ وہ جب بھی پھسلتی تھی، ہم جیسوں کی چاندی ہوجاتی تھی اور ہمارا قلم گہری کھائی سے نکل کر دوبارہ سُبک نویسی کی سطح مرتفع پر آجاتا تھا! ہمارے بہت سے کالم شاہ سائیں کی زبان کے پھسل پڑنے کے مرہونِ منت ہیں۔ ان کے اندازِ کار کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ہم میں ہمت نہیں مگر ہاں، اندازِ گفتار کی بات کیجیے تو ہم اُن کے احسان مند ہیں۔ ہم جیسے تو منتظر ہی رہتے تھے کہ کب وہ کوئی ایسی ویسی بات کہیں اور ہم جیسے تیسے اُس میں سے اپنے مطلب کی بات برآمد کرکے خود بھی مزے لیں اور اپنے قارئین کو بھی ایک نئی دنیا کی سیر کرائیں! یہ معاملہ رائی سے پربت کھڑا کرنے کا نہیں۔ ہم نے تو شاہ سائیں کی باتوں میں کپاس کے کھیت پائے ہیں، ڈھیروں روئی سے سُوت کاتا ہے، اُس سے کپڑا بُنا ہے اور کپڑے سے طرح طرح کے لفظی ملبوسات تیار کیے ہیں! 
شاہ سائیں کی کابینہ گلدستہ تھی۔ اِس میں طرح طرح کے پُھول تھے اور ہر پھول طرح طرح کے گل کھلانے پر یقین رکھتا تھا! کبھی یہ فریضہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ہاتھوں انجام پاتا تھا۔ پھر منظور وسان آئے اور اب مولا بخش چانڈیو نے انٹری دی ہے۔ دوسری بہت سی انٹریوں کی یہ انٹری بھی خاصی دھانسو ثابت ہوئی ہے! 
شاہ سائیں کے جانے کی خبر نے ہمارے ہاتھ اور قلم دونوں کے طوطے اڑا دیئے تھے۔ معاملہ کچھ یہ تھا کہ دل قابو میں نہ آتا تھا۔ ہم یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو اُٹھتے تھے کہ شاہ سائیں نہ ہوں گے تو ہم شگفتہ نویسی کی تحریک کہاں سے پائیں گے؟ شاہ سائیں نے بہت سوں کو اپنی زبان کے پھسلنے کا ایسا عادی بنادیا تھا کہ جب تک وہ کوئی رنگینی پیدا نہیں کرتے تھے، تحریریں بے جان سے رہتی تھیں ؎ 
مرنے کے بعد بھی مِری آنکھیں کھلی رہیں 
عادت سی پڑگئی تھی تِرے انتظار کی! 
شاہ سائیں صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد جب بھی میڈیا سے گفتگو فرماتے تھے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور دے جاتے تھے جس کی بنیاد پر ہم تھوڑا بہت کام کا لکھ لکھ کر اِتراتے تھے! ویسے تو منظور وسان بھی تھے اور مولا بخش چانڈیو بھی مگر شاہ سائیں کی موجودگی میں اِن دونوں صاحبان کی حیثیت قدرے ''ایڈیشنل‘‘ تھی! شاہ سائیں کی زبان پھسلتی تھی تو رنگینی پیدا کرتی تھی اور جب وہ پھسلتی ہوئی زبان کو سنبھالنے کی شعوری کوشش کرتے تھے تب تو رنگینی کی انتہا ہوجاتی تھی! 
کرے کوئی، بھرے کوئی والی بات تو پُرانی ہوئی۔ شاہ سائیں نے معاملات کو ''مرے کوئی، ڈرے کوئی‘‘ کی منزل تک پہنچاکر دم لیا۔ امجد صابری کے قتل کی مذمت کے لیے شاہ سائیں جب بھی لب کُشا ہوئے، جُنید جمشید کا یُوں ذکر کیا کہ وہ بے چارے سہم سہم گئے! 
