نقّالی بھی کیا ہی بُری بات ہے۔ سانجھے کی ہانڈی کی طرح یہ ہانڈی بھی چوراہے ہی پر پُھوٹتی ہے۔ دو ہفتوں کے دوران نئی دہلی میں جو کچھ ہوا ہے وہ اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کوّا جب ہنس کی چال چلتا ہے تو اپنی چال بھی بُھول جاتا ہے۔
مودی سرکار نے پاکستان کے خلاف جنگی جُنون کو ہوا دے کر میڈیا کے ذریعے جو ''ہائپ‘‘ کھڑی کی وہ بالآخر چاند پر تُھوکے ہوئے کی طرح خود اُسی کے منہ پر آ گِری۔ جو کچھ مودی سرکار نے کرنا چاہا وہ بالی وڈ کی فلموں میں ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نئی دہلی کے بزرجمہر بالی وڈ کی فلموں کے سِوا کچھ دیکھتے نہیں اور اِن فلموں سے بھی وہ صرف حقیقت سے گریز کرنا ہی سیکھتے ہیں۔ بالی وڈ کی بیشتر فلمیں ناظرین کو حقیقت کی دنیا سے دور لے جانے کا ذریعہ ہیں۔ افلاس زدہ عوام اِن فلموں میں گم ہوکر کم از کم ڈھائی تین گھنٹے کے لیے تو اپنے سارے دکھ بھول جاتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے تخت دہلی کے کرتا دھرتا بھی شاید اُسی طرح سوچتے ہیں جس طرح فلموں کے اسکرپٹ رائٹر سوچتے ہیں۔ عوام کو شانت اور خوش رکھنے کے لیے بالی وڈ کی فلمیں بھارتی قیادت کی بہت مدد کرتی ہیں۔ جو کچھ وہ کر نہیں پاتی وہ فلموں کے ذریعے لوگوں کو دکھا دیا جاتا ہے۔ اِس بار فلموں کا سہارا لینے کے بجائے مودی سرکار نے خود ہی فلم تیار کرنے کی کوشش کی۔ کھڑکی توڑ کامیابی تو کیا ملنی تھی، کھڑکی ہی ٹوٹ گئی۔ فلم ایسی فلاپ ہوئی ہے کہ ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ بہت سوں کا بہت کچھ ڈوب گیا ہے۔
فلموں میں ڈرامائیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ لوگ کہانی کے کسی بھی انوکھے موڑ کو مِس نہ کرنے کے لیے اپنی اپنی نشست پر بیٹھے رہیں۔ مودی سرکار نے کہانی میں جان ڈالنے کے لیے اِتنے ٹوئسٹ ڈالنے کی کوشش کی کہ کہانی ہی چُوں چُوں کا مربّہ ہوکر رہ گئی۔ سسپنس تھرلر بنانے کی کوشش بھونڈی کامیڈی پر منتج ہوئی ہے۔
بات بات پر پاکستان کو کمزور اور مچّھر قرار دینے والے بھارتی سیاست دان اِسی مچّھر سے اتنے خائف رہتے ہیں کہ اِس کے معاملات میں ذرّہ بھر بہتری بھی ہضم نہیں ہو پاتی۔
چین کی معاونت سے اقتصادی راہداری کے منصوبوں کا آغاز پاکستان میں خوش حالی کا آغاز ہے۔ یہ بات بھلا بھارتی قیادت سے کیونکر ہضم ہونی تھی۔ اُس کے پیٹ میں مروڑ اٹھا۔ پہلے مرحلے میں مقبوضہ کشمیر کے حالات بگاڑ کر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کی راہ ہموار کی گئی۔ مگر جب دال زیادہ نہ گلی تو کنٹرول لائن پر آؤٹ آف کنٹرول ہونے کا ناٹک رچایا گیا۔ پاکستان کو سبق سکھانے کے نام پر گولیاں برساکر چند فوجیوں کو شہید کیا گیا اور ڈھول پیٹا گیا کہ سرجیکل اسٹرائیک کی گئی ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ امریکا کی طرح بھارتی فوج بھی کہیں بھی، کوئی بھی کارروائی کرسکتی ہے۔
چاند پر تُھوکا منہ پر آتا ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک کا معاملہ بھی ایسا ہی جھوٹ ثابت ہوا۔ مثل مشہور ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ مودی سرکار کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے کنٹرول لائن کے پار بلا جواز فائرنگ کو چھاتہ بردار فوجی اتار کر کی جانے والی سرجیکل اسٹرائیک قرار دیا تو اگلے ہی دن وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات راجیہ وردھن سنگھ راٹھور کی راجپوتانہ غیرت نے جوش مارا یعنی وہ اِس جھوٹ کو برداشت نہ کرسکے اور صاف کہہ دیا کہ کوئی ایئر کرافٹ استعمال کیا گیا نہ کوئی چھاتہ بردار فوجی کنٹرول لائن کے دوسری طرف اتارا گیا۔ انہوں نے اپنا دعوٰی چند پیادوں کے کنٹرول لائن کے پار جانے اور کارروائی کرنے تک محدود رکھا۔
راجیہ وردھن راٹھور کی طرف سے ڈی جی ملٹری آپریشنز کو جھٹلانا تالاب میں پہلا پتّھر ثابت ہوا۔ کانگریس کے ممبئی کے صدر سنجے نروپم نے فوج اور سویلین قیادت سے کہا کہ سرجیکل اسٹرائیک کی گئی ہے تو ثبوت پیش کرے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے فوجی مبصّرین، بی بی سی، سی این این اور امریکی و برطانوی اخبارات نے بھی سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بے بنیاد قرار دے دیا۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے جب یہ کہا کہ سرجیکل اسٹرائیک کے شواہد نہیں ملے تو عالمی ادارے میں بھارت کے مستقل مندوب سید اکبرالدین یہ کہتے ہوئے کِھسیانے ہوگئے کہ عالمی ادارے کی رپورٹ پر وہ کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔ اور اب تو امریکی محکمہ خارجہ نے بھی بھارتی دعوے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرکے رہی کسر پوری کردی ہے۔
سنجے نروپم کے بعد کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی، پارٹی کے سینئر رہنما کپل سبل اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے بھی سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت فراہم کرنے پر زور دے کر مودی سرکار کے سر پر بھاری ہتھوڑا دے مارا ہے۔ ''سو سُنار کی، ایک لوہار کی‘‘ والا انداز اختیار کرتے ہوئے ایک ریلی سے خطاب میں راہول گاندھی تو یہاں تک کہہ گئے کہ نریندر مودی فوجیوں کی قربانیوں کی ''دلالی‘‘ کر رہے ہیں!
کِھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق مودی سرکار سرجیکل اسٹرائیک کا وژیوئل ثبوت مانگنے والوں کو ملک کے غدّار قرار دینے پر تُل گئی ہے۔ ''دلالی‘‘ کے الزام نے تو جیسے بُھوسے میں ایک ساتھ کئی چنگاریاں ڈال دیں۔ وزیر دفاع منوہر پاریکر بڑھک ہانکنے کے عادی ہیں۔ اُن سے جب کچھ نہ بن پڑا تو ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دینے پر اُتر آئے۔ پاکستان سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے نام نہاد سابق پاکستانی دانشور طارق فتح کو کینیڈا سے ایک بار پھر درآمد کرکے پاکستان کے خلاف خوب ہرزہ سرائی کرائی گئی۔ طارق فتح نے اپنے مخصوص انداز سے بڑھک ماری کہ سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے یعنی پانی روکنے سے پاکستانیوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے اور اِس سے ایک قدم آگے جاکر کراچی کے ساحل پر چند تباہ کن جہازوں کے ساتھ طیارہ بردار جہاز کھڑا کرکے پاکستانی قیادت اور قوم دونوں کے سارے کَس بل نکالے جاسکتے ہیں! بھارتی چینلز پر ہرزہ سرائی کے ذریعے لفافے کا حق ادا کرنے والے طارق فتح پاکستان پر حملہ کرنے اور اس کی بحری یا بَرّی ناکہ بندی کرنے کی بات ایسے کرتے ہیں جیسے یہ گلی کے نُکّڑ پر کھڑے ٹھیلے سے گولا گنڈا خرید لانے کا معاملہ ہو! ع
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
پاکستان کا پانی بند کرنے کی بات آئی تو چین نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے تبت میں دریائے برہم پترا کے پانی کو بھارت میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس پر نئی دہلی کو چیں بہ جبیں ہونا ہی تھا۔ سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی تجویز جتنی تیزی سے ابھری تھی اتنی ہی تیزی سے بیٹھ بھی گئی۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بھارت میں آبی وسائل کے ماہرین نے بھی وزیر اعظم مودی کو مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کے حصے کا پانی نہ روکا جائے۔
نریندر مودی نے ایک بار پھر ملک کو ہندو انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی بھی بی جے پی ہی کے تھے مگر انہوں نے دانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے وہی کیا تھا جو وقت اور دانش کا تقاضا تھا۔ مودی نے اچھی خاصی وزارتِ عظمٰی کو پاکستان کے خلاف نیا محاذ کھڑا کرنے میں ضائع کرنے کی ٹھان لی ہے۔ بڑی طاقتوں کی نقّالی میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعوٰی تو کردیا گیا مگر کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ بھارتی فوج میں اتنی صلاحیت ہے۔ اور تو اور، برطانوی اور امریکی میڈیا بھی اس معاملے میں تشکیک کا شکار ہے۔
پاکستان ایک زندہ حقیقت ہے۔ اِس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ نئی دہلی کے بزرجمہر جب تک نفرت اور تعصب کا پیرا ڈائم ترک نہیں کریں گے تب تک نئی سوچ نہیں ابھرے گی۔ سرجیکل اسٹرائیک کے نام پر بلا جواز کراس بارڈر فائرنگ اور طارق فتح جیسے منہ کے چُھٹ بھیّوں کی ہرزہ سرائی سے پاکستانیوں کو مرعوب نہیں کیا جاسکتا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات کرنے والوں کو خیال تک نہیں آتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ پاکستان کو نیپال، بنگلہ دیش یا سری لنکا سمجھنا حماقت کی انتہا سمجھا جائے گا۔ ایسا شاید پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف جنگی جُنون پروان چڑھائے جانے پر خود بھارت کے سیاست دان، دانشور اور فنکار سیخ پا ہوئے ہیں۔ یہ محض مودی سرکار کے لیے نہیں بلکہ بھارت میں پاکستان مخالف سوچ پروان چڑھانے والوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ اچھا ہے کہ دہلی کے پالیسی میکر تھوڑے کو بہت اور خط کو تار سمجھیں۔