"MIK" (space) message & send to 7575

سُر میں گایا تو مار کھاؤگے!

آپ اگر اب تک معیار کی تلاش میں ہیں یا اپنا معیار بلند کرنے کے فراق میں ہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ غلط زمانے میں پیدا ہوگئے ہیں یا پھر آپ کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ فی زمانہ معیاری ہونا بجائے خود نا اہلی کی ایک نمایاں علامت ہے! وہ زمانے اب صرف ہمارے حافظے کا حصہ ہیں جن میں معیار کے حوالے سے بحث ہوا کرتی تھی۔ اب اگر کسی سے معیار کے بارے میں تبادلۂ خیال کی کوشش کیجیے تو وہ حیرت سے تکنے لگتا ہے گویا آپ کسی اور سیّاے کی مخلوق ہوں! 
اگر چند ایک معاملات خرابی سے دوچار ہوں تو انہیں درست کرنے پر توجہ دی جاسکتی ہے اور دی جانی چاہیے مگر جب سبھی کچھ الٹ، پلٹ گیا ہو تو پھر کسی بھی معاملے میں اعلٰی معیار کی تلاش سعیٔ لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔ سُکون ہی کا معاملہ لیجیے۔ ہر طرف، ہر معاملے میں اتنی ہڑبونگ ہے کہ سُکون کی تلاش میں نکلنے والے اپنے گھر کا پتا بھی بھول جاتے ہیں! ع 
اب اِس جہاں میں تلاشِ وفا ہے کارِ فضول 
یہ کھیت سُوکھ چکا، اِس میں اب اناج نہیں 
اب معاملہ چند شعبوں تک محدود نہیں رہا بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں اعلٰی معیار کی پروا کرنے والے پریشانی اور تباہی سے دوچار ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بات کیجیے تو ڈھنگ سے پڑھانے والے اوّل تو خال خال ہیں اور ان کے لیے بھی توقیر کا سامان نہیں۔ کوئی اگر معیاری طریقے سے پڑھا رہا ہو تو طلباء و طالبات اور والدین دونوں ہی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شاید کسی اور سیّارے سے آیا ہے! کسی بھی موضوع پر دیا جانے والا لیکچر اگر ایک لگے بندھے پیٹرن سے ہٹ کر ہو تو لگتا ہے کسی اور زبان میں کوئی ''نظریہ‘‘ بیان کرکے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 
وہ لطیفہ تو آپ نے سُنا ہی ہوگا کہ ایک صاحب نے دودھ والے سے شکایت کی کہ کل تم جو دودھ دے گئے تھے کیا اُس میں کوئی زہریلی چیز گرگئی تھی۔ جس چیز میں بھی وہ دودھ ڈالا وہ خراب ہوگئی اور پینے والوں کی حالت پتلی ہے۔ دودھ والے نے معذرت چاہتے ہوئے کہا صاحب جی! غلطی ہوگئی۔ دراصل کل میں دوہنے کے بعد دودھ میں پانی ملانا بھول گیا تھا! 
آپ نے بھی مشاہدہ تو کیا ہوگا یا ذاتی تجربہ ہوگا کہ خالص چیز معدے کو خراب کردیتی ہے۔ مثلاً اصلی گھی معدے کی گنجائش سے زیادہ کھایا جائے تو ہاضمے کی چُولیں ہل جاتی ہیں۔ ذرا سی دیر میں پیچش لاحق ہو جاتی ہے۔ یہی حال آم کا بھی ہے۔ لوگ لذّت کی خاطر آم کھاتے چلے جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پیچش کی منزل تک پہنچ کر دم لیتے ہیں! 
جب ہاضمہ تلپٹ ہوچکا ہو تو کسی بھی خالص چیز کے کھانے کا یہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔ جو معاملہ معدے کا ہے وہی مزاج کا بھی ہے۔ اگر کسی کے مزاج میں اعلٰی معیار کو برداشت یا ہضم کرنے کی صلاحیت پائی ہی نہ جاتی ہو یا پروان نہ چڑھائی گئی ہو تو کوئی بھی معیاری چیز بدہضمی ہی پیدا کرے گی۔ کوئی بھی چیز خالص حالت میں استعمال کی جائے تو پہلے حالت خراب ہوتی ہے اور پھر حالات خراب ہونے لگتے ہیں! 
ہم ہر چیز میں ملاوٹ اور تصنّع کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب اگر کوئی چیز خالص حالت میں دکھائی بھی دے جائے تو الرجی سی ہونے لگتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ خبر صرف خبر کے روپ میں اچھی لگتی تھی۔ ہم چاہتے تھے کہ کچھ جاننے کو ملے اور خبر کی شکل میں مل جاتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ ہم خبر کے پردے میں کچھ اور چاہنے لگے۔ یعنی یہ کہ خبر میں تھوڑا بہت تڑکا اور ''ششکا‘‘ وغیرہ بھی ہو تو مزا ہی آجائے۔ یوں خبر کی آڑ میں مزا دینے والے خبر نگار اور تجزیہ کار سامنے آئے اور چیزوں کو زیادہ سے زیادہ مزیدار بنانے کی کوشش میں ہمارے منہ کا ذائقہ ہی خراب کر بیٹھے! اور انہیں کیا الزام دیجیے، منہ کا ذائقہ ہم نے خود خراب کیا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اب کوئی خبر جب تک پوری طرح سجاکر، پنجابی فلموں کی معروف جگت اور بڑھک کی مدد سے دو آتشہ کرکے پیش نہ کی جائے بات نہیں بنتی، دل ٹُھکتا نہیں! 
اُس زمانے کو گزرے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب اخباری تجزیہ واقعی تجزیہ ہوا کرتا تھا اور کسی کی حاشیہ برداری کرتے وقت ہاتھ پاؤں بچاکر چلنا پڑتا تھا۔ اب تجزیوں میں جانب داری اور حاشیہ برداری یعنی پارٹی بھگتانے کی روش خطرناک حد تک در آئی ہے۔ شرم لکھنے والوں کو آتی ہے نہ اُنہیں جنہیں اُن کے اصل قامت سے بہت بلند ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اِس سے بھی بُری ہے ''انجمنِ ستائشِ باہمی‘‘ کی رکنیت! یہ عمل بڑھتے بڑھتے ایک دوسرے کو ''احسنِ تقویم‘‘ کا بہترین نمونہ قرار دینے پر منتج ہوتا ہے! 
اداکاری جب تک اداکاری تھی مزا دیتی تھی۔ پھر اداکاری کے نام پر بھی اداکاری کا چلن پروان چڑھتا گیا۔ اب فلم دیکھیے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اداکاری کے نام پر، مکالمے ادا کرنے کے نام پر کیا ہو رہا ہے۔ اسٹیج یا اسکرین پر صرف دھما چوکڑی مچانے کو رقص کا نام دے دیا گیا ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیجیے۔ ہماری تو فلم انڈسٹری ہی چوپٹ ہوکر رہ گئی۔ 
ایک دور تھا کہ فلم باضابطہ لکھی جاتی تھی یعنی کوئی اسٹوری لائن ہوتی تھی اور اُسی کے مطابق اسکرین پلے لکھا جاتا تھا۔ اب خیر سے اِس تکلّف کی ضرورت باقی نہیں رہی یا محسوس نہیں کی جاتی۔ فلم دیکھنے کے بعد اگر کوئی کہانی دریافت کرلے تو اُس کی ذہانت پر رشک کرنا چاہیے! اگر ٹھوس اسٹوری لائن پر فلم بنائیے اور ہر اعتبار سے توازن برقرار رکھیے تو لوگ یہ شِکوہ کرتے نہیں تھکتے کہ پتا نہیں کیسی فلم بنائی ہے اور کس کے لیے بنائی ہے! 
