زندگی ہنسنے ہنسانے کے لیے ہے؟ یقیناً، مگر ایک لفظ کے اضافے کے ساتھ۔ زندگی ہنسنے ہنسانے کے لیے ''بھی‘‘ ہے! اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں پریشانی کے عالم میں بھی خوش مزاجی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ حالات کا ہر ستم سہنے کے بعد بھی جو لوگ مسکراتے ہوئے ثابت قدم رہیں اُنہی کے لیے زندگی کی ہر خوشی ہے۔ مشکلات کو اچھی طرح جھیل کر اپنی جگہ اور اپنی بات پر قائم رہنا ہی مزاج و کردار کی پختگی ہے۔
مگر کیا ہر معاملے میں یا ہر وقت ہنسنا ہنسانا لازم ہے؟ ہنستے رہنے کو اپنے پر فرض قرار دینے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب لوگ کسی کی تدفین میں شریک ہونے پر بھی سنجیدگی کی راہ پر گامزن دکھائی نہیں دیتے۔ جب میت قبر میں اتاری جارہی ہوتی ہے تب بھی لوگ ہنسی مذاق سے باز نہیں آتے! میت والے گھر میں بھی لوگ جب بتیانے پر آتے ہیں تو گرد و پیش سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔
ایک دور وہ بھی تھا کہ گلی میں کوئی مر جاتا تھا تو لوگ ہفتہ بھر ٹی وی اور ریڈیو آن نہیں کرتے تھے۔ اب لوگ پڑوس میں میت کی خبر ملنے پر بھی ٹی وی اسکرین سے نظر نہیں ہٹاتے۔ کسی کے مرنے پر دُکھی ہونا تو ظاہر ہے اِس سے بہت آگے کی منزل ہے! غم کو اپنے وجود پر تھوڑی دیر کے لیے طاری کرنا تو دور کا معاملہ ہے، لوگ غم زدہ ہونے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
اِس دنیا میں کون ہے جو الم پسندی کو ترجیحاً اپنائے گا؟ چند ہی افراد ہوں گے جو سنجیدگی کو زیادہ پختہ کرکے الم پسندی کی طرف بڑھنا پسند کریں گے؟ آپ بھی خوش مزاجی ہی کو ترجیح دیتے ہوں گے۔ یہ اچھی بات ہے۔ خوش رہنا اور دوسروں کو بھی خوش رکھنا ایسا وصف ہے جسے سبھی پسند کرتے ہیں۔ مگر کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ہر وقت، ہر صورتِ حال میں صرف قہقہے لگاتا رہے؟ کیا ہمیں عطا کی جانے والی سانسیں محض ہنسنے گانے، قہقہے لگانے کے لیے ہیں؟ کسی کے دکھ کو محسوس کرنے میں کوئی قباحت ہے؟ کسی کو پریشان دیکھ کر تھوڑا سا پریشان ہولینے میں کچھ ہرج واقع ہوتا ہے؟
کچھ دن قبل ایک وڈیو کلپ دیکھا۔ ملک کے ایک معروف کامیڈین نے آٹھ دس برس (یا شاید اِس سے زائد مدت) پہلے کا ایک قصہ ٹی وی شو میں مزے لے لے کر سُنایا۔ میزبان اور آڈینس دونوں نے کامیڈین کی ''ہلکی پھلکی‘‘ باتوں سے خوب لطف کشید کیا۔ یہ وڈیو کلپ دیکھ کر خاکسار کو کچھ کچھ اندازہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ بے حِسی اور بے ضمیری کے گڑھے میں کس حد تک گِرچکا ہے۔
کامیڈین کا تو کام ہی ہنسنا ہنسانا ہے مگر بہرحال ہنسنے یا ہنسانے کے لیے بھی کوئی نہ کوئی منطق تو درکار ہوتی ہے۔ لوگ ہر کامیڈین سے ہر معاملے میں ہنسنے ہنسانے کی توقع رکھتے ہیں اور وہ بھی اپنے طور پر یہ طے کرلیتا ہے کہ اُسے ہر معاملے کی ٹوپی سے ہنسی اور قہقہے کا کبوتر نکال کر دکھانا ہے۔ اور یہ کہ اگر ایسا نہ کیا جاسکا تو زندگی میں کوئی بہت بڑی کمی واقع ہو رہے گی!
بات ہو رہی تھی ملک کے معروف کامیڈین کی۔ اُس نے بتایا کہ کس طرح برصغیر کے عظیم اداکار یوسف خان یعنی دلیپ صاحب پرانے دور کی ایک لفٹ میں پھنس گئے تھے۔ یہ لفٹ چاروں طرف سے کھلی تھی اس لیے نیچے یا اوپر کی منزل پر کھڑے ہوئے لوگ بھی اُس میں پھنسے ہوئے دلیپ صاحب، ان کی اہلیہ سائرہ بانو اور دیگر افراد کو دیکھ سکتے تھے۔
کامیڈین نے مزے لے لے کر بتایا کہ لفٹ راستے میں اٹکی تو دلیپ صاحب کا برا حال ہوگیا۔ (یاد رہے کہ تب بھی دلیپ صاحب 80 سال سے زائد کے رہے ہوں گے!) اور پھر ہمارے کامیڈین نے صدا لگائی ... ''آجاؤ دلیپ، گھبراؤ مت۔ اوپر آجاؤ!‘‘ (''آجاؤ دلیپ‘‘ پر غور فرمائیے۔)
دلیپ صاحب کو بالی وڈ میں کوئی بھی دلیپ کمار نہیں کہتا، صرف ''دلیپ صاحب‘‘ کہنے کی منزل تک پہنچ کر رک جاتا ہے۔ کامیڈین نے بتایا کہ دلیپ صاحب نے جب اوپر کی منزل سے یہ الفاظ سُنے تو خاصے بے مزا ہوئے۔ (میزبان اور آڈینس کے بھرپور قہقہے)
بے مزا تو ہونا ہی تھا۔ دلیپ صاحب کی طبیعت میں شائستگی اور نفاست اپنی انتہا پر ہے۔ شفقت سے بات کرنے کی تو خیر بات ہی کیا ہے، اُن کے ڈانٹنے میں بھی تہذیب اور ملائمت جلوہ گر رہتی ہے! وہ خطے کی مہذّب ترین اور سنجیدہ ترین شخصیات میں سے ہیں۔ ان کی طرزِ گفتگو ناقابل یقین حد تک شائستہ اور نازک ہے۔ بلا ضرورت وہ بولتے ہی نہیں اور ضرورت پڑنے پر بھی بہت کم بولتے ہیں۔
ہمارے کامیڈین نے جس عظیم ہستی کو ہدفِ استہزاء بنایا اُس کے بارے میں کسی اور نے نہیں، بھارت کے پہلے وزیر اعظم آں جہانی پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ دو جواہر لعل تو ہوسکتے ہیں، دو دلیپ کمار نہیں ہوسکتے!
بالی وڈ میں تین نسلوں سے تعلق رکھنے والے اداکاروں نے دلیپ صاحب سے صرف اداکاری یعنی جذبات کو درست انداز سے ادا کرنے کا طریقہ ہی نہیں، نشست و برخاست اور گفتگو کا سلیقہ بھی سیکھا ہے۔ بھارت اور پاکستان سمیت پورے خطے میں کروڑوں افراد اُن کی شخصیت سے خاصی نمایاں حد تک متاثر رہے ہیں۔ 30، 35 سال کی عمر میں بھی وہ ''دلیپ صاحب‘‘ ہی کہلاتے تھے۔
کامیڈین نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ دلیپ صاحب سے (ایسے بے ڈھنگے انداز سے) مخاطب ہو رہا تھا تب وہاں موجود معین اختر مرحوم نے خاصی گھبراہٹ اور شرمندگی کے ساتھ ٹوک بھی دیا کہ کیا کر رہے ہو، یہ دلیپ صاحب ہیں! اس پر کامیڈین نے کہا کہ دلیپ صاحب ہیں تو کیا ہوا، لفٹ میں پھنسے ہوئے بھی تو ہیں! (یعنی صورتِ حال کا ''تقاضا‘‘ ہے کہ اِس سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہونے میں کسی حد کا خیال نہ رکھا جائے!)
پھر ہمارے کامیڈین نے لفٹ سے دلیپ صاحب اور ان کی اہلیہ کے نکلنے کا قصہ بھی کچھ اِس انداز سے سُنایا کہ شاید بھونڈے پن کو بھی پہلے ہنسی آئی ہو اور پھر وہ رو دیا ہو! لفٹ چونکہ دروازے پر نصف کی حد تک آئی تھی اِس لیے دلیپ صاحب کو باہر آنے کے لیے خاصی طاقت لگانا پڑی۔ اور ان کے بعد جب ان کی اہلیہ سائرہ بانو کو نکلنا تھا تب زیادہ الجھن پیدا ہوئی۔ وہ خاتون ہیں اِس لیے مدد کی ضرورت پڑی۔ لفٹ میں موجود دیگر افراد نے سائرہ بانو کو سہارا دے کر اٹھایا اور فلور تک پہنچنے میں مدد دی۔ کامیڈین نے اِس مرحلے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ''دلیپ صاحب جُزبُز ہوئے کہ ان کو کون ہاتھ لگا رہا ہے تو وہاں لوگوں نے بتایا گھبرانے کی بات نہیں، سب اپنے ہی لوگ ہیں!‘‘ (میزبان اور آڈینس کے بھرپور قہقہے)
بالی وڈ میں ایک سے بڑھ کر ایک اسٹینڈ اپ کامیڈینز ہیں اور گزرے بھی ہیں مگر کبھی کسی نے دلیپ صاحب کے بارے میں یہ انداز اختیار کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پائی۔ اِتنی اور ایسی ''شجاعت‘‘ شاید صرف ہمارے ہاں پائی جاتی ہے کیونکہ ہم تو تہذیب اور شائستگی کو دیس نکالا دینے پر تُلے ہوئے ہیں!