شاہ سائیں کے جانے سے ہماری تو عجیب ہی حالت ہوئی۔ یہ یہ سمجھ لیجیے کہ ؎ 
وہ یُوں گئے کہ ہاتھ سے جاتا رہا یہ دل 
میں دیکھ ہی رہا تھا کہ منظر بدل گیا 
مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ ہوئے تو ہم تحفظات کا شکار ہوئے۔ وہ جوان ہیں اور سنجیدہ بھی۔ ایسے میں مزاج کے متلوّن ہونے اور زبان کے پھسلنے کا امکان تقریباً معدوم ہے۔ اُن کی طرف سے مایوس ہوکر ہم صوبائی کابینہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ سوچا کچھ کام کے چہرے، بلکہ مُنہ دکھائی دیں گے تو ہوں گے تو کچھ بات بنے گی، کچھ ڈھارس بندھے گی۔ مولا بخش چانڈیو کو دیکھ کر اِس خیال سے کچھ دل بستگی کا سامان ہوا کہ معاملہ بالکل سُوکھا نہیں رہے گا، کبھی کبھی کچھ تَری بھی ہمارے حصے میں آ ہی جایا کرے گی! صوبائی حکومت اب تک مولا بخش چانڈیو کو بالکل اُسی طرح استعمال کرتی آئی ہے جس طرح سرکاری سکولوں کے روایتی ٹیچر شرارتی طلباء کو سیدھا کرنے کے لیے ''مولا بخش‘‘ کو بروئے کار لاتے رہے ہیں! اور جب منظور وسان کو وزیر صنعت و تجارت کی حیثیت سے کابینہ میں لایا گیا تو ہمارے ارمانوں کے پژمردہ پھولوں میں گویا جان پڑگئی اور وہ نئے سِرے سے شگفتہ ہوکر مہکنے لگے۔ 
منظور وسان اور ان کے خواب ہمارے فیورٹ رہے ہیں۔ شاہ سائیں کی زبان پھسل کر ماحول کو رنگین کرتی تھی۔ منظور وسان سنبھلی ہوئی زبان سے بھی ماحول کو گل و گلزار کرنے کا ہنر جانتے ہیں! اُن کی شگفتہ بیانی نے مزاح نویسی سے متعلق ہماری گئی گزری صلاحیت کو ہمیشہ مہمیز دی ہے۔ اور کبھی کبھی تو یہ بھی ہوا ہے کہ مہمیز کے بجائے ''لات ماری ہے‘‘ کہنے ہی سے حقیقت کا بیان ممکن ہے! 
ویسے تو خیر سندھ کابینہ کی کارکردگی بھی مزاح نویسی کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتی آئی ہے مگر اِس کے چند ارکان نے تو واقعی بہت سے مواقع پر کمال کر دکھایا ہے۔ منظور وسان جب بھی اپنے خواب بیان کرتے ہیں، ہم جاگ پڑتے ہیں اور پورے ہوش و حواس کے ساتھ قلم تھام کر اُن کے خواب نوٹ کرتے ہیں تاکہ اُن خوابوں کے شرمندۂ تعبیر ہونے تک قلم گھسیٹتے رہنے کی گنجائش پیدا کی جاتی رہے! 
پیپلز پارٹی 2008 ء سے 2013 ء تک وفاق میں اور 2008 ء سے اب تک سندھ میں جس انداز سے کام کرتی آئی ہے وہ بھی بہت حد تک خواب کا سماں معلوم ہوتا ہے۔ پارٹی اور اُس کی کارکردگی سراسر خوابیدہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ پیپلز پارٹی میں خواب صرف منظور وسان دیکھتے ہیں وگرنہ اِس جماعت کی بیشتر نمایاں شخصیات کو محوِ خواب دیکھ کر ہم تو سہم جاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا ترکہ قرار پانے والی جماعت کہیں خوابوں کی فاضل پیداوار کا شکار نہ ہوجائے! 
شاہ صاحب یعنی سید مراد علی شاہ کا شکریہ ادا نہ کرنا ناشکری اور احسان فراموشی کے زُمرے میں آئے گا کہ اُنہوں نے اپنی کابینہ میں کم از کم دو ایسی شخصیات شامل کی ہیں جن کی زبان سے جھڑنے والے پُھول ہمارے کالموں کو چار چاند لگانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ منظور وسان اور مولا بخش چانڈیو کا معاملہ یہ ہے کہ جب مخالفین کے خلاف رطب اللسان ہوتے ہیں تو اقبالؔ کے کہے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کرتے ہیں یعنی چاہنے والوں کو ایک نئے جہان کی سیر کراتے ہیں اور اِس نئے جہان سے اوروں کی طرح ہم بھی اپنے لیے بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ گویا ع
یُوں لب کُشا ہوئے کہ گلستاں کھلادیا! 
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اِدھر شاہ صاحب نے وزارتِ اعلیٰ سنبھالی اور اُدھر کراچی کے حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ بہت سوں کو دھوبی پٹخا دے مارا۔ ایسے میں اُن کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے جو ہنسنا ہنسانا جانتے ہیں۔ منظور وسان صاحب کے لیے اِس بار تبدیلی یہ ہے کہ کراچی کے حوالے سے تعبیر بہت پہلے منظر عام پر آگئی ہے۔ اب خواب دیکھ لینے میں کچھ ہرج نہیں۔ امید ہے کہ منظور وسان بہت جلد کوئی ایسا خواب دیکھ لیں گے جو آؤٹ ہو جانے والے امتحانی پرچے کی طرح پہلے سے منظر عام پر آ جانے والی تعبیر سے مکمل یا اچھی خاصی مطابقت رکھتا ہو!

٭٭٭

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں