"MIK" (space) message & send to 7575

چھوڑو بھی… ہوتا رہے گا کام!

ستم ڈھانے میں گوروں کا کوئی جواب نہیں۔ چمڑی گوری سہی مگر اُن کی تاریخ بہت کالی ہے۔ اپنی بھرپور ترقی یقینی بنانے کے لیے انہوں نے ہر دور میں دوسروں کو ترقی سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جب دنیا بھر میں تحقیق کا بازار گرم تھا تب گورے سوئے ہوئے تھے۔ اور جاگے تو دنیا کو جگانے کی ٹھان لی۔ اُن کے ذہن میں یہ خَنّاس سما گیا کہ دنیا چل نہیں پا رہی، اِسے چلانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے! اتنا سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ جب یہ سوئے ہوئے تھے تب بھی دنیا پوری تمکنت کے ساتھ بیدار تھی اور جب جو کچھ کرنا چاہیے تھا، بخوبی کر رہی تھی! 
آج دنیا بھر میں یہ تصوّر پایا جاتا ہے کہ گورے بہت کام کرتے ہیں اور یہ کہ باقی دنیا تو اِس معاملے میں اُن کے آگے بس گھاس کھودتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے لوگ ہیں جو کام کے معاملے میں امریکا اور یورپ کے لوگوں کی سنجیدگی اور جاں فشانی کی مثالیں دے دے کر ناک میں دم کرتے رہتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایسے تمام افراد اپنے آپ سے اور ہمارے سامنے شرمندہ ہوں۔ کام زیادہ کرنے یا کرتے رہنے کا جو منطقی نتیجہ برآمد ہو سکتا تھا وہ برآمد ہو رہا ہے۔ ہم جو نکتہ صدیوں پہلے سمجھ گئے تھے وہ امریکا اور یورپ کے گوروں کی سمجھ میں اب آیا ہے۔ کام کے معاملے میں ہماری سوچ کو ساحرؔ لدھیانوی نے خوب بیان کیا ہے ؎ 
چند کلیاں نِشاط کی چُن کر 
مُدّتوں محوِ یاس رہتا ہوں 
تجھ سے ملنا خوشی کی بات سہی 
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں! 
امریکا میں اقتصادیات کے ماہرین کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ جب کوئی موضوع نہ ملے تو اپنا موضوع آپ پیدا کرکے دادِ تحقیق دینے لگتے ہیں۔ ڈیوڈ روزنک اور مارک ویز بروٹ نے کئی سال کی جاں گُسل تحقیق کے بعد ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ ماحول، دنیا اور انسانیت کی خیر اِس میں ہے کہ زیادہ کام نہ کیا جائے بلکہ جو کچھ کیا جا رہا ہے اُس کی مقدار بھی گھٹائی جائے۔ اُنہوں نے ہفتے میں تین دن آرام کا ''نظریہ‘‘ پیش کیا ہے۔ ڈیوڈ روزنک اور مارک ویزبروٹ کا کہنا ہے کہ کام کے یومیہ اوقات میں تھوڑا سا اضافہ کرکے ہفتے میں تین دن چُھٹّی کے ذریعے توانائی اور دیگر اخراجات میں اچھی خاصی کمی لائی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی ریاست Utah میں 2007ء سے 2011ء کے دوران یہ تجربہ کیا گیا تھا اور خاصا کامیاب رہا تھا۔ ڈیوڈ روزنک اور مارک ویزبروٹ کام کے معاملے میں یورپی ماڈل کو اپنانے پر زور دیتے ہیں یعنی کام کے اوقات کم رکھے جائیں تاکہ لوگوں کے ذہن اور جسم پر زیادہ تھکن سوار نہ ہو اور بلند تر معیار کے ساتھ کام کرتے رہنا ممکن بنایا جا سکے۔ 
اب امریکا اور یورپ کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ زیادہ کام کرنے کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اب زیادہ کام کرنے میں اُنہیں اپنی بقاء کے لیے خطرات محسوس ہو رہے ہیں! دو ڈھائی صدیوں کے دوران امریکا اور یورپ نے دنیا کو یہ درس دیا کہ زیادہ سے زیادہ کام کرو تاکہ زندگی کا معیار بلند ہو اور اِس دنیا کو زیادہ liveable بنایا جا سکے۔ اُن کی دیکھا دیکھی دنیا بھر کے لوگ کام پر لگ گئے۔ ساری دنیا کو کام پر لگانے امریکا اور یورپ کو اب کام کے ''سنگین و مضر‘‘ اثرات کا علم ہوا ہے تو باقی دنیا کو طرح طرح کے کاموں میں مصروف چھوڑ کر خود پتلی گلی سے نکل جانا چاہتے ہیں! 
گوروں کی ہر منطق نرالی رہی ہے۔ پہلے وہ خود بُرائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں، پھر دوسروں کو مبتلا کرتے ہیں۔ اور جب خرابی بڑھ جاتی ہے تو پسندیدہ چیز کو ناپسندیدہ قرار دے کر اُس سے جان چُھڑانے پر تُل جاتے ہیں۔ نو آبادیاتی نظام بھی اِسی سوچ اور اُفتادِ طبع کا نتیجہ تھا۔ 
ڈھائی تین سو سال پہلے تک دنیا میں سُکون تھا۔ زندگی اطمینان و استحکام کی راہ پر گامزن تھی۔ تب گوروں نے ہلچل پیدا کی، زیادہ سے زیادہ کام کا نظریہ مارکیٹ میں پھینکا۔ ہر شعبے میں تحقیق کا بازار گرم کرکے اپنی پریشانی کا بھی سامان کیا اور باقی دنیا کو بھی الجھنوں سے دوچار کیا۔ 
کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمیں کام سے رغبت نہ تھی یا نفرت تھی! ہمیں تو قائدِ اعظمؒ کی عظمت کا پاس تھا۔ قائدِ اعظمؒ کا اُصول ''کام، کام اور صرف کام‘‘ اُن کی ولادت سے بہت پہلے اہلِ مغرب نے اپنا لیا۔ اِسی میں ہمارے جسم و جاں کی ''بقائ‘‘ بھی مضمر تھی۔ ہم نے دیکھا کہ جب اہلِ مغرب نے ہمارے قائدِ اعظمؒ کا اُصول دانتوں سے پکڑ رکھا ہے تو پھر ہمیں خواہ مخواہ کام کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ویسے بھی ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں! 
علم و فن، تحقیق اور کام کے معاملے میں خود کو پَھنّے خاں تصور کرنے والے امریکا اور یورپ کی سمجھ میں یہ ''نکتۂ جاں فزا‘‘ اب آیا ہے کہ زیادہ کام کرنا قدرتی ماحول اور انسانی زندگی دونوں کے لیے یکساں غیر مفید ہے! اور اتنا زیادہ سمجھ میں آ گیا ہے کہ وہ اب دھارے کے خلاف جانے پر تُل گئے ہیں یعنی کام کی مقدار گھٹا کر ماحول اور انسانیت کو بچانے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ اِس پر ''اے شابش اے‘‘ کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے! 
دنیا ہمارے بارے میں پتا نہیں کیا کیا سوچتی رہی ہے۔ ہم عشروں سے ایک طعنہ تواتر سے سُنتے آئے ہیں... یہ کہ ڈھنگ سے اور زیادہ کام نہ کرکے ہم تقریباً ہر معاملے میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اب جبکہ گوروں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو چلا ہے، ہمارے لیے بھرپور موقع ہے کہ اپنی ''دور اندیشی‘‘ پر نازاں ہوں! ہم نے تقریباً نصف صدی قبل اندازہ لگا لیا تھا کہ زیادہ کام کرنا جسم اور ذہن دونوں کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے! اور ہم محض اندازہ قائم کرنے کی منزل پر نہیں رک گئے تھے بلکہ پوری تندہی سے اپنا کام بھی شروع کر دیا تھا... یعنی کام سے مجتنب رہنے کی ابتداء بھی کر دی تھی! اِس روش پر گامزن رہنے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ جب دنیا بھر میں لوگ زندگی کا معیار بلند کرنے کے نام پر زیادہ سے زیادہ کام کرکے اپنے جسم و جاں کا بیڑا غرق کر رہے تھے تب ہم لازوال سُکون و راحت کے مزے لُوٹ رہے تھے! 
کم کام کرکے حواس اور سکت دونوں کی بھرپور بچت یقینی بنانے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ آج جبکہ دنیا بھر میں بے چینی اور ہلچل پائی جاتی ہے، پاکستانی معاشرہ گہرے سمندروں کے ٹھہرے ہوئے پانیوں کی طرح پُرسکون ہے! یہ اور بات ہے کہ ہم نے کبھی درخورِ اعتناء نہ سمجھا اور قدر نہ کی ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ واضح اکثریت میں پائے جاتے ہیں کہ جنہوں نے زندگی بھر ایک ہی کام کیا ہے... یہ کہ کام سے کس طور بچا جائے! حکومت چاہے تو کام نہ کرنے کے حوالے غیر معمولی اور قابل رشک تجربہ رکھنے والوں کی خدمات امریکا اور یورپ کو فراہم کرکے خطیر زرِ مبادلہ حاصل کرنے کا اہتمام کر سکتی ہے! 
ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں کہ ہمارے دوستوں میں مرزا تنقید بیگ جیسی ہستی بھی شامل ہے جس نے زندگی بھر کام سے گریز کرتے ہوئے ''بھرپور‘‘ اور ''کامیاب‘‘ زندگی بسر کی ہے اور گوروں کے سامنے ایک ''روشن‘‘ مثال پیش کی ہے کہ کام نہ کرنا کس قدر جاں فزا ثابت ہو سکتا ہے! ساتھ ہی ساتھ ہماری ریاستی مشینری کے بیشتر اداروں کے وہ افسران و ملازمین بھی ہر اعتبار سے قابلِ فخر ہیں جنہوں نے عشروں تک کام سے یکسر گریز کی صورت میں ایک انوکھا ''ورک ماڈل‘‘ پیش کیا ہے... یہ کہ ہفتے میں تین دن نہیں بلکہ مسلسل سات دن آرام کرکے بھی نہ صرف زندگی ڈھنگ سے بسر کی جا سکتی ہے بلکہ ریاست کو بھی کسی نہ کسی طور چلایا جا سکتا ہے! ہمیں یقین ہے کہ ہفتے میں سات دن آرام والے ''ورک ماڈل‘‘ کی تفصیل پڑھ کر ڈیوڈ روزنک اور مارک ویزبروٹ پہلے تو چونکیں گے، پھر سکتے سے دوچار ہوں گے اور آخر میں شرمندہ ہو کر گریبان میں جھانکنے کے بعد اپنے ہی آنسوؤں میں ڈوب مریں گے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں