یہ جو چند سانسیں ملی ہیں اِنہیں ڈھنگ سے گزارنا تو بہت دور کا معاملہ ہے، اب تو لوگوں کو روئے زمین پر ملنے والی چند سانسوں کی مہلت کو ڈھنگ سے برباد کرنے کا ہنر بھی نہیں آتا! یہ تو فیضؔ تھے جو تحریک دیتے تھے کہ ع
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامتی رہتی ہے
اس میں بھی دھج کی شرط لگائی گئی ہے۔ یہاں حال یہ ہے کہ لوگ قتل ہونے سے پہلے ہی خود کو مُردہ تصور کرلیتے ہیں اور پھر تب و تاب اور ولولے سے یکسر عاری انداز کے ساتھ یوں زندگی بسر کرتے ہیں کہ دیکھنے والے صرف کفِ افسوس مل کر رہ جاتے ہیں۔
ماحول پر نظر دوڑائیے تو محسوس ہوتا ہے کہ یاروں نے زندگی جیسی نعمت کو صرف تباہی کے گڑھے کی طرف دھکیلتے رہنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ہمیں زندگی کے نام پر اِس دنیا میں کچھ کر گزرنے، کچھ کر دکھانے کی جو مہلت دی گئی ہے وہ کسی بھی اعتبار سے اِتنی زیادہ نہیں کہ واضح منصوبہ بندی کے تحت ضائع کی جائے۔ مگر افسوس کہ لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ہم قدم قدم پر بھول جاتے ہیں کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ دنیا بھر میں نئی سوچ، نیا انداز، نیا نظریہ اپنانے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ لوگ ماضی کو صرف یاد رکھتے ہیں، زندگی کا حصہ بنائے نہیں رکھتے۔ پُرانی اقدار میں سے جو کام کی ہیں بس وہی اپنائی جاتی ہیں۔ جو کچھ قبول کیے جانے کے قابل نہیں وہ قبول نہیں کیا جاتا۔
زندگی قدم قدم پر منظم سوچ کی طالب، بلکہ متقاضی ہے۔ کامیابی اُنہی کو ملتی ہے جو روئے زمین پر گزارنے کے لیے ملنے والے وقت کو نعمت گردانتے ہوئے اُسے نعمت ہی کی طرح برتتے بھی ہیں۔ ایسے لوگ وقت ضائع کرنے کو گناہِ کبیرہ کا درجہ دیتے ہیں۔ اِن کی زندگی واضح طور پر نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ عام آدمی کے لیے ایسے لوگ عجوبے کا درجہ رکھتے ہیں۔ تاریکی اگر بہت گہری ہو تو کہیں دور کسی شمع کی لَو بھی چاند سورج کی متبادل دکھائی دیتی ہے! یہی حال اُن لوگوں کا ہے جو خوب سوچ سمجھ کر زندگی بسر کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ عام لوگ اُنہیں دیکھ کر ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے ہیں، اُنہیں کسی اور سیّارے کی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔ جہاں ہر طرف انتشار ہو وہاں اگر کسی کی زندگی منظّم دکھائی دے رہی ہو تو سِوائے حیرت کے اور کس چیز کا اظہار کیا جاسکتا ہے؟
مرزا تنقید بیگ کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو زندگی کو کسی بھی طرح کی پابندی کا مُکلّف نہیں سمجھتے۔ اُن کا بنیادی ''نظریہ‘‘ یہ ہے کہ کوئی نظریہ ہونا ہی نہیں چاہیے! یعنی جہاں کہیں سے کوئی مفاد ممکن بنایا جاسکتا ہو، بنایا جانا چاہیے۔ زندگی کے حوالے سے اُن کی ''حکمتِ عملی‘‘ یہ ہے کہ تمام معاملات میں ''سُکون‘‘ واضح طور پر دکھائی دینا چاہیے یعنی جو کچھ بھی کرنا ہے وہ اِس طور کیجیے کہ کچھ کرنا نہ پڑے! ہاں، اگر ایسا کرنے (یعنی کچھ نہ کرنے) سے دوسروں کا سُکون غارت ہوتا ہے تو ہوتا رہے!
زندگی گزارنے کے انداز کی بات ہو تو مرزا انوکھے نہیں بلکہ ''خالص پاکستانی‘‘ واقع ہوئے ہیں! یہاں ہر طرف ایک ہی چلن عام ہے ... یہ کہ جیسے بھی ممکن ہو، گزارنے کے نام پر زندگی کو ٹھکانے لگائیے اور اِس دنیا سے چل دیجیے۔مرزا کہتے ہیں کہ اب اس دنیا میں سنجیدگی، لگن اور محنت کا کرنا کیا ہے۔ ہر طرف، ہر معاملے میں اوسط درجے کی سوچ اور اوسط درجے کے عمل ہی کا سِکّہ چل رہا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ بہت odd دکھائی دیتے ہیں جو معاملات کو even کرنے کے فراق میں رہتے ہیں! آج کی دنیا ہم سے بہت کچھ چاہتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ مجموعی سوچ primitive ہے تو ہم جدید انداز اپناکر کیا کریں گے؟ ہم نے جب بھی اُنہیں قائل کرنے کی کوشش کی ہے تب اُنہوں نے اپنے دلائل یا سوچ کے حق میں اِسی ماحول سے اِتنی مثالیں پیش کی ہیں کہ ہم محض شرمندہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ بھی اِس دور کا خاصہ ہے کہ جو لوگ کچھ نہیں کرتے اُن کے پاس اپنی روش کو درست ثابت کرنے والے ایک نہیں، درجنوں جواز ہوتے ہیں۔ اور ہر جواز ایسا کہ جو سُنے وہ دم بخود رہ جائے!
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا یعنی بے عملی سے ''مزیّن‘‘ زندگی ہم کب تک بسر کرتے رہیں گے؟ سیدھی سی بات ہے، یہ سب کچھ چلتا ہی رہے گا اگر ہم چلاتے رہنے پر آمادہ، بلکہ بضد ہوں! زندگی بھر کے باقاعدہ، عمومی ''مشاہدے‘‘ کی بنیاد پر اتنی بات تو سمجھ چکے ہیں کہ خرابی کا واضح مطلب موت نہیں۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں (کیونکہ وہ دیکھتے آئے ہیں) کہ بہت سی خرابیوں کو اپنانے اور پروان چڑھانے سے بھی موت واقع نہیں ہوتی۔ ہاں، زندگی کا معیار گرتا چلا جاتا ہے۔ مگر اب معیار کی پروا کون کرتا ہے؟ مقدار پر نظر ہے اور نظر بھی ایسی کہ ہٹتی نہیں۔ معاشرے میں ہر طرف ایسے لوگ دکھائی دے رہے ہیں جو پوری سنجیدگی اور لگن سے کچھ کیے بغیر بھی جیے ہی جارہے ہیں۔ جب زندگی کا دھارا کسی نہ کسی طور رواں ہی رہتا ہے تو پھر اِسے رواں رکھنے کے بارے میں الگ سے اور باضابطہ طور پر سوچنے کی ضرورت کیا ہے؟
''چلتی کا نام گاڑی‘‘ کے ''نظریے‘‘ کی بنیاد پر زندگی بسر کرنے والوں کی کمی کل تھی نہ آج ہے۔ اور پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ معاشرے کا سوادِ اعظم یہی لوگ ہوں گے۔ جو کچھ چلتا آیا ہے اُسی پر قانع ہو رہنے میں کیا قباحت ہے؟ زندگی تو گزر ہی رہی ہے۔ ڈھنگ سے کچھ کیے بغیر بھی گزارا تو ہو ہی رہا ہے۔ جب لوگ گزارے کی سطح پر زندگی بسر کرنے کا سوچ لیں، طے کرلیں تو معاملات تھم جاتے ہیں، قدم جم جاتے ہیں۔ زندگی کا سفر تو کسی بھی سطح پر جاری ہی رہتا ہے۔ ایسے میں کسی کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا محض دشوار نہیں بلکہ دردِ سر ہے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر ہی تو سیکھتے رہتے ہیں۔ جب معاشرے کا دریا کسی نہ کسی شکل میں بہہ رہا ہو تو لوگ دھارے کے عادی ہو جاتے ہیں، اُس کا رُخ بدلنے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے!