"MIK" (space) message & send to 7575

’’شاہی بُوٹی‘‘

اللہ بھلا کرے سینیٹر شاہی سید جو ہماری مشکلات آسان کرنے والے اصحاب کی صف (یا فہرست) میں شامل ہوگئے ہیں۔ ہم اُن تمام اصحاب اور احباب کا احسان مانتے نہیں تھکتے جو کچھ نہ کچھ ایسا ویسا کہہ کر ہمارے لیے کالم کا سامان کرتے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں سینیٹ کے پلیٹ فارم سے شاہی سید نے ایک ایسا بیان داغا کہ پہلے تو ہماری بے خبری کا نشا ہرن ہوا اور پھر ہم اُس بیان کے نشے میں یوں غرق ہوئے کہ دنیا و ''مافیا‘‘ کی کچھ خبر نہ رہی! سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایجنڈے پر بحث کے دوران شاہی سید نے کہا کہ جو سیاست دان (یعنی عوام کے منتخب نمائندے) شراب کے نشے میں دُھت رہتے ہیں وہ اِس قابل ہیں کہ اُنہیں (تختۂ دار پر) لٹکا دیا جائے مگر چرس (حشیش) استعمال کرنے والوں کو کچھ نہ کہا جائے کیونکہ یہ تو درویشوں کا نشا ہے! 
سیاست دانوں کی ایک ہی ادا تو ہمیں پسند ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں ''استثنائ‘‘ اتنی خوبصورتی سے متعارف کراتے ہیں کہ لوگ انہیں بیک وقت سادگی و پُرکاری اور بے خودی و ہشیاری کی داد دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں! شاہی سید پرائم ٹائم کے سیاسی ٹاک شوز کے پسندیدہ شرکاء میں سے ہیں۔ وہ عام طور پر لگی لپٹی نہیں رکھتے، سیدھی بات کرتے ہیں۔ ایک عام پختون جس انداز سے سادہ اور ٹھوس زبان میں بات کرتا ہے وہی زبان شاہی سید کی بھی ہے۔ مگر کمال دیکھیے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں انہوں نے چرس کے حوالے سے ایسا بیان دیا کہ لوگوں کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ کس نتیجے پر پہنچیں، کیا سمجھیں اور کیا نہ سمجھیں۔ بات اِتنی سیدھی ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہی! 
سیاست دانوں کو ابہام پیدا کرنے میں ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ یہی ایک معاملہ ایسا ہے جس میں مہارت اُنہیں بعض اوقات کسی بڑے گڑھے میں گرنے سے بچا لیتی ہے۔ کہتے کچھ ہیں اور مطلب کچھ اور نکل رہا ہوتا ہے یعنی وہ بات کو گھمانے پھراکر بچ نکلتے ہیں۔ 
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے روبرو شاہی سید نے جب یہ کہا کہ چرس درویشوں کا نشا ہے تو بہت سے لوگ چونکے۔ جملہ کہنے کو سیدھا اور سادہ ہے مگر اِس میں اچھا خاصا ابہام بھی ہے۔ ہم بھی سمجھ نہیں پائے کہ چرس درویشوں کا نشا ہے یا شاہی سید نے اُن تمام لوگوں کو درویشی کی سَند عطا کی ہے جو چرس کو منہ لگاتے ہیں! اگر یہ دوسری بات درست ہے تو پھر اِس ملک میں ''درویشوں‘‘ کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ہم اپنے علاقے میں اِس ٹائپ کے بہت سے ''درویشوں‘‘ کو جانتے ہیں۔ اور اب آپ سے کیا پردہ؟ خود ہمارے اپنے شعبے میں ایسے صاحبانِ کمال کی کمی نہیں جن کے دماغ کی موٹر سائیکل اُسی وقت اسٹارٹ ہو پاتی ہے جب اِس ''درویشی بُوٹی‘‘ کے دو چار کش ذرا زور سے کِک لگاتے ہیں! یہاں ہم چاہیں گے کہ آپ ہمیں استثناء دے دیں۔ ہم اب تک شاہی سید کے مُقلّد نہیں ہوئے یعنی چرس جیسی ''من کی مراد‘‘ سے بہت دور ہیں۔ ہمیں بھی کالم لکھنے کے لیے تھوڑا بہت سُرور درکار ہوتا ہے مگر یہ سُرور ہم چائے یا پھر کافی کے ذریعے پیدا کرلیتے ہیں۔ ہماری رگِ کالم نگاری کو پھڑکنے کے لیے بھرے ہوئے سگریٹ کی حاجت محسوس نہیں ہوتی! ہماری یہ رگ آٹو سسٹم پر کام کرتی ہے یعنی جب بھی کوئی کام کی بات دکھائی دیتی ہے، یہ پھڑک اٹھتی ہے اور ہم سے کالم لکھوانے تک نِچلی نہیں بیٹھتی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے بیشتر کالم اُسی کیفیت میں لکھے ہیں جو مہدی حسن اور ناہید اختر نے یُوں بیان کی ہے ؎ 
ہم نے خود چھیڑ دیا پیار کے افسانے کو 
ہائے کیا کیجیے اِس دل کے مچل جانے کو 
خیر، ہماری رگِ کالم نگاری تو بعد میں پھڑکی، شاہی سید کے ''ارشاداتِ عالیہ‘‘ پڑھ کر مرزا تنقید بیگ کی ''رگِ شرارت‘‘ ایسی پھڑکی کہ ہماری دہلیز کو عبور کرنے تک انہوں نے سکون کا سانس نہیں لیا! اور ہمیں دیکھ کر سُکون کا ایسا سانس لیا کہ ہمارے لیے سانس لینا دوبھر ہوگیا! انہیں دیکھ کر ہم مبتلائے تشویش ہوئے کیونکہ وہ آئیں اور اُن کے پیچھے کوئی دردِ سَر ہمیں تلاش کرتا ہوا نہ آئے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا! جب مرزا نے اپنی آمدِ ناگہانی کی ''وجہِ تسمیہ‘‘ بتائی تو ہمارا وہ نشا ہرن ہوگیا جو چرس کی شان میں شاہی سید کے بیان کو پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا! 
مرزا ایک زمانے سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ چرس کو منشیات میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے ہمیشہ منشیات پرستی پر مبنی اس موقف کی شدید مخالفت کی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ چرس کو منشیات کے زمرے میں اس لیے نہیں رکھا جاسکتا کہ یہ انسان پر نشا طاری نہیں کرتی، اسے بے قابو بھی نہیں ہونے دیتی اور صرف سُرور میں ڈوبنے کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ 
شاہی سید نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں جو کچھ کہا اُسے اپنے موقف کے حق میں ''سندِ توثیق‘‘ قرار دیتے ہوئے مرزا نے کہا : ''تم کیا جانو یہ چرس کیا چیز ہے۔ یہ چیز وہ ہے کہ ایک الگ ہی دنیا کی سیر کراتی ہے۔‘‘ 
مرزا آنکھیں بند کرکے بولے جارہے تھے اور ہم سہمے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ کہیں کوئی سُن تو نہیں رہا۔ ڈر اس بات کا تھا کہ کہیں گھر والے کچھ سُن نہ لیں اور ہمیں ''چرسی‘‘ نہ سمجھ بیٹھیں! ہم نے مرزا کو ٹوکا یعنی ہاتھ جھنجھوڑا تو وہ خاموش ہوئے، پلکیں اُٹھائیں اور دوبارہ اِس دنیا میں آئے۔ اُن کی آنکھوں میں ہمیں ویسے ہی سُرخ ڈورے تیرتے دکھائی دیئے جیسے چرس پینے والوں کی آنکھوں میں عام طور پر دکھائی دیا کرتے ہیں! ہم کچھ اور سہم گئے کہ کہیں وہ شاہی سید کے بیان کی خماری میں ڈوب کر دو چار ''درویشی‘‘ کش لگاکر تو ہمارے غریب خانے پر تشریف نہیں لائے! 
مرزا رکنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ جوکچھ وہ کہہ رہے تھے اُس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ؎ 
لطفِ مے تجھ سے کیا کہیں زاہد! 
ہائے کم بخت! تو نے پی ہی نہیں! 
اور پھر اُنہوں نے چرس کی شان میں مزید چند عظیم المرتبت جملے ارشاد فرماتے ہوئے اِس ''بُوٹی‘‘ کا لطف واضح کرنے کی غرض سے علامہ کے اِس مصرع کا بھی حوالہ دیا! ع 
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو 
ہم نے ہاتھ جوڑ کر استدعا کی کہ اس معاملے میں کم از کم علامہ کو تو بخش دیا جائے اور اُن کی فکرِ رسا کے نتائج کو اِس نشہ آور بُوٹی کے بیان میں بروئے کار نہ لایا جائے۔ 
مرزا نے کہا : ''تم کیا جانو کہ جس چیز کی ستائش میں شاہی سید رطب اللسان ہوئے ہیں وہ اِس ملک میں لاکھوں افراد کو چالو حالت میں رکھے ہوئے ہے! یہ نہ ہو تو ملک بھر میں روزانہ لاکھوں ٹن سامان کی ترسیل نہ ہو۔ لمبے روٹ کی بھاری گاڑیاں چلانے والے ''درویشوں‘‘ کے نشے کا سہارا لے کر ہی تو تھکے بغیر اسٹیئرنگ وھیل گھماتے رہتے ہیں! بھرے ہوئے سگریٹ کا کمال نہ ہو تو ہر سو میل پر اُن کا 'سنگِ میل‘ آجائے! شاہی سید کا بتایا ہوا نُسخہ بروئے کار نہ لایا جائے تو بہت سے مُغنیوں کے لیے چار پانچ گھنٹے گانا ممکن نہ رہے! گلے میں اِتنا دم کہاں؟ یہ تو چرس ہے کہ رات رات بھر گواتی ہے! شوبز کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ 'شاہی بُوٹی‘ سے پیدا ہونے والا سُرور تخلیقی جوہر کو ایسا ابھارتا ہے کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھتے ہیں!‘‘ 
مرزا تو ''شاہی بُوٹی‘‘ کی شان یوں بیان کر رہے تھے جیسے یہ نہ ہو تو مملکتِ خدادادِ پاکستان میں تخلیقی جوہر کو بروئے کار لانا ممکن نہ رہے! ہم نے عرض کیا کہ ہم بھی تو تخلیقی جوہر رکھتے ہیں اور اس کا مظہر ہے ہمارا کالم لکھنا۔ اور یہ کہ ہم یہ کام ''شاہی بُوٹی‘‘ کو زحمت دیئے بغیر کرلیتے ہیں۔ اِس پر مرزا نے تنک کر کہا : ''نتیجہ بھی تو دیکھو۔ تمہارے کالم پُھسپُھسے ہوتے ہیں۔ اِن میں سُرور نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ اِن کالموں میں، بقول ناصرؔ کاظمی، اُداسی بال کھولے سو رہی ہے! تمہارے نام نہاد 'رشحاتِ قلم‘ میں آزادی نہیں ملتی، صرف قفس پرستی پائی جاتی ہے۔‘‘ 
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ ہم لِنڈورے ہی بھلے۔ قفس پرستی ہے تو یوں ہی سہی۔ ہم اپنے کالموں میں ایسی آزادی پیدا نہیں کرنا چاہیں گے کہ لوگ ''چرس پرستی‘‘ کا الزام عائد کریں! ع 
خدا محفوظ رکھے اِس بلا سے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں