"MIK" (space) message & send to 7575

خط لکھیں گے، گرچہ مطلب کچھ نہ ہو!

کیا عجیب دور ہے کہ سبھی کچھ ایک پیج پر آگیا ہے یعنی خلط ملط ہوگیا ہے۔ ہر شے اپنی اصل سے ہٹ گئی ہے اور فطری خوبصورت کھوچکی ہے۔ اب سیاسی سطح پر کیے جانے والے احتجاج ہی کو لیجیے۔ یاروں نے دیکھا کہ لوگ ترسے ہوئے ہیں یعنی ہر معاملے میں تفریح تلاش کرتے ہیں تو احتجاج کا نیا، ہلکا پھلکا طریق مارکیٹ میں متعارف کرادیا! کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
جن کے ہونٹوں پہ ہنسی، پاؤں میں چھالے ہوں گے 
ہاں وہی لوگ تجھے ڈھونڈنے والے ہوں گے 
اب معاملہ یہ ہے کہ ہونٹوں پر ہنسی تو مل سکتی ہے، پاؤں میں چھالے ناپید ہیں۔ جب ہر کام ہنستے گاتے کیا جاسکتا ہے تو زیادہ دردِ سر مول لینے کی کیا ضرورت ہے؟ 
وہ زمانہ گیا جب دھرنوں، جلوسوں اور جلسوں میں خون کا پانی ہوا کرتا تھا۔ اب تو خیر سے ان ہنگاموں میں حصہ لینے پر خون کچھ بڑھ ہی جاتا ہے، دل و نظر کو تھوڑی بہت تقویت ہی ملتی ہے! ایک دور تھا کہ جب سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں آنسو بہتے تھے، آہیں بھری جاتی تھیں۔ اب سب کی سمجھ میں آگیا ہے کہ کہ زندگی رلانے کے لیے تو ہوسکتی ہے، رونے کے لیے ہرگز نہیں۔ یعنی ہر معاملے میں کسی نہ کسی حد تک دل بستگی کا سامان بھی ہونا چاہیے۔ انتہا یہ ہے کہ لوگ تدفین میں شریک ہوں تب بھی ہنسنے ہنسانے کا سامان کر ہی لیتے ہیں! تو پھر سیاسی جلسوں نے کیا بگاڑا ہے کہ اُن سے لطف کشید نہ کیا جائے؟ 
عمران اینڈ کمپنی (شیخ رشید + ڈاکٹر طاہرالقادری) نے احتجاج کا ایسا انداز اپنایا اور پروموٹ کیا ہے کہ اب کسی بھی جواز کے بغیر، محض انٹرٹینمنٹ کے کھاتے میں بھی، دھرنا دیا جاسکتا ہے، احتجاج کے نام پر دِل کُشا اور جاں فزا ٹائپ کا ہنگامہ برپا کیا جاسکتا ہے! اِس کے لیے کرنا کیا پڑتا ہے؟ کچھ زیادہ نہیں۔ بس اتنا کہ حکومت کا بینڈ بجانے کے لیے کسی مشہور بینڈ کی خدمات حاصل کیجیے اور جو کرنا ہے کر گزریے۔ آپ محروم نہیں رہیں گے۔ وہ تو غالبؔ تھے جو محروم رہ گئے تھے اور شِکوہ کیا تھا ع 
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا! 
اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ جمع ہو جائیں تو تماشا ہو ہی جاتا ہے۔ معاملات تماشے سے شروع ہوکر تماشے ہی پر ختم ہو رہے ہیں۔ فی زمانہ چونکہ کسی بھی معاملے میں کسی جواز کی ضرورت نہیں رہی اس لیے احتجاج بھی کسی سبب یا جواز کا محتاج نہیں رہا۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ کا جی چاہ رہا ہے کہ نہیں۔ اگر جی چاہ رہے تو پھر ٹھیک ہے، ست بسم اللہ! آپ میدان میں قدم تو رکھیے، قدم قدم پر خوش آمدید، بھلی کرے آیا اور جی آیا نوں کی صدائیں آپر کا استقبال کریں گی۔ 
کسی جواز کے بغیر کچھ بھی کر گزرنے پر تو غالبؔ بھی یقین رکھتے تھے۔ تب ہی تو اُنہوں نے کہا تھا ؎ 
خط لکھیں گے، گرچہ مطلب کچھ نہ ہو 
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے! 
عمران خان اینڈ کمپنی کا بھی کچھ ایسا ہی کیس ہے۔ اُنہیں بھی خط لکھنے کا شوق ہے، گرچہ مطلب ہو نہ ضرورت۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان اینڈ کمپنی کے سَر پر خط لکھنے کا جُنون اُسی وقت سوار ہوتا ہے جب کوئی ''قرطاس و قلم‘‘ کا اہتمام کرے! میرزا نوشہ نے آم کی شان بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہت میٹھے ہوں اور بہت ہوں۔ کسی مطلب کے بغیر خط لکھنے کا ''فنڈا‘‘ یہ ہے کہ ''فنڈز‘‘ ہوں اور بہت ہوں! گویا معاملہ انتہائی شوق سے کہیں آگے جاکر آرڈر پر مال تیار کرنے کا ہے! کسی مطلب کے بغیر احتجاجی خط لکھنے کا ایک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوا ہے کہ اپنے شوق کی بے تابی اور دوسروں کی غرض کو ایک پیج پر لانے کی روایت زور اور جڑ پکڑ رہی ہے! کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا شوق وہ دریا ہے جس میں ڈبکی لگانے کے بعد ایسا تو ہونا ہی تھا! 
دو سال قبل بھی (جب ن لیگ کی حکومت کو ملک کا چارج سنبھالے ابھی محض ایک سال ہوا تھا) اہلِ وطن نے ایک تماشا دیکھا تھا۔ اور یہ بھی کہ اُس تماشے کے ہاتھوں عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کتنی متاثر ہوئی۔ پہلے پہل حکومت کے ساتھ ساتھ لوگوں کا بھی ناک میں دم ہوا۔ پھر یہ ہوا کہ حکومت کی الجھن تو برقرار رہی مگر عوام کی پریشانی کم ہوئی اور انہیں بتدریج قرار آتا گیا۔ کیوں نہ آتا؟ دل بستگی کا سامان جو کردیا گیا تھا! 
ناک میں دَم کی بات چلی ہے تو ہمیں وہ دَم یاد آیا جو بیماروں اور بچوں پر کیا جاتا ہے۔ ایک صاحب کے سامنے کسی بزرگ کی شان بیان کی گئی کہ وہ ایسا دَم کرتے ہیں کہ بستر پر پڑا ہوا بندہ دو ہی دن میں بھلا چنگا ہو جاتا ہے۔ وہ صاحب بولے ... بھئی دَم کرنا تو ہماری بیگم کو بھی آتا ہے مگر ابھی نیا نیا سیکھا ہے اِس لیے صرف ناک میں دَم کرتی ہیں! 
عمران خان نے بھی شاید دَم کرنا نیا نیا سیکھا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ حکمرانوں اور قوم دونوں کا صرف ناک میں دَم کرنے پر اکتفا کرتے ہیں! 
عمران خان نے کرکٹ میں بہت نپا تُلا انداز اختیار کیا مگر سیاست کے میدان میں اُن کی ٹائمنگ اب تک درست نہیں ہو پائی ہے۔ وہ اننگز یا تو بے وقت شروع کردیتے ہیں یا پھر بے وقت ڈیکلیئر کر ڈالتے ہیں! کوئی حکومت ابھی ڈھنگ سے شروع بھی نہیں ہوئی ہوتی اور وہ اُسے ختم کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ دو سال قبل بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری آ مِلے تو عمران خان نے حکومت کی چُولیں ہلا ڈالنے کا عمل پورے جوش و خروش سے شروع کردیا۔ لوگوں نے بہت سمجھایا مگر خان صاحب کے سَر پر مطلب کے بغیر خط لکھنے کا جُنون اور خُون سوار تھا یعنی اپنے مطلب کا خط لکھنے کے بعد ہی اُنہوں نے سُکون کا سانس لیا! ؎ 
لوگ سمجھاتے رہ گئے دل کو 
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا! 
دو سال پہلے کی دھما چوکڑی سے حکومت کا تو ککھ نہ ہلیا مگر ہاں، عمران خان کے سیاسی امیج کی چُولیں ضرور ہل گئیں اور اب تک جوڑ بیٹھ نہیں پایا ہے! 
اب پھر احتساب کے نام پر ایک نئے سیاسی سرکس کی تیاریاں جاری ہیں۔ جس رائے ونڈ سے ہر سال اللہ کا پیغام عام کیا جاتا ہے اُسی رائے ونڈ سے عمران خان اپنا پیغام پھیلانے پر تُل گئے ہیں! بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ ایک بار پھر حکومت کا ناک میں دم کیا جائے۔ 
تحریکِ انصاف نے احتساب کے نام پر جو تحریک شروع کی ہے اُس کا سَر نظر آرہا ہے نہ پیر مگر اِس کے باوجود غلغلہ ہے کہ بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ یعنی سب ''مایا‘‘ ہے! اپوزیشن کی جماعتیں اِس پورے معاملے سے لاتعلق اور دامن کش رہنے کے موڈ میں دکھائی دے رہی ہیں۔ اور تو اور، عمران خان کے مبینہ ''سیاسی کزن‘‘ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی اِس بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتے۔ ویسے بھی وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے انصاف مانگنے کے لیے یورپی یونین کی طرف جانے والی راہ پر مُڑ گئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ لندن میں وکلاء سے مشورہ کرکے وہ یورپی یونین کے شعبۂ انسانی حقوق میں ن لیگ کی حکومت کے خلاف درخواست دائر کریں گے! چراغ حسن حسرتؔ برمحل یاد آئے ؎ 
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سُنا تم نے 
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سُنا ہوتا! 
عید الاضحی سے قبل نعیم الحق نے تحریک انصاف کی طرف سے باضابطہ اعلان کیا کہ جاتی امرا (یعنی حکمرانوں کے محلات) کی طرف مارچ کیا جائے گا نہ وہاں دھرنا دیا جائے گا بلکہ تحریکِ احتساب کے تحت منعقد کیے جانے والے جلسے کے شرکاء رائے ونڈ تک محدود رہیں گے۔ یعنی تحریکِ احتساب کے تمام ٹائرز کی ہوا پارٹی کی قیادت نے خود ہی نکال دی ہے! (یاد رہے کہ تحریک انصاف نے پسپا ہونے کا فیصلہ اُس وقت کیا جب خیبر پختونخوا میں ن لیگ نے جوابی کارروائی سے خبردار کیا!) 
تو پھر احتجاج کس کھاتے میں ہوگا؟ سیدھی سی بات ہے، انٹرٹینمنٹ کے کھاتے میں! آپ کو یاد ہی ہوگا کہ احتجاج کو رائیونڈ تک محدود رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے نعیم الحق نے یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف نے جلسے کے تین لاکھ (!) شرکاء کو چائے کی دعوت دی تو غور کریں گے! یعنی اِس بار بھی معاملات تفریح سے شروع ہوکر تفریح تک محدود رہے گا۔ رہے نام اللہ کا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں