ہم اور آپ خواہ کچھ سوچتے رہیں اور کرتے پھریں، جو اِس دنیا کا خالق اور اِس میں بسنے والی مخلوق کا پالنے والا ہے اُس کے اپنے اُصول اور طریق ہائِ کار ہیں جن کے مطابق سب کچھ انصاف اور حق کے مطابق انجام کی منزل تک پہنچتا ہے۔ ہم اپنی اپنی خواہشات کی دنیا میں جیتے ہیں اور سامنے کھڑی ہوئی پہاڑ جیسی حقیقت کو بھی یُوں دیکھتے ہیں گویا نہ دیکھا ہو۔ کوئی بھی تلخ حقیقت نہ ماننے سے مٹ نہیں جاتی، ختم نہیں ہو جاتی۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ہم اپنی سہولت اور مفاد کی خاطر ماحول کو شدید عدم توازن سے دوچار کرتے رہتے ہیں اور کبھی ضمیر کی خلش محسوس کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔ اس معاملے میں جنگلات سے لکڑی کا حصول ایک نمایاں مثال ہے۔ بہت سوں نے اپنے ذاتی مفادات کو زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھنے کے لیے جنگلات کا رقبہ گھٹاتے رہنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اپنی ضرورت کے تحت درخت کاٹنا اگر کسی طور جائز قرار دے بھی دیا جائے تو ماحول کو پہنچنے والے اس نقصان کی ہمیں تلافی بھی تو کرنی ہوتی ہے یعنی شجر کاری جاری رکھنی پڑتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم درخت تو کاٹتے ہیں مگر شجر کاری کا فرض بھول جاتے ہیں۔ مگر اِس میں بھی حیرت کی کیا بات ہے؟ کون سا معاملہ ہے جس میں انسان اپنا فرض بھول نہیں بیٹھا؟
چین کے ایک شخص کا ضمیر یُوں جاگا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے ایک تابندہ مثال بن گیا ہے۔ ہوا یہ کہ یونگ شی نے وزارتِ جنگلات کے تحت درخت کاٹنے کی نوکری حاصل کی۔ اور پھر تیس سال تک درخت کاٹتا رہا۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے اُسے خیال آیا کہ تخریب کب تک؟ اور تخریب ہی کیوں، تعمیر کیوں نہیں؟ بس، پھر کیا تھا۔ ضمیر یُوں بیدار ہوا کہ یونگ شی نے کلہاڑی ایک طرف پھینکی اور بیلچہ تھام لیا۔ وہ شجر کاری کی راہ پر چل پڑا۔ اب کئی برس سے وہ یہی کر رہا ہے۔ لوگ ابتداء میں حیران تھے کہ آخر اُسے ہوا
کیا ہے۔ جس کا دل پلٹ جائے اُسے لوگ حیرت ہی سے دیکھتے ہیں۔ جب کسی میں بیداری کی لہر اُٹھتی ہے تو پورا وجود کچھ ایسا رنگ اختیار کرتا ہے کہ لوگ دیکھتے اور سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ یونگ شی کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ وہ دن رات شجر کاری میں مگن رہنے لگا۔ اس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ڈھائی تین سال کی مدت میں یونگ شی نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد پودے لگادیئے! یونگ شی کے ضمیر کو جاگنا ہی تھا۔ انسان اگر واقعی انسان ہے تو ایک نہ ایک دن اُس کا ضمیر ضرور جاگتا ہے اور اُسے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی غلط کیا اُس کے ازالے کی کوشش بھی کی جانی چاہیے۔ ضمر کا جاگنا اچھی بات ہے مگر خوش نصیب انسان وہ ہے جس کا ضمیر جلد جاگ جائے یعنی وہ اپنے گناہوں، جرائم یا کوتاہیوں اور لغزشوں کی تلافی کرنے کی جسمانی، ذہنی اور روحانی صلاحیت و سکت بھی رکھتا ہو۔ ہم زندگی بھر مختلف النوع منفی سرگرمیوں میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔ منفی خیالات ہمارے ذہن کو ہمہ وقت گرفت میں رکھتے ہیں مگر ہم کبھی کسی پُرسکون گوشے میں بیٹھ کر کچھ دیر غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہم کچھ چند لمحات کے لیے اتنا سا سوچنے کے بھی روادار نہیں کہ ہماری ذات سے خود ہمیں یا دوسروں کو کتنا فائدہ یا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہم نے صرف ایک بات اپنے اپنے ذہن میں گرہ کی طرح باندھ لی ہے ... یہ کہ ہر ایک کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ یہ دیکھنا بھی تو لازم ہے کہ اپنے کام سے کام رکھنے کی صورت میں اپنے آپ پر اور دوسروں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا خیال بھی تو رکھنا ہی چاہیے
کہ ہمارے افکار و اعمال مثبت ہوں۔ اگر اپنے کام سے کام رکھنے ہی سے دنیا کا دھندا اچھی طرح چل سکتا ہے تو پھر یہ نہ بھولیے کہ ڈاکو بھی اپنے کام ہی سے تو کام کرتے ہیں یعنی ڈاکے ڈالتے رہتے ہیں! جو رشوت پر پل رہا ہے وہ بھی اپنے کام ہی سے کام رکھتا ہے یعنی رشوت لیے جارہا ہے اور مزے سے جیے جارہا ہے! جنہوں نے سرکاری یا غیر سرکاری ... کسی بھی طرح کی نوکری میں کچھ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے وہ بھی تو اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہیں یعنی کچھ نہیں کر رہے۔ اگر سب اپنے کام سے کام رکھیں یعنی نیک انسان نیکیاں کیے جائیں اور بدی کے پیکر بدی پر تُلے رہیں تو عوامی زبان میں کہا جائے گا ٹھنڈا ٹھار پروگرام چل رہا ہے! ایسی حالت میں اِس دنیا کا کوئی بھی معاملہ قیامت تک درستی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اِس دنیا کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہر طرف درخت کاٹنے والے پائے جاتے ہیں، شجر کاری کرنے پر کوئی کوئی ہی آمادہ ہے! درخت کاٹنے کے عمل کو آپ جڑ کاٹنے کی ''روایت‘‘ قرار دے سکتے ہیں! جنگلات ہمارے ماحول کا حصہ ہی نہیں بلکہ ہماری بنیادی ضرورت بھی ہیں۔ جنگلات ماحول کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی ناگزیر جڑی بُوٹیوں اور قیمتی لکڑی کے حصول کا ذریعہ بھی ہیں۔ درخت کاٹنا دراصل جنگلات کا رقبہ کم کرکے ماحول کو غیر متوازن کرنے اور مُعیّن موسمی تغیّرات کا نظام درہم برہم کرنے کا عمل ہے۔ دنیا کو ان لوگوں کی ضرورت ہے جو درخت کاٹنے کے عمل سے بیزار، بلکہ متنفّر ہوکر شجر کاری پر مائل ہوں۔ اس دنیا کو اپنے محفوظ اور تابناک مستقبل کے لیے یہی مطلوب ہے۔ ایک جنگلات پر کیا موقوف ہے، زندگی کا تقریباً شعبہ اپنی اصل میں منفی تاثر و تاثیر کا حامل ہوچلا ہے۔ لوگ نتائج کی پرواء کیے بغیر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق کچھ بھی کیے جارہے ہیں۔ کسی کے پاس اتنا سوچنے کی فرصت نہیں کہ اُس کے افکار و اعمال سے اُس کی اپنی اور دوسروں کی زندگی میں کتنی منفی باتیں اور چیزیں ابھر رہی ہیں، پنپ رہی ہیں۔ زندگی کا میلہ اُسی وقت جاری رہ سکتا ہے جب ہم تخریب چھوڑ کر تعمیر کی طرف مائل ہوں۔ جہاں تخریب ناگزیر ہو وہاں متوازی طور پر تعمیر کا اہتمام بھی لازم ہے۔ یہ دنیا بھی ایک جنگل کے مانند ہے۔ اگر درخت کاٹنے ہی کا عمل جاری رہے تو جنگل کا رقبہ گھٹتا جائے گا اور ماحول غیر متوازن ہو رہے گا۔ معاملات کو درست رکھنے کے لیے لازم، بلکہ انتہائی لازم ہے کہ دو درخت کاٹے جائیں تو چار بلکہ آٹھ اگائے بھی جائیں۔
دنیا میں ہر طرف خیر و برکت کے درخت کاٹے جارہے ہیں اور اِس نقصان کی تلافی کی مد میں شجر کاری تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ دنیا بنجر ہوتی جارہی ہے۔ نیکی کی جڑ کاٹنے کے بعد تلافی کے نام پر خاطر خواہ اقدامات سے اِس قدر گریز کیا جارہا ہے کہ دیکھنے سے الجھن ہوتی ہے اور سوچنے سے تو ذہن کا بیڑا ہی غرق ہونے لگتا ہے۔
دنیا کو اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ یونگ شی جیسے انسانوں کی شدید ضرورت ہے۔ ضمیر کا بیدار ہونا یا کیا جانا اشد ضروری ہے۔ کلہاڑی کی سنگت بہت ہوچکی۔ اب کلہاڑی کو ایک طرف رکھ کر بیلچے تک کا سفر کرنا ہے۔ یہی سفر تخریب پرستی ترک کرکے تعمیر پسندی کی منزل تلاش کرنے کا بھی ہے۔ یہ سفر جس قدر جلد شروع ہوگا منزل بھی اُسی قدر جلد ہاتھ آئے گی۔ انسان کا ضمیر بیدار رہے گا تو دنیا بھی بیداری کی حالت میں رہے گی ورنہ یہ بھی انسان کے ضمیر کی مانند خوابِ عدم کے گڑھے میں جا گِرے گی۔