"MIK" (space) message & send to 7575

ہاں، ’’تم‘‘ بھی نکل جاؤ!

ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں قدرت نے کچھ ''انتظام‘‘ کیا تو ہے۔ جو لوگ امریکا کے کمزور ہونے اور امریکی معاشرے میں انتشار کے پھیلنے کا خواب دیکھا کرتے تھے اُنہیں بدھائی ہو کہ ٹرمپ مہا راج پدھار چکے ہیں اور پوری ایمان داری سے اپنے دیش کے ''سَرو ناش‘‘ کا سامان کرنے پر تُلے ہوئے ہیں! 
نائن الیون کے بعد جو امریکا اُبھرا وہ مسلمانوں کو کسی حال میں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ جارج واکر بش نے اپنے عہد ہائے صدارت میں جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ دائیں بازو کے سفید فام انتہا پسندوں ''نیو کونز‘‘ نے جو ماحول کھڑا کیا اُس میں تمام ہی مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھنے کی روش عام ہوئی۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کے نام پر شہری آزادیاں سلب کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ امریکیوں کی اکثریت کو رفتہ رفتہ اندازہ ہوا کہ بات صرف مسلمانوں کی نہیں، شہری آزادیوں کو سلب کرنے کی ہے۔ حکمراں طبقہ عوام سے اُن کی اصل قوت یعنی حکومتوں کی تشکیل پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت اور اُن کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ڈالا جانے والا دباؤ چھین لینا چاہتا ہے۔ نائن الیون کے بعد ردعمل کی آڑ میں جمہوریت کو بے جان کرنے کی سازش پر عمل شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ 
نائن الیون کے بعد امریکا میں مسلمانوں کو قبول نہ کرنے کا رجحان مرحلہ وار اس قدر پروان چڑھایا گیا کہ قوم پرستی یا نسل پرستی کے نام پر سیاسی دکان چمکانے والے بھی شرمندہ ہوئے اور اُنہیں کہنا پڑا کہ کسی ایک طبقے یا برادری کو دیوار سے لگانے کا عمل صرف خرابیاں پیدا کرے گا۔ پہلے عرب دنیا کے مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھنے کا چلن عام ہوا۔ اِس کے بعد میڈیا نے کچھ ایسا ماحول پیدا کیا کہ جنوبی ایشیا اور وسطِ ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی مشکوک ٹھہرے۔ اِس کے بعد شک کی سُوئی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں پر رُکی۔ 
ڈیڑھ عشرے کے دوران امریکا میں ایسا ماحول پروان چڑھا ہے جس میں مسلمانوں کو قبول کرنے کی گنجائش کم ہے۔ اس ماحول نے امریکا میں آباد مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ متحد ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ مختلف النسل اور مختلف اللسان مسلمان اب ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی روشن پر گامزن ہیں۔ اُنہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو سفید فام انتہا پسند امریکی اُن کا جینا حرام کرتے رہیں گے۔ مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے اتحاد اور یگانگت کا امریکی قیادت یا حکمراں طبقے کو بھی بخوبی اندازہ ہے۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد سے کہنے کو تو امریکا میں آباد مسلمانوں کے لیے تھوڑی سی الجھن پیدا ہوئی ہے مگر در حقیقت اُن تمام افراد کے لیے مشکلات کھڑی ہوئی ہیں جو غیر قانونی طور پر آباد ہیں۔ جنوبی امریکا سے تعلق رکھنے والے بھی پریشان ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کو چھپانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اُن کی نظر میں غیر سفید فام امریکیوں کی کوئی وقعت نہیں اور یہ کہ امریکا صرف اُن کے لیے ہے جن کی چمڑی سفید ہے۔ یہ انتہا پسند سوچ امریکی معاشرے کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ ایک طرف ''ہسپانکس‘‘ ہیں جو امریکا میں اپنے لیے مسائل کا پہاڑ کھڑا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف مسلمان ہیں جنہیں اندازہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بڑھک ماری تھی اُس پر تھوڑا بہت عمل ضرور کیا جائے گا اور مختلف خطوں سے آئے ہوئے مسلم تارکین وطن کے لیے مسائل دوچند کردیئے جائیں گے۔ 
مگر ایک مسئلہ ایسا اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ جنہیں اِس مسئلے کا سامنا ہے وہ بھی پریشان ہیں اور تماشا دیکھنے والے بھی حیران ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سفید فام امریکیوں کو ''خوابِ غفلت‘‘ سے بیدار کردیا ہے۔ اندھی نسل پرستی اور اُس سے بھی زیادہ اندھی وطن پرستی کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آگیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ نے ''اینٹی مسلم‘‘ سے کہیں آگے جاکر ''اینٹی کلرڈ‘‘ رجحان پیدا کیا ہے۔ یعنی جو غیر سفید فام کہیں سے بھی آکر امریکا میں آباد ہوئے ہیں وہ اپنا بوریا بستر لپیٹ لیں۔ بھارت چونکہ امریکا کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا ہے اِس لیے اُس کی آنکھ کا تارا بھی رہا ہے۔ آنکھ کا تارا بنے رہنے کے دن ختم ہوئے۔ جو ہوا مسلمانوں کے چراغ بجھانے پر بضد تھی وہ دیگر غیر سفید فام تارکین وطن کے چراغ بجھانے پر بھی تُلی ہوئی ہے۔ امریکا میں آباد بھارتی نژاد لوگوں کو اس بات پر ناز تھا کہ وہ امریکی معاشرے کے تانے بانے کا حصہ ہیں یعنی اِس طور گھل مل گئے ہیں کہ اب اُن کے خلاف نفرت کی لہر اُٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 
ٹرمپ کے آنے سے ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ امریکا میں ہندو بھی محفوظ نہیں رہے۔ پندرہ دن میں تین ہندوؤں اور ایک سکھ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پندرہ دن قبل جب ایک ہندو انجینئر کو سفید فام نسل پرست نے قتل کیا تو امریکا کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی ہاہا کار مچ گئی۔ بھارتی میڈیا نے امریکا میں آباد ہندوؤں کے جان و مال کو لاحق خطرات کے حوالے سے ڈھول پیٹنا شروع کردیا۔ انتہائے جذباتیت میں یہ سوال بھی اٹھایا جانے لگا کہ ہندوؤں کو امریکا میں رہ کر اُس کی ترقی کے لیے کوششیں جاری رکھنی چاہئیں یا نہیں! یہ رجحان دیکھ کر بہت سوں کی ہنسی چھوٹ گئی کہ ع 
ابتدائے عشق ہے، روتا ہے کیا 
بھارتی قیادت کو اندازہ نہیں تھا کہ امریکی چمن میں لگنے والی آگ وہاں آباد ہندوؤں کے نشیمن تک بھی آئے گی۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ایک بھارتی سکھ پر حملہ کیا گیا اور حملہ آور نے کہا کہ ہمارے ملک سے نکل جاؤ! 
امریکا میں آباد بھارتی نژاد ہندو اور سکھ مطمئن تھے کہ نشانے پر صرف مسلمان ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہ تھا کہ تعصب اور نفرت کی لہر کئی پرتیں رکھتی ہیں۔ یہ معاملہ صرف مذہب کی بنیاد پر اختلاف تک محدود نہیں رہتا۔ نفرت کی ہوا چلتی ہے تو تمام ہی چراغ بُجھنے کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ ہوا کسی سے امتیاز نہیں برتتی۔ یاد رکھنے کا نکتہ صرف یہ ہے کہ ع 
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں! 
امریکا میں غیر سفید فام اور دور دراز کے خطوں سے آکر بسے ہوئے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ جو کچھ کل تک صرف مسلمانوں سے روا رکھا جارہا تھا وہ اب دیگر مذاہب، نسل اور خطوں سے تعلق رکھنے والوں سے بھی روا رکھا جارہا ہے۔ امریکا میں آباد مسلمانوں کے لیے یہ خوشی منانے کا موقع ہرگز نہیں مگر یہ کہ اُن کی مشکلات کا اب دوسروں کو بھی تو تھوڑا بہت اندازہ ہو ہی جائے گا۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کو جو کچھ بنانا چاہتے ہیں اُس کی یہ ابتداء ہے۔ جو کچھ مسلمانوں نے دو ڈھائی عشروں تک سہا ہے وہی کچھ دوسرے محض دو تین سال بھی جھیل سکیں تو مسلمانوں کی مشکلات کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو ہو ہی جائے گا۔ ع 
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں