"MIK" (space) message & send to 7575

’’میں کھاؤں، تُو نہ کھا!‘‘

طمع ہے کہ قدرت کی طرف سے بار بار انتباہ کے باوجود ختم ہونے میں نہیں آتی۔ 
شدید نوعیت کا عناد ہے کہ کسی صورت دم توڑنے کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا۔ 
عجلت پسندی ہے کہ ہزار خرابیاں پیدا ہونے پر بھی کسی موڑ پر تھکتی ہی نہیں۔ 
ذہن ہے کہ قدم قدم الجھنے کے باوجود کچھ بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ 
اور دل ہے کہ وسوسوں میں گِھرا رہتا ہے مگر مانتا نہیں۔ 
نریندر مودی کی عجیب حالت ہے۔ پتا نہیں کیا مزاج لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ سمجھانے والے سمجھا سمجھا کر تھک گئے مگر وہ ہیں کہ کچھ سمجھتے ہیں نہ مانتے ہیں۔ 
بھارت ماتا کی جے تک تو معاملہ ٹھیک ہے مگر اِسے کیا کہیے کہ طبیعت پاک ماتا کے احترام پر تو مائل ہی نہیں ہوتی۔ ''میں کھاؤں، تو نہ کھا‘‘ والی ذہنیت پنپتی ہی جا رہی ہے۔ سب کچھ اپنے دامن میں سمیٹ کر فریقِ ثانی کو تہی دامن و تہی دست رکھنے کی سوچ توانا تر ہوتی جاتی ہے۔ علاقے کے چھوٹے ممالک سے وہ جو سلوک روا رکھتا ہے اُسے دیکھتے ہوئے بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ہاتھی کے سینے میں چڑیا کا دل ہے! 
بھارت کا روزِ اول سے بنیادی مخمصہ یہ ہے کہ پاکستان کا نام آتے ہی چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ سات عشرے ہو چکے۔ ایسا کب تک چلے گا؟ عسکری اور سفارتی امور میں پاکستان کو نیچا دکھانے کی روش پر بھارت کب تک گامزن رہے گا؟ بھارت کے لیے وقت آ گیا ہے کہ خطے کے حالات کے تناظر میں پالیسی کے حوالے سے ''پیراڈائم شفٹ‘‘ کی منزل سے گزرے‘ مگر افسوس کہ اس معاملے میں دِلّی اب بھی بہت دور ہے! 
لاکھ کوشش کے باوجود پاکستان کو عالمی برادری میں یکسر تنہا کرنے کی خواہش اب تک پوری نہیں ہو پائی ہے۔ مودی سرکار کو محاذ کھولنے کا بہت شوق ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ع 
شوق ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا 
شدتِ جذبات کے ہاتھوں ہر بار منہ کی کھانا پڑی ہے، ہر کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلنا پڑا ہے۔ امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کے جذبات کا جواب بھارتی قیادت نے جس بھونڈے پن سے دیا اُس پر تمام ہی غیر جانب دار مبصرین حیران اور (اس سے کہیں زیادہ) بے مزا ہوئے۔ پاکستان کے مرکزی مندوب وزیر اعظم کے مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز اور پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط سے جو سلوک روا رکھا گیا وہ ہر اعتبار سے سیاسی آداب کے سراسر منافی تھا۔ 
مودی سرکار کیا چاہتی ہے یا کیا کیا چاہتی ہے، کسی پر کچھ نہیں کھلتا۔ یہ قصہ ذہنی الجھن اور مخمصے کا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ؎
نظر میں الجھنیں، دل میں ہے عالم بے قراری کا 
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سُکوں پانے کہاں جائیں؟ 
پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا عمل کسی تعطل کے بغیر جاری ہے مگر مشکلات ہیں کہ ڈھنگ سے پیدا ہی نہیں ہو پا رہیں کیونکہ ہر بار کسی نہ کسی پیچیدگی کے باعث ''کیس‘‘ بگڑ جاتا ہے! گویا لیبر روم میں مودی سرکار کی ساری ''لیبر‘‘ ضائع ہو جاتی ہے! 
جنوبی ایشیا کا چوہدری بننے کی خواہش ہے کہ انگڑائیاں لیتی نہیں تھکتی مگر کیا کیجیے کہ کوئی نہ کوئی ایسی الجھن منظر پر نمودار ہو جاتی ہے جو اس خواہش کو حقیقت کے قالب میں ڈھلنے سے روک دیتی ہے۔ پاکستان کو بار بار بھارتی پالیسیوں کے حلق میں کانٹے یا ہڈی کی طرح پھنس کر رہ جاتا ہے۔ گویا ہر بار مقطع میں سخن گسترانہ بات آ پڑتی ہے! ہمارے خیال میں کسی ابھرتی ہوئی علاقائی سپر پاور سے اس طرح کا مذاق اچھا نہیں کیونکہ اُس بے چاری کا اچھا خاصا مزا کِرکِرا ہو جاتا ہے! 
اب یہی دیکھیے کہ اِدھر مودی سرکار نے پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کا سوچا اور سفارتی محاذ پر اقدامات شروع کیے‘ اور اُدھر پہلے ترکی اور پھر چین و روس کمر کس کر میدان میں آ گئے۔ امریکا اور یورپ کے ہاتھوں بار بار فریب کھانے کے بعد پاکستان کے پاس یہی ایک آپشن بچا تھا کہ وفاداری کا رخ بدل لے‘ اور وفاداری کا رخ بدلنے کا عمل اب دلجمعی سے جاری ہے۔ 
بھارتی قیادت کا بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ بیک وقت کئی تھالیوں سے کھاتی آئی ہے۔ سوویت یونین سے دوستی اور اشتراکِ عمل کے ذریعے بھارت مال اور تکنیکی مہارت دونوں ہی بٹورتا رہا اور دوسری طرف مغرب سے بھی معاملات ختم نہیں کیے یعنی اُس تھالی سے بھی کھانے کا سلسلہ جاری رہا۔ طرفہ تماشا یہ نہیں کہ دونوں سپر پاورز سے فوائد بٹورے جاتے رہے بلکہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں میں لڈو تھام کر بھی مہاراج غیر جانبدار ہونے کا ڈھونگ رچاتے رہے یعنی ناوابستہ تحریک کے روحِ رواں بھی رہے! ع 
رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنّت نہ گئی! 
اب معاملہ یہ ہے کہ واحد سپر پاور یعنی امریکا اور اس کے ساتھ یورپ کے لیے بھی حالات فیصلہ کن حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔ دونوں کے پاس وہ پہلی سی قوت ہے نہ اختیار۔ ایسے میں دونوں ہی کے لیے ممکن نہیں رہا کہ مختلف خطوں میں اپنے حاشیہ برداروں کو زیادہ نواز سکیں۔ دوسروں نے تو خیر کچھ نہ کچھ پا بھی لیا، ہمارے حکمران ایک زمانے سے امریکا اور یورپ کے کاسہ لیس رہے ہیں مگر حق یہ ہے کہ اب تک ایسا کچھ بھی نہیں ملا جسے ملک اور قوم کے حق میں نیک شگون قرار دیا جا سکے۔ اب راہ بدلنا لازم ہو گیا ہے کہ واحد سپر پاور اور اس کے بغل بچے کی سنگت سے ہمیں من حیث القوم کچھ بھی نہیں مل سکا ہے۔ 
مگر بھارت بہت کچھ دیکھ کر سب کچھ ''اَن دیکھا‘‘ کرنے پر بضد ہے۔ امریکا اور یورپ کی طاقت میں واقع ہوتی ہوئی کمی بھانپ کر پاکستان، چین، روس اور ترکی نے مل کر کچھ نیا کرنے کی ٹھانی ہے۔ پاک چین راہداری منصوبہ بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ ایشیا کے مضبوط ترین ممالک کی طرف سے اپنے آپ کو منوانے کی بھرپور کوشش پر امریکا اور یورپ کو جزبز تو ہونا ہی ہے۔ انہیں اپنا سِنگھاسن ڈولتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ ڈولتے سِنگھاسن کو بچانے کے لیے وہ اپنی سی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ چین اور روس کا ایک پلیٹ فارم پر آنا مغربی بالادستی کی فوری موت نہیں۔ مغرب کا غلبہ بیشتر عالمی امور پر ابھی عشروں برقرار رہے گا مگر مغربی سیاست دانوں اور دانشوروں کو سب سے زیادہ پریشانی اس بات سے لاحق ہے کہ طاقت میں کمی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ انٹرنیشنل پلیئرز کی تعداد میں اضافہ ہوتے رہنے سے امریکا اور یورپ کے لیے تمام اہم عالمی امور میں اپنی بالادستی برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ 
اس وقت سب سے زیادہ مخمصے میں بھارت ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ چین، روس، پاکستان اور ترکی کے درمیان تیزی سے پنپتے ہوئے اتحاد کی تھوڑی بہت برکت اس کے حصے میں بھی آئے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ امریکا اور یورپ کی حاشیہ برداری ترک کرنے کو بھی تیار نہیں۔ اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی ایسی راہ کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں جو پاکستان کے لیے خوش حالی اور استحکام کے لیے ہموار ہو رہی ہو۔ اس معاملے میں اس کے ظرف کا ہاضمہ خراب چل رہا ہے۔ 
مودی کا معاملہ یہ ہے کہ بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا چاہتے ہیں مگر اسی کوشش میں کبھی کبھی اوندھے منہ گر پڑتے ہیں۔ سیانوں نے درست کہا ہے کہ جلدی کا کام شیطان کا۔ اور میرزا نوشہ بھی کہہ گئے ہیں ؎ 
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب 
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک 
بھارت کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ نئی دنیا معرضِ وجود میں آر ہی ہے۔ ایسے میں ہر اُس نقشِ کہن کو مٹا ہی دینا چاہیے جس سے کچھ حاصل ہوا ہو نہ ہونے کی امید ہو۔ دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنے کے اِس زمانے میں بھارت کے لیے بھی لازم ہے کہ پاکستان کو قبول کرے اور اپنی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی خوش حالی اور استحکام کو بھی برداشت کرے۔ سب کچھ خود ہی کھا لینا کسی طور درست نہیں۔ فریق ثانی کو بھی کھانے دیا جائے تو کشیدگی پیدا ہوگی نہ معاملات ٹکراؤ تک پہنچیں گے۔ اِسی صورت اُس کا نفسیاتی ہاضمہ درست رہے گا۔ قصہ مختصر، مودی کے لیے ''میں کھاؤں، تو نہ کھا‘‘ والی ذہنیت کے سانچے سے نکلنا ہی آبرو بچانے کا واحد راستہ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں