دنیا والوں کو کھانے پینے کا ڈھنگ اب تک نہیں آیا۔ کھانے پینے کی چیزیں صرف اس لیے ہوتی ہیں کہ انہیں کھایا اور پیا جائے۔ مصیبت یہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اشیائے خور و نوش کو کھانے اور پینے سے زیادہ تحقیق کا آئٹم سمجھتے ہیں۔ وہ اب تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ کس چیز کو کھانے یا پینے سے جسم کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچے گا۔ یہ تو غار کے زمانے کی ذہنیت ہوئی۔ تب لوگ فائدے اور نقصان کا سوچا کرتے تھے۔ جدید دور کا تقاضا یہ ہے کہ ہر معاملے کو پوری قوت اور شدت کے ساتھ ''انجوائے‘‘ کیا جائے۔ جب بات گھوم پھر کر انجوائے کرنے پر آجائے تو فائدے اور نقصان کا کون سوچے اور کیوں سوچے؟
جرمنی سے خبر آئی ہے کہ وہاں ایک انوکھی سپر مارکیٹ کھولی گئی ہے۔ یہ سپر مارکیٹ ہے بچے کھچے کھانے کی۔ ہوٹلوں، ریستورانوں اور شادی کی تقریبات کا بچا ہوا کھانا دوبارہ پیک کرکے اس سپر مارکیٹ میں فروخت کے لیے رکھا جایا کرے گا۔ گاہکوں کے لیے سب سے اچھی ترغیب یہ ہے کہ اس سپر مارکیٹ میں کھانے کی قیمت کا تعین بھی وہی کریں گے یعنی جو کچھ بھی دینا چاہیں وہ قبول کرلیا جائے گا۔
آئیڈیا اچھا ہے مگر خیر بالکل نیا نہیں۔ ہمارے ہاں ایک زمانے سے بچا کھچا کھانا مختلف طریقوں سے فروخت کیا جاتا رہا ہے۔ بہت سے ہوٹلوں اور ریستورانوں کا بچا ہوا کھانا ٹھیلوں پر فروخت ہوتا ہے۔ شادی کی تقریبات کا بچا کھچا کھانا بھی کسی نہ کسی طرح ٹھیلوں پر رکھے ہوئے پتیلوں تک پہنچ ہی جاتا ہے!
ہم نے کراچی کے مختلف علاقوں، بالخصوص صدر میں ٹھیلوں پر چھولے والے چاول 20 روپے فی پلیٹ کے نرخ پر فروخت ہوتے دیکھے ہیں۔ کتنی ہی کوشش کر دیکھیے اور کتنے ہی تخمینے لگا لیجیے، آپ سمجھ نہیں پائیں گے کہ چھولے والے چاول 20 روپے فی پلیٹ کے نرخ پر فروخت کرکے منافع کس طور کمایا جاسکا ہے! سیدھی سی بات ہے، چھولے والے چاول یعنی دال میں کچھ کالا ہے۔ بالکل معمولی نرخ کے چاول بھی تیار کیجیے تو اتنے کم نرخ پر فروخت کرکے منافع کمایا نہیں جاسکتا۔ دروغ بر گردنِ راوی۔ ہم سنا ہے کہ بہت سے مزارات سے لنگر یعنی بریانی کی بھری ہوئی دیگیں بالا ہی بالا اُن مقامات پر پہنچادی جاتی ہیں جہاں ٹھیلوں پر پتیلے لیے ہوئے لوگ اِس مال کے خریدنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ مَنّت مانتے ہیں کہ کام ہوگیا تو مزار پر لنگر بانٹیں گے۔ کراچی کے کئی مزارات پر روزانہ ایسی درجنوں دیگیں آتی ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، مزار کے ارد گرد اتنے لوگ نہیں ہوتے کہ یہ سارا لنگر کھالیں۔ ایسے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ تیار شدہ دیگیں پوری کی پوری فروخت کردی جاتی ہیں۔
ایک علاقے میں ہم نے گوشت بہت معمولی قیمت پر فروخت ہوتا ہوا دیکھا۔ شک گزرا کہ کہیں مرے ہوئے جانور (گائے، بھینس وغیرہ) کا گوشت تو فروخت نہیں کیا جارہا ہے۔ بیچنے والے نے اللہ اور قرآن کی قسم کھاکر بتایا کہ گوشت صحت مند اور حلال جانور کا ہے۔ سوال کیا گیا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو قیمت کم کیوں ہے؟ کیا چوری کا ہے؟ جواب ملا گوشت چوری کا ہے نہ کوئی اور گڑبڑ ہے۔ بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ بڑے جانوروں کا صدقہ بھی دیتے ہیں یعنی جانور کے گلے پر چُھری پھیرنے کے بعد قصاب اور دیگر متعلقہ افراد سے کہتے ہیں کہ گوشت غریبوں میں تقسیم کردو۔ یہ صدقے کا گوشت تھوڑا بہت تقسیم کیا جاتا ہے اور باقی متعلقہ پوائنٹس پر پہنچا دیا جاتا ہے جہاں یہ کم قیمت پر فروخت ہوتا ہے!
کھانے پینے کے معاملے میں ہم کُھلے دل اور کُھلے ہاتھ ہی کے نہیں بلکہ عجیب و غریب مزاج کے بھی واقع ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ ہمارے مزاج کے بہت سے گوشوں کو یوں بے نقاب کرتا ہے کہ خود ہمیں بھی یقین نہیں آتا۔ سیاسی جلسوں کے اختتام پر لنگر کی لوٹ مار کا منظر تو آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہی ہوگا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پیپلز پارٹی کے تحت سالگرہ کی تقریبات کا بھی ہے۔ ''ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے‘‘ کی عملی تصویر بن کر شادی کی تقریبات میں ہم کھانا خود کم کھاتے ہیں، میز کو زیادہ کھلاتے ہیں! کھانا کُھلنے کا اعلان ہوتے ہی اولمپکس کی 100 میٹر کی دوڑ کی طرز پر ایک دوڑ شروع ہوتی ہے، ہنگامہ برپا ہوتا ہے۔ لوگ دھڑادھڑ پلیٹیں بھر لیتے ہیں۔ اور پھر پلیٹوں میں نصف سے زائد کی حد تک بریانی یا بوٹیاں بے کھائی، بلکہ بے چُھوئی چھوڑ دیتے ہیں! اگر کبھی کھانا ضائع کرنے کا مقابلہ منعقد کیا گیا تو شاید ہم بلا مقابلہ جیت جائیں!
پلیٹ بھرنے کے معاملے میں ہم نے دیگر ممالک کے لوگوں کو خاصا ''بزدل‘‘ پایا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اِس ''ٹیکنالوجی‘‘ کے حوالے سے وہ اچھے خاصے ''پس ماندہ‘‘ واقع ہوئے ہیں! ترقی یافتہ ممالک کے لوگ کھانے پینے کے معاملات میں بھی حساب کتاب کے قائل ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ کھانا سامنے آ جائے اور حساب کتاب کی فکر ذہن سے نہ نکلے تو کھانے کا کیا خاک لطف آئے گا! ہمارے ہاں بھی اعلٰی طبقے کے بیشتر گھرانے کھانے پینے کے معاملات میں مغرب کی ایسی نقّالی کرتے ہیں کہ ہم اُن سے سیکھیں گے تو خیر کیا، لطف اندوز ہی ہوتے رہتے ہیں! اعلیٰ گھرانوں میں بڑا پیزا منگوایا جاتا ہے تو اُسے کھانے سے زیادہ اُس کے گُن گانے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے! اِس طبقے کے لوگوں کو یہ بات معلوم ہی نہیں کہ کھانے کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ کو اُس کے معیار اور ذائقے کی تعریف نہیں کرنی بلکہ اِس طور کھاتے جانا ہے کہ لوگ آپ کو ''سراہنے‘‘ پر مجبور ہوجائیں! ؎
مَے پرستی کا مزا جب ہے کہ ساقی کہہ اُٹھے
مَے میں وہ مستی کہاں جو میرے مستانے میں ہے!
ممبئی کے چور بازار کا ساری دنیا میں چرچا ہے۔ چرائی ہوئی ہر چیز اِس بازار میں مل جاتی ہے اور وہ بھی خاصی کم قیمت پر۔ کراچی میں کوئی چور بازار نہیں اس لیے پورے شہر ہی کو چور بازار سمجھ لیجیے۔ آپ سے چھینا ہوا موبائل فون کہیں بھی فروخت ہوتا ہوا پایا جاسکتا ہے۔ اِسی طور آپ کی موٹر سائیکل بھی کسی بھی جگہ فروخت ہوتی ہوئی مل سکتی ہے۔ ہمارے ہاں چرایا ہوا کھانا بھی فروخت ہوتا ہوگا۔ اور سچ پوچھیے تو مزار پر بانٹنے کے لیے کھاتے پیتے لوگوں کی طرف سے دی ہوئی دیگ کا لنگر نکال کر بہت ہی پیار اور رازداری سے شہر میں بیچ چوراہے پر بیچنے کے لیے لایا جاتا ہے تو اِسے چور بازاری نہیں تو اور کیا کہا جائے گا؟
ترقی یافتہ ممالک طرح طرح کے ٹرینڈز دیتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ ٹرینڈز منفی اثرات بھی مرتب کرتے ہیں یا بیک فائر کر جاتے ہیں! جرمنی نے بچے کھچے کھانے کی سپر مارکیٹ کھول کر پاکستانیوں کو بظاہر ایک اچھی راہ سجھائی ہے مگر بباطن اِس میں بھی پریشانی کا پہلو ہے۔ اب تک یہی ہو رہا ہے کہ نا کہ مختلف علاقوں سے شادی کی تقریبات کا بچا کھچا کھانا اور مزارات پر تقسیم سے بچ جانے والا لنگر ٹھیلوں اور ٹِھیوں پر فروخت کیا جارہا ہے۔ اگر یہ کھانا بھی ''برانڈیڈ‘‘ انداز سے سپر مارکیٹس میں پرکشش پیکنگ کے ساتھ فروخت کیا جانے لگا تو غریبوں کے لیے دو وقت پیٹ کی آگ بجھانا مزید دشوار ہوجائے گا! وہ تو جرمنی ہے جہاں بچے کھچے کھانے کی قیمت لینے والے کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں اگر قیمت کے تعین اور اُس کے ادا کرنے کا معاملہ گاہکوں پر چھوڑا گیا تو پیک کیے ہوئے کھانے کے ساتھ ساتھ سپر مارکیٹس بھی غائب ہوجائیں گی!