عجیب و غریب حرکتوں کے معاملے میں امریکیوں کا کوئی جواب نہیں مگر رونی اور شیرون نے تو کمال ہی کردیا۔ ٹیکساس کے ان میاں بیوی کے پاس بظاہر کوئی ڈنڈا نہیں مگر پھر بھی ایک بہت بڑی، بہت ہی تگڑی بھینس اِن کی ہے۔ جی ہاں، رونی اور شیرون نے ایک بھینس پال رکھی ہے اور اِس بھینس سے اِن کی دوستی ایسی ہے کہ گھر میں ساتھ رہتی ہے۔ اُس کے لیے ایک الگ کمرا بنایا گیا ہے۔ ڈھائی ہزار پاؤنڈ کی یہ بھینس رونی اور شیرون کے ساتھ میز پر کھانا بھی کھاتی ہے، گھر بھر میں دندناتی پھرتی ہے، بک شیلف بھی ٹٹولتی ہے، تصاویر دیکھ کر خوش ہوتی ہے اور دل مزید بہلانے کے لیے ٹی وی بھی دیکھتی ہے۔ یہ بھینس رونی اور شیرون کے ساتھ پارک بھی جاتی ہے اور کشتی کی سیر بھی کرتی ہے۔
یہ بھی خوب رہی۔ رونی اور شیرون کو دوستی کے لیے ملی بھی تو بھینس۔ اور بھینس بھی قومی الجثہ، ٹھوس اور وزنی۔ گویا خاصا وزنی مشغلہ ہے۔ چلیے، امریکی پالیسیوں میں نہ سہی امریکیوں کے مشاغل میں تو وزن ہے نا!
دنیا بھر میں لوگوں کو حیوانات سے پیار کرنے پر مائل کرنے کی تحریک دی جاتی ہے۔ عام آدمی کو اس بات پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ جانوروں سے پیار کرے، ان کا خیال رکھے اور انہیں غیر ضروری تکلیف پہنچائے نہ پہنچنے دے۔ یورپ کی طرح امریکا میں بھی لوگ بہت سے جانور پالتے ہیں اور اُن سے اس قدر پیار کرتے ہیں کہ کبھی کبھی اِس پیار کو دیکھنے والے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، اُن کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
یہ سب بہت خوش کُن اور قابل ستائش ہے مگر عرض ہے کہ یورپ اور امریکا کے لوگوں کو جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں سے بھی پیار کرنے کی تحریک دی جانی چاہیے! یورپ کا معاملہ تو خیر ایسا گیا گزرا نہیں ہے مگر امریکیوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ امریکا کی حدود سے باہر بسنے والے انسانوں کو بھی انسان سمجھیں اور اُن سے وہی سلوک روا رکھیں جو روا رکھا جانا چاہیے۔ اب تک تو ہم نے (اور یقیناً آپ نے بھی) یہی دیکھا ہے کہ امریکی جس خطے میں بھی گئے ہیں، وہاں کے لوگوں کو انسان تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور اُن سے وہ سلوک روا رکھا ہے جو اب تک کسی کی سمجھ میں نہیں آسکا۔ بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی یا خوش فہمی لاحق رہتی ہے کہ امریکیوں نے دنیا بھر کی پست اور کمزور اقوام سے جانوروں جیسا سلوک روا رکھا ہے۔ ع
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
اگر ایسا ہوا ہوتا تو بات ہی کیا تھی۔ رونا اِسی بات کا تو ہے کہ امریکیوں نے دوسری اقوام کو جانوروں کے برابر بھی نہیں سمجھا! اب آپ ہی بتائیے کہ رونی اور شیرون نے اپنی بھینس کو جو درجہ دے رکھا ہے کیا امریکیوں نے وہی درجہ ویتنام کے مظلوم عوام کو دیا تھا؟ جتنی محبت اِس بھینس کو ملی ہے کیا اُتنی ہی محبت امریکیوں نے عام افغانوں کو دی تھی؟ اتنا پیار اگر عراقیوں سے کیا گیا ہوتا تو کیا وہ تباہی سے دوچار ہوئے ہوتے؟ ایک بھینس کو رونی اور شیرون نے جس انداز سے اپنایا ہے کہ کیا اُسی انداز یعنی اپنائیت سے امریکا میں مشرق وسطٰی، مشرق بعید، جنوبی ایشیا یا وسط ایشیا کے کسی شہری کو اپنایا اور گلے لگایا جاتا ہے؟
کوئی امریکیوں کا کیسا ہی طرف دار ہو، اِن تمام سوالوں کے جواب نفی ہی میں دے گا۔ آنکھوں دیکھی مکھی کوئی نہیں نگلتا۔
مرزا تنقید بیگ امریکا کے معاملات پر اُتنی ہی گہری نظر رکھتے ہیں جتنی گہری نظر بھابی اُن کی حرکات و سکنات پر رکھتی ہیں! مرزا دن رات ٹی وی دیکھتے اور اخبارات و جرائد پڑھتے رہتے ہیں۔ اگر پیٹ میں گڑبڑ ہو یا نزلے سے ناک اور گلے کا بُرا حال ہو تب بھی مرزا کو یہ فکر زیادہ لاحق رہتی ہے کہ امریکا کا ہاضمہ کیسا ہے اور اُسے کس ٹائپ کا چُورن دیا جانا چاہیے! گویا ؎
ہمیں اپنا نہیں، جانِ تمنّا! غم تمہارا ہے
کہ تم کس پر ستم فرماؤگے جب ہم نہیں ہوں گے!
حیوان پرستی کے حوالے سے امریکیوں کے منفرد رویّے کو مرزا نے ہمیشہ کسی اور نظر سے دیکھا ہے۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ امریکا میں حیوانات سے لگاؤ فطری نہیں بلکہ حالات یا ماحول کا پیدا کردہ ہے۔ امریکی قیادت نے دنیا بھر میں جو کچھ کیا ہے وہ اب امریکیوں کی اجتماعی نفسیات کو بدلنے کا سبب بن رہا ہے۔
امریکی قیادت نے جو کچھ کیا ہے وہ اجتماعی نفسیات پر کس طور اثر انداز ہو رہا ہے؟ بات ہماری سمجھ میں نہ آئی تو ہم نے مرزا سے وضاحت چاہی۔ وہ بڑے چاؤ سے بولے : ''میاں! بات یہ ہے کہ ریاستی پالیسیوں نے اب عام امریکی کو بھی انسانوں سے بیزاری اور حیوانات سے محبت پر مجبور کردیا ہے۔ جب امریکی یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا ریاستی ڈھانچا دوسری اقوام کو حیوان سمجھ کر معاملت کرتا ہے تو اُن میں اِن اقوام سے ہمدردی کے جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ اب وہ اقوام تو بہت دور ہوتی ہیں اِس لیے اُنہیں تو گلے لگایا نہیں جاسکتا۔ ایسے میں امریکیوں کے پاس یہی آپشن رہ جاتا ہے حیوانات کو اپنائیں، اُن سے دوستی کریں اور اُن کا دل بہلاکر اپنا دل بہلانے کی کوشش کریں!‘‘
مرزا نے امریکا کی پالیسیوں اور اہلِ امریکا پر اُن کے نفسیاتی اثرات کی ایسی توضیح کی کہ چند ہی لمحات میں ہمارے لیے تو ع
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کُھل گیا
والی کیفیت پیدا ہوگئی! رونی اور شیرون کے گھر میں ایک بھینس کی توقیر ہماری سمجھ میں نہ آسکی تھی۔ مرزا نے سمجھایا تو ہم یُوں سمجھ گئے کہ اب شاید زندگی بھر نہ بھول پائیں گے۔
امریکا نے دنیا بھر میں ''جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کے اُصول پر عمل کیا ہے۔ وہ چاہے تو کھرے کو کھوٹا کر دکھائے اور اگر چاہے تو کھوٹے کو کھرا قرار دے کر سب کو ایسا ہی ماننے پر مجبور بھی کردے! طاقت کا کھیل ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ڈنڈے کے زور پر کسی بھینس کو اپنا کرنا دنیا کا اُصول ہے، معمول ہے۔ امریکا اِس سے ایک قدم آگے ہے۔ ہم نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ بہت سی اقوام ڈنڈے کھانے کی منزل سے بہت پہلے ہی امریکا کی ہو جاتی ہیں یعنی ہتھیار ڈال کر فرماں برداری کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہیں! ایسی اقوام سے امریکا وہی سلوک روا رکھتا ہے جو رونی اور شیرون نے اپنی بھینس سے روا رکھا ہے یعنی اُنہیں ساتھ رہنے اور گھر بھر میں دندناتے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ رونی اور شیرون کے برعکس امریکی قیادت کسی بھی بھینس کو اُسی وقت تک اپنا بناکر رکھتی ہے جب تک وہ کوئی الجھن پیدا نہیں کرتی یا کوئی متبادل بھینس دستیاب نہیں ہوتی۔ جیسے ہی کوئی تازہ دم بھینس فرماں برداری پر آمادہ دکھائی دیتی ہے، امریکی قیادت پُرانی بھینس سے پنڈ چُھڑانے میں ذرا دیر نہیں لگاتی!
ہر دور میں ہر بڑی طاقت کا یہی طور رہا ہے۔ ڈنڈا وہی رہتا ہے، بھینس بدلتی رہتی ہے۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلایا جاتا رہا ہے۔ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ سب کچھ بدلتا ہے، انسان نہیں بدلتا۔ اُس کے وہی اطوار ہیں، وہی خباثتیں ہیں۔ ع
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
دنیا کو اُس دن کا انتظار ہے جب طاقتور اقوام زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانے والی اقوام کو بھی انسانوں کے مجموعوں کی حیثیت سے برتیں گی، اُن کا احساس کریں گی اور اُن سے وہی سلوک روا رکھیں گی جو روا رکھا جانا چاہیے۔ یا پھر اُن سے کم از کم اُتنی محبت ضرور کریں گی جتنی بے زبان جانوروں سے کرتی ہیں۔ اور مظلوم اقوام بھی بے زبان جانوروں سے زیادہ کیا ہوتی ہیں!