"MIK" (space) message & send to 7575

باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے !

کراچی کے منتخب میئر کو رہائی مل چکی ہے۔ شہر میں کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ بیشتر علاقوں پر کسی اُجڑی ہوئی بستی کا گماں ہوتا ہے۔ سڑکیں چوڑی ہیں مگر اُن پر پولیتھین بیگز اور کاغذ کے ٹکڑے اڑتے پھرتے ہیں۔ بیشتر سڑکوں کے کنارے مٹی کے ڈھیر لگے ہیں۔ سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کے بہت سے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر معاملات کو کسی جواز کے بغیر الجھا دیا ہے۔ اور کل یعنی 30 نومبر کو دنیا نیوز کے پروگرام آن دی فرنٹ میں میزبان کامران شاہد سے گفتگو میں سندھ کے وزیر اعلٰی سید مراد علی شاہ نے صاف کہہ دیا کہ پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی نمائندوں کو غیر معمولی اختیارات دیئے گئے تھے۔ اب ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ کہ غیر معمولی اختیارات دیئے جانے ہی سے کراچی میں سرکاری اراضی کی بلا جواز اور غیر قانونی فروخت (چائنا کٹنگ) کا آغاز ہوا۔ 
سندھ کے وزیر اعلیٰ کا یہ بیان بہت کچھ، بلکہ سب کچھ بیان کردیتا ہے۔ یعنی اب کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں سے منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کو صوبائی حکومت سے اختیارات اور فنڈز کے معاملے میں کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہئیں۔ اور ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے تو ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وزیر اعظم سندھ حکومت کو بائی پاس کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو براہِ راست فنڈز دیں! 
جب معاملات یہاں تک پہنچ چکے ہوں تو دسمبر میں بھی جون کی سی گرمی کی امید کیوں نہ رکھی جائے؟ سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات کو زیرو پوائنٹ تک پہنچاکر دم لیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جس طور پارلیمنٹ کے پہلو میں ایوان صدر محض ربر اسٹیمپ ہوکر رہ گیا ہے بالکل اسی طور بلدیاتی ادارے بھی شو پیس کا کردار ادا کریں گے تاکہ باہر سے آنے والوں کو بتایا جاسکے کہ کراچی جیسے میگا سٹی کا بھی ایک میئر بہرحال ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ چھوٹے شہروں میں چیئرمین پائے جاتے ہیں۔ 
اہل کراچی ہوں یا اہل لاہور ... یا پھر کسی اور شہر کے اہل، سچ یہ ہے کہ معاملات کو صرف باتوں اور بیانات کے چاک پر گھمایا جارہا ہے۔ مسائل پر دن رات بحث ہوتی ہے۔ یقین نہ آئے تو ٹی وی سیٹ آن کرکے دیکھ اور سُن لیجیے۔ کسی بھی مسئلے کا کون سا پہلو ہے جس پر بات نہیں ہوتی؟ ہر معاملے کو دلائل اور جوابی دلائل کی کھرل میں ڈال کر ایسا کُوٹا جاتا ہے کہ دیکھنے اور سُننے والوں کے دل و دماغ ہل کر رہ جاتے ہیں۔ مگر اے وائے ناکامی کہ نتیجہ وہی نکلتا ہے جو نکلتا آیا ہے، یعنی ڈھاک کے تین پات۔ پرنالے ذرا بھی جگہ نہیں بدلتے، وہیں کے وہیں بہتے رہتے ہیں۔ سب مسیحائی کے دعوے کرتے پھرتے ہیں مگر کوئی بڑی جراحت تو دور رہی، زخم پر معمولی سی پٹی رکھنے کی بھی زحمت کوئی گوارا نہیں کرتا۔ اُستادِ محترم رئیسؔ امروہوی نے خوب کہا ہے ؎ 
تمہیں شکستہ دلوں کا خیال ہی تو نہیں 
خیال ہو تو کرم کے ہزارہا پہلو! 
ہم جمہوریت چاہتے ہیں۔ اور ہمارے چاہنے کی لاج رکھتے ہوئے ربّ العالمین ہمارے دریدہ دامنِ دل میں جمہوریت کی خیرات ڈال بھی دیتا ہے مگر جب جب جمہوریت آئی ہے، ہم نے پہلے سے بڑھ کر مشکلات جھیلی ہیں۔ اِس میں کیا شک ہے کہ ہماری رائے سے حکومت کا تشکیل پا جانا بہت بڑی نعمت ہے مگر اِسے کیا کہیے کہ جب جب ہم نے اپنے لیے نمائندے منتخب کیے ہیں ہمارے ساتھ ہی معاملہ رہا ہے جس کا پورس کی فوج کو ہاتھیوں کے ہاتھوں سامنا کرنا پڑا تھا۔ جیسی تیسی حالت میں ہم تک ایک بار پھر پہنچنے والی جمہوریت کے دامن میں ہمارے لیے پھول تو کیا، ڈھنگ کے کانٹے بھی نہیں! جنہیں ہم بہتر حکمرانی کے لیے منتخب کرتے ہیں وہ ہمیں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ 
سندھ کے شہری علاقوں اور صوبائی حکومت کے درمیان پائی جانے والی کشمکش یا سرد جنگ ہو یا پھر وفاقی سطح پر ن لیگ اور پی ٹی آئی کا جھگڑا، دونوں ہی (اور ایسے دوسرے بہت سے معاملات میں) خسارے کا پوٹلا صرف اور صرف عوام کے سَر پر لادا جاتا ہے۔ پرویز مشرف کے دور کے اواخر میں وارد ہونے والی جمہوریت کو خیر سے ساڑھے آٹھ سال ہوچکے ہیں مگر اب تک عوام کے لیے بہتر امکانات کی فصل نہیں اُگی۔ اُمیدوں کی کھیتی ویران تھی سو ویران ہے۔ عوام کی قیادت کے دعوے کا جھنڈا لہراتے ہوئے جو لوگ منظر عام پر موجود ہیں وہ اب تک سنجیدہ ہیں نہ مستعد۔ آپس کی لڑائی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایک طرف تو حکومت کے ارادوں میں کمزوری ہے اور دوسری طرف اُن کی کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس (حکومت) کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی بھرپور زک پہنچانے والے سیاست دان بھی کم فعال نہیں۔ جنہیں آرڈر پر مال تیار کرنے کی عادت پڑچکی ہے اُنہیں صرف ذاتی مفاد سے غرض ہے اور اِس بات 
کی اُنہیں کوئی فکر نہیں کہ منتخب حکومت کی راگنی میں خلل ڈالنے کی ہر کوشش عوام کے بچے کھچے امکانات کا بھی بینڈ بجا دیتی ہے! 
ہمیں یاد آیا کہ خرم سہیل نے چند برس قبل مختلف شعبوں کی نامور ہستیوں سے انٹرویوز کیے اور ان کا مجموعہ ''باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ خرم سہیل کے ذہن میں کیا تھا اور انٹرویوز کے مجموعے کا نام اُنہوں نے کیا سوچ کر رکھا یہ تو ہم نہیں جانتے مگر کتاب یا یہ عنوان ہماری سیاست کی عمومی اور مجموعی روش کو خوب بیان کرتا ہے۔ یہاں بھی تو باتوں کی پیالی میں چائے ٹھنڈی ہوچکی ہے۔ ٹی وی اسکرین آن کیجیے تو صرف باتیں سنائی دیتی ہیں۔ جلسوں میں جائیے تو وہاں بھی صرف باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کی طرف سے باتیں ہی ہیں باتیں ہیں اور حزبِ اختلاف کی ٹرین بھی باتوں کے پلیٹ فارم پر رکی ہوئی ہے، بلکہ شاید تکنیکی خرابی کے باعث تادیر رکی ہی رہے گی! 
اللہ ہی جانے عوام کا مقدر کب جاگے گا، اسٹیک ہولڈرز کے درمیان چھتیس کا آنکڑا کب ختم ہوگا، باتوں کی پیالی میں جو چائے ٹھنڈی ہوچکی ہے اُسے دوبارہ گرم کرکے پیش کرنے کا کب سوچا جائے گا اور قومی مفادات کی ٹرین باتوں، بیانات اور الزامات کے پلیٹ فارم سے معنویت اور مقصدیت کے اسٹیشن کی طرف کب روانہ ہوگی۔ دعا ہے کہ یہ جمود جلد ٹوٹے اور سخت سردی میں ساری گرما گرمی صرف باتوں کی نہ ہو بلکہ اِس الاؤ میں کچھ لکڑیاں عمل کی بھی ہوں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں