ہماری سیاست کو بھی قدرت نے ایسا وصف بخشا ہے کہ اِس کی کوکھ سے وہ سب کچھ برآمد ہوتا رہتا ہے جو نامطلوب ہو۔ قوم متمنّی و منتظر رہی ہے کہ ہمارے قائدین سیاست کے نام پر کبھی کوئی کام کی راہ بھی دکھائیں مگر اے وائے ناکامی کہ اب تک تو ایسا نہیں ہوا۔ اور کبھی ایسا ہوسکے گا اِس کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا تو قوم نے اپنے دل و دماغ کی زمین میں خوش فہمی کا پودا لگایا۔ توقع تھی کہ وہ کچھ ایسا کریں گے جس سے سیاست میں وہ چھکا لگ جائے گا جس کا انتظار ہے اور قوم کے دشمنوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔ قوم نے جو کچھ چاہا ہے وہ کب ہوا ہے؟ سو اِس بار بھی قوم کا ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑا۔
عمران خان نے احتجاج کے گھوڑے پر سوار ہوکر دھرنے کے میدان کا شہسوار بننا چاہا تو قوم نے پھر پُراُمّید رہنے پر کمر کس لی۔ سمجھانے والوں نے سمجھایا کہ یوں بات بات پر اُمّیدوں کے ہوائی قلعے تعمیر کرنا درست نہیں۔ مگر جذبات میں بلا کی شدت پائی جاتی ہو تو کوئی کسی کی بات کب سنتا ہے؟ اور اگر سُن بھی لے تو سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ پاکستانی قوم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ بالخصوص نوجوانوں کا۔ وہ عمران خان کے سِحر میں ایسے مبتلا تھے کہ اُن کے بارے میں غیر جانب دارانہ تجزیے پر مبنی کوئی بھی بات سُننے کے لیے راضی نہ ہوئے۔
پھر یہ ہوا کہ تحریکِ انصاف کی اچھی خاصی سیاست قوم کی بے جا توقعات کی نذر ہوگئی۔ لوگ چاہتے تھے کہ عمران خان کچھ نیا کر دکھائیں۔ یہ خواہش ایسی نہیں کہ دل میں پیدا ہو اور عملی سطح پر نمودار بھی ہو جائے۔ کچھ نیا کر دکھانے کے لیے اپنے اندر بھی کچھ نہ کچھ نیا پیدا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بنیادی شرط پوری کیے بغیر خان صاحب میدان میں نکل آئے اور ایک نیا پاکستان تشکیل دینے کی مشقّت کے نام پر گناہِ بے لذّت کا ارتکاب شروع کردیا۔ ہم وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سیاست کے نام پر تحریکِ انصاف کی طرف سے مچائی جانے والی ساری دھما چوکڑی اگر گناہِ بے لذّت تھی یا ہے تو صرف قوم کے لیے۔ عمران خان تمام معاملات سے اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق لذّت کشید کرتے رہے ہیں!
ڈھائی سال قبل عمران خان نے حکمرانوں کا ناطقہ بند کرنے کی خواہش کو بارآور بنانے کے لیے اسلام آباد کے حسّاس ترین علاقے میں دھرنا دیا تھا۔ یہ دھرنا ایسا ''غضب ناک‘‘ تھا کہ قوم حیران رہ گئی۔ ہمیں یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پورس بھی اپنے ہاتھیوں کو پلٹتا دیکھ کر اِس قدر حیران نہ ہوا ہوگا!
لوگ سمجھ رہے تھے کہ دھرنا مکمل طور پر بانجھ ثابت ہوگا اور اِس کی کوکھ سے کچھ بھی، بلکہ ککھ بھی برآمد نہ ہوگا۔ مگر لوگ غلط نکلے۔ قدرت نے ثابت کیا کہ ع
نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں
بند گھڑی بھی دن میں دو بار وقت کی بالکل درست نشاندہی کرتی ہے۔ ایسے میں قدرت کا ایک بنیادی اصول کیوں غلط ثابت ہوتا یعنی دھرنے کا نتیجہ صفر کیوں رہتا؟ مگر ہاں، دھرنے کے بطن سے جو کچھ برآمد ہوا وہ عمران خان کے چاہنے والوں اور تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھا۔
دھرنا جس مقصد کے لیے دیا گیا تھا وہ تو پورا نہ ہوا۔ ''تخت اسلام آباد‘‘ کے حکمرانوں کا تو ککھ بھی نہ ہلیا مگر ہاں، عمران خان نے اپنے گھر کے لیے ایک عدد حکمران کا اہتمام ضرور کرلیا! ابھی تحریکِ انصاف کے کارکن دھرنے کے بے نتیجہ رہنے پر ماتم کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ عمران خان نے اُنہیں شادیانے بجانے کا پیغام دے دیا! راتوں رات یہ ہوا کہ ریحام خان اُن کی شریکِ حیات بن گئیں۔ یہ خوشی کا معاملہ تھا مگر تحریکِ انصاف کے کارکنوں پر تو بجلی بن کر گرا۔ کیوں نہ گرتا؟ وہ سوچتے ہی رہ گئے کہ دھرنا کیا اِس ٹائپ کی ہنگامہ پروری کے لیے دیا گیا تھا! اور کیا ع
دِن گنے جاتے تھے ''اِس‘‘ دن کے لیے؟
تحریکِ انصاف کس مقصد کے لیے قائم ہوئی تھی اور بنیادی حکمتِ عملی کیا تھی یہ اب کسی کو یاد نہیں۔ کارکن بے چارے کس گنتی میں ہیں، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور نعیم الحق سے بھی پوچھ دیکھیے تو شاید وہ بھی تحریکِ انصاف کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے تشفّی بخش توضیح نہ کرپائیں۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے تحریکِ انصاف کے قیام کا ایک مقصد شاید یہ بھی رہا ہو کہ ویرانے آباد ہوجائیں، گھر بس جائیں یعنی بات نہ بن رہی ہو تو بن جائے اور شادی نہ ہو رہی ہو تو ہو جائے!
یہ طرفہ تماشا ہے کہ جب بھی تحریکِ انصاف کوئی تحریک چلاتی ہے، معاملات عمران خان کی شادی تک پہنچنے لگتے ہیں۔ جب وہ کرکٹ کے میدان میں تھے تب بھی اُن کی شادی کا معاملہ وقفے وقفے سے سَر اٹھاتا رہتا تھا۔ اور آج بھی یہی معاملہ ہے۔ یعنی عمران خان کے لیے تو معاملات ذرا بھی نہیں بدلے۔ ایسے میں وہ پاکستان کو کس طور بدلیں گے؟ کیا تمام پاکستانیوں کی نئے سِرے سے شادیاں کرواکے؟
عمران خان نے گزشتہ دنوں انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں دوست کی بہن کی شادی کے موقع پر لوگوں سے گفتگو میں تیسری شادی کا عندیہ دیا۔ روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والی ایک خبر میں ''انکشاف‘‘ کیا گیا ہے کہ (تیسری) شادی کے ذکر پر عمران شرماگئے!! تقریب میں موجود لوگوں نے جب شادی کے بارے میں رائے مانگی تو عمران نے کہا کہ اُن کا ٹریک ریکارڈ درست نہیں۔ ساتھ ہی لوگوں سے یہ بھی کہا کہ وہ دعا کریں کہ تیسری شادی کامیاب ہو۔ بار بار ''بیچلر شپ‘‘ کے گڑھے میں گرنے والے ہمارے ہیرو کا کہنا تھا کہ طلاقوں کی بدولت شادی پر اُن کا یقین پختہ تر ہوگیا ہے! ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ زندگی کے حوالے سے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ کچھ بھی معلوم نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے۔
عمران نے لوگوں سے کہا کہ تیسری شادی کی کامیابی کی دعا کریں۔ ہمارے خیال بھی دعا کی ضرورت اُن کی گھریلو زندگی سے زیادہ اُن کی سیاست کو ہے! شادی کے حوالے سے ٹریک ریکارڈ کی خرابی کا ذکر تو عجز و انکسار کے اظہار کی خاطر تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں اُن کا ٹریک ریکارڈ قابلِ رحم حد تک گیا گزرا ہے!
تیسری شادی کے ذکر پر شرمانے کی بات خوب رہی۔ ہمارا بے لوث اور مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ عمران خان اب سیاست کے نام پر بھی تھوڑا بہت شرمالیا کریں تاکہ قوم کو سُکون سے جینے موقع ملے! ناکام شادیوں سے شادی پر یقین پختہ تر ہونے والا نکتہ ایسا بلیغ ہے کہ ہم اِس پر اپنی رائے کی چُھری چلانے سے گریز ہی کریں گے۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین کہتے ہیں کہ آنے والے کل کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہونا اچھی بات ہے۔ یہ سہولت اُنہیں میسّر ہے، قوم کو نہیں۔ قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ تحریکِ انصاف اور اِسی قبیل کی دیگر جماعتیں سلامت ہیں تو آنے والا کل بھی بلا جواز دھرنے اور سمت سے محروم احتجاجی تحریکیں لے کر آئے گا!
تحریکِ انصاف کے حامیوں کی سابق ''خاتونِ اوّل‘‘ ریحام خان کہتی ہیں کہ اُن کا اور خان صاحب کا ٹریک الگ تھا۔ اور یہ کہ وہ محض شادی کو کامیاب بنانے کے لیے ٹریک تبدیل نہیں کرسکتی تھیں۔ عمران خان بھی ٹریک کی بات کرتے رہے ہیں۔ ہم جیسے سادہ لوح کیا جانیں کہ اِس ایک لفظ کے ذریعے کون کیا بتانا چاہتا ہے اور کیا چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ فریقین کی طرف سے ٹریک کی بات ٹریکٹر بن کر ہمارے دل و دماغ کو روندتی ہوئی گزر گئی ہے!
یہ ساری سخن گسترانہ بحث اپنی جگہ۔ کسی کا گھر بس رہا ہو تو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ دل کھول کر دعا دینی چاہیے۔ عمران خان کی سیاست سے ہمیں اب تک کچھ نہیں ملا۔ پھر بھی خوشی کی بات ہے کہ سیاست نے کم از کم اُنہیں تو محروم نہیں رکھا۔ ایک ناکام دھرنے کی کوکھ سے اُن کے لیے دوسری بیوی نمودار ہوئی۔ اب جبکہ دوسرا دھرنا شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا ہے تو اُمّید کی جانی چاہیے کہ اُس کے پہلو سے بھی عمران خان کے لیے تیسری بیوی ہوَیدا ہوکر رہے گی۔ عمران خان ایوان ہائے اقتدار کا قبلہ درست نہ کرسکے مگر اللہ کرے کچھ ایسا ہو کہ اُن کے اپنے گھر کا قبلہ درست ہوجائے! اتنا بھی ہو جائے تو ہمارے لیے بہت ہوگا ؎
اپنی تباہیوں کا ہمیں کوئی غم نہیں
تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی!