حقیقت یہ ہے کہ ہر محلے کا اپنا رنگ ڈھنگ ہوتا ہے۔ ایسے میں شہر کا اپنا انداز ہو تو حیرت کی بات کیا ہے۔ جس طور لاہور ایک خاص رنگ اور ڈھنگ کے معمورے کا نام ہے بالکل اُسی طور کراچی بھی ایک اپنا ہی مزاج رکھتا ہے۔ لاہور کے قدیم علاقوں میں رہنے کا لطف کیا ہوگا جب اِن گلیوں میں کچھ دیر گھوم پھر کر زندگی کا مزا آنے لگتا ہے۔ وہاں قدم قدم پر ایک ایسی طرزِ زندگی کے درشن ہوتے ہیں جو پاکستان نامی کائنات کی دیگر شہری کہکشاؤں میں نہیں پائی جاتی! کراچی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اِس کے چند پُرانے علاقوں کا رنگ ڈھنگ سلامت ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر گزرے، کتنے ہی جتن کر دیکھے ... اولڈ سٹی ایریا کے اطوار بدلتے ہیں نہ رنگ ڈھنگ۔ اور ''فلیور‘‘ کی تو خیر بات ہی کیا ہے۔ جو شخص ایک بار اِس فلیور کا عادی ہوجائے یعنی اِن گلیوں میں رہ لے وہ پھر کہیں کا یعنی کہیں اور کا نہیں رہتا۔
رنچھوڑ لین، گارڈن، لسبیلہ، سولجر بازار، صدر، موسٰی کالونی، شاہ فیصل کالونی، ملیر، لانڈھی، نیو کراچی، لیاقت آباد، پاک کالونی، ناظم آباد اور دوسرے بہت سے علاقوں میں زندگی کچھ اِس نوعیت کی ہے کہ معاملہ وہی ہے جو خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ نے بیان کیا تھا ع
چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
اِن تمام علاقوں میں زندگی بسر کرنے والے ایک خاص رنگ، بُو اور ذائقے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ ہر رنگ، ہر بُو اور ہر ذائقہ ایسا ہے کہ ؎
پھر نظر لَوٹ کر نہیں آئی
اُن پہ قربان ہو گئی ہو گی!
کراچی کے علاوہ سندھ میں اور بھی شہر ہیں جو اپنا ہی بانکپن رکھتے ہیں۔ حیدر آباد کا معمورۂ بے نظیر کوئی آج کل کی چیز نہیں۔ صدیوں سے آباد ہے اور اپنا ہی ایک منفرد انداز رکھتا ہے۔ اِس کے قدیم علاقوں کی تنگ و تاریک گلیوں میں زندگی بسر کرنا بھی کھچا کھچ بھری ہوئی بس میں سفر کرنے جیسا ہے! تنگ و تاریک گلیوں میں جینا غیروں کو عجیب لگتا ہوگا، وہاں کے مکینوں کو اِس ماحول سے ہٹ کر جینا منظور نہیں۔ باہر سے نظارہ کرنے والوں کو محسوس ہوتا ہے ع
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
مگر حیدر آباد کے قدیم علاقوں میں رہنے والے آگ کے دریا میں دم بہ دم ڈبکی لگانے کو تیار ہی نہیں، بے قرار بھی رہتے ہیں!
بات ہو رہی ہے شہر کے مجموعی فلیور یعنی مزاج کی۔ ملک کراچی، لاہور اور حیدر آباد کے علاوہ بھی کئی شہر ہیں جن کا اپنا رنگ اور ذائقہ ہے مگر ایک معاملے میں کراچی نے سب کو مات دے دی ہے۔ اور اِس معاملے میں دیگر شہر اِس قدر ''پھسڈّی‘‘ واقع ہوئے ہیں کہ کراچی سے مسابقت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
یہ سطور پڑھ کر دیگر شہروں کے دل چھوٹا نہ کریں، قلب و نظر پر بوجھ محسوس نہ کریں۔ دل چھوٹا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بیشتر معاملات میں کراچی بھی اُن کے شہروں جیسا ہی ہے۔ کسی ایک معاملے میں تو ہر شہر کو آگے نکل ہی جانا ہوتا ہے سو کراچی بھی آگے نکل گیا ہے۔
آئیے، شہرِ قائد کی انفرادیت کی بات کریں۔ جب دوسرے شہر سو رہے ہوتے ہیں تب کراچی جاگ رہا ہوتا ہے۔ یہ جملہ اب ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے کہ کراچی میں راتیں جاگتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس ''اعزاز‘‘ کو نبھانے کی خاطر کراچی کے باشندے رات رات بھر جاگ کر خود کو ''بوم پرست‘‘ ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں!
جاگتی راتیں کیا کرتی ہیں؟ بہت کچھ سُلا دیتی ہیں، اور کیا؟ کراچی میں بھی یہی ہوا ہے۔ فطرت کے اُصولوں کے برعکس جینے کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔ کراچی کی جاگتی راتوں نے شہر میں بہت کچھ سُلادیا ہے! صحت اور آرام دونوں ٹھکانے لگ چکے ہیں۔
شہرِ قائد کے باشندے اب رات بھر خواہ مخواہ جاگنے کے یُوں عادی ہوچکے ہیں جیسے یہ روش، خدا ناخواستہ، کسی بزرگ کی بد دعا کا نتیجہ ہو! باقی پاکستان سمیت دنیا بھر میں معمول یہ ہے کہ لوگ رات کو جلد بستر پکڑتے ہیں اور علی الصباح بیدار ہوکر زندگی دوبارہ آغاز کرتے ہیں۔ کراچی میں دن کے بارہ بجے صبح ہوتی ہے ... بلکہ بعض ''ڈھیٹ علٰی ڈھیٹ‘‘ قسم کے لوگ تو ظہر کی اذان کو فجر کی اذان گردانتے ہوئے آنکھیں کھولتے ہیں! یعنی جب دن تقریباً جاچکا ہوتا ہے تب کراچی میں دن کا آغاز ہوتا ہے!
اور پھر کچھ دیر بستر پڑے رہنے کا اور ناشتے کا دورانیہ بھی ملائیے تو معلوم ہوگا کہ لوگ دن کے دو بجے سوچتے ہیں کہ اب کچھ کیا جائے یعنی کام پر بھی جایا جائے! زہے نصیب! اگر اس قدر دن چڑھے بھی وہ کام کا نہ سوچیں تو ہم آپ کیا بگاڑ لیں گے!
رنچھوڑ لین، رام سوامی، گارڈن، کھارادر، بوہرہ پیر، برنس روڈ اور دوسرے بہت سے قدیم علاقوں میں دکانیں دن ڈھلے کھولنے کا رواج ہے۔ اور ظاہر ہے یہ دکانیں بند بھی رات گیارہ بجے کی جاتی ہیں۔ دکان سے واپسی کے بعد لوگ ریفریش ہوکر رات ایک بجے گھر سے نکلتے ہیں کہ باہر کچھ کھائیں پئیں اور یاروں کے ساتھ خوش گپیاں کریں! دیکھا آپ نے؟ کیا ہی ''سادہ و پُرکار‘‘ زندگی ہے! ع
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
ہم جس اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رہتے ہیں وہاں کی دکانوں میں کوئٹہ پشین والے پٹھانوں کے دو ہوٹل بھی ہیں۔ ایک ہوٹل والے نے مُرغے پال رکھے ہیں۔ اِن مُرغوں کی ایک عادت سے لوگ حیران ہیں مگر ذرا بھی حیران نہیں۔ لوگوں کو حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ یہ مُرغے دن میں بارہ سے تین سے دوران بانگ دیتے ہیں!
اِنسانوں کو اپنے فرائض یاد ہوں نہ ہوں، حیوانات کو یاد رہتے ہیں۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اُن کی بانگ سے لوگ اُٹھتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ بانگ اُسی وقت دیں گے جب لوگوں کو اُٹھنا ہو! اگر اہلِ کراچی نے اپنی عادات کو مزید بگاڑا تو کل کو یہ مُرغے مغرب کی اذان کے وقت بھی بانگ دے رہے ہوں گے! جہاں لوگ فطرت کو بھول کر اپنی مرضی کی زندگی بسر کر رہے ہوں وہاں بے چارے مُرغوں کی شامتِ اعمال کا یہ نتیجہ تو برآمد ہونا ہی تھا!