معیار کو اپنانے سے گریز کی روش نے ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں ہر معیاری چیز معیار سے گری ہوئی محسوس ہوتی ہے! سب سے بُرا حال سنگیت کی دنیا کا ہے۔ یاد کیجیے تو یقین نہیں آتا کہ ہم اُن زمانوں سے گزر کر آئے ہیں جب ہر طرف سُر کا راج تھا۔ جو سُر میں نہیں ہوتا تھا وہ مار کھا جاتا تھا۔ کسی کو اگر گانے کا شوق ہوتا تھا تو زیادہ نہ سہی، دس بارہ سال تو سیکھنے میں لگا ہی دیتا تھا۔ اُستاد بھی ایسے تھے کہ جب تک تمام خامیوں اور کمزوریاں دور نہیں ہو جاتی تھیں، شاگرد کو گانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اُنہیں اپنی بدنامی سے زیادہ سُر اور تال کی توقیر کا احساس تھا! 
پُرانے گانے سُنیے تو یقین نہیں آتا کہ ایسے گانے تیار کرنے والے موسیقار، نغمہ نگار اور گلوکار ہمارے ہی معاشرے میں پائے جاتے تھے۔ کبھی کبھی تو کسی گیت کی تیاری یعنی بے داغ ریکارڈنگ میں ایک ایک ہفتہ لگ جاتا تھا۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ موسیقار مطمئن ہو جائے تو گلوکار خود کہہ دیتا تھا کہ کچھ کمی رہ گئی ہے، ایک بار پھر ریکارڈ کرالیجیے۔ 
اب عالم یہ ہے کہ سیکھنے کا تصوّر خیال و خواب کی نذر ہوچکا ہے۔ کسی سے کہیے کہ آواز اچھی ہے اس لیے کیا ہی اچھا ہو کہ کچھ سیکھ کر سُر میں آجاؤ تو جواب ملتا ہے سیکھ کر کیا مار کھانی ہے! 
کہانی یہ ہے کہ بے ڈھنگا گا گاکر گانے والوں نے خود کو تن آسانی کے پنجرے میں بند کرلیا ہے۔ اب اگر کچھ ڈھنگ کا گوانا چاہیں تو اُن سے گایا نہیں جاتا۔ اور بے سُرے آئٹم سُن سُن کر لوگوں کا مذاق (یعنی ذوق) بھی ایسا بگڑا ہے کہ اگر اُنہیں کوئی چیز ہر اعتبار سے سُر میں سُنائی دے اور تمام معیارات پر پوری اترتی ہو تو عجیب سی لگتی ہے! اِس صورتِ حال کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب لوگ سُر وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑتے۔ اور تال کی بھی پروا نہیں۔ جو چیز کانوں کو بھلی لگ رہی ہو وہ بخوشی سُن لیتے ہیں، خواہ گانے کے نام پر محض شور برپا کیا گیا ہو! 
سِکھانے والے بھی جانتے ہیں کہ اب جس نے سیکھا وہ برباد ہوا۔ ایک دور تھا کہ اُستاد چاہتے تھے کہ اُن کا شاگرد فن میں پَکّا ہو تاکہ وہ جب گائے تو کسی معاملے میں ڈنڈی نہ مارے اور لوگ اُستاد کو گالیاں نہ دیں! اب خیر سے اُستاد خود بھی سُر میں گانے سے پرہیز کرتے ہیں اور شاگرد کو بھی تلقین کرتے ہیں کہ اُصولوں اور معیار وغیرہ کے چکر میں نہ پڑے ورنہ بھری محفل میں پیٹی باجے کی ضمانت ضبط ہوجائے گی! ؎ 
ایک اُستاد نے یہ فرمایا 
صرف گایا تو کھا کماؤگے 
ساتھ ہی انتباہ بھی یہ کیا 
سُر میں گایا تو مار کھاؤگے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں