ناصرؔ کاظمی مرحوم نے کہا تھا ع
میں تو ایک نئی دنیا کی دُھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں
یہ مصرع ناصرؔ کاظمی نے خدا جانے کس دُھن میں کہا ہو گا اور وہ پتا نہیں کیا تلاش کرنا چاہتے ہوں گے مگر ہمیں تو یہ مصرع چنچی رکشے دیکھ کر اکثر یاد آیا ہے!
چنچی رکشے ایک انوکھی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی نئی دنیا کی دُھن میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ کوئی روکنا چاہے تو روک نہ پائے۔ اور رکنا تو دور کی بات ہے، یہ چھلاوے آنکھوں میں بھی دم بھر نہیں ٹھہرتے! ع
... اِدھر سے آیا، اُدھر گیا وہ
چنچی رکشے دو یکسر مختلف زمانوں کا مرکّب ہیں۔ یہ نصف موٹر سائیکل اور نصف ٹانگے پر مشتمل ہوتے ہیں اِس لیے اِن میں دوغلے پن کا پایا جانا حیرت کی بات نہیں۔ اِس پر طُرّہ یہ کہ ڈرائیور خود کو پائلٹ گردانتے ہوئے اِنہیں سڑک پر رہتے ہوئے اُڑانے کی کوشش کرتے ہیں! دور سے آتا دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کے لیے لازمی رکیں گے مگر آپ کے پاس پہنچ کر یہ دوبارہ ایسی رفتار پکڑیں گے کہ آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ (اپنا) دل تھامیں یا (اپنا ہی) سَر پیٹیں! ایسے ہی کسی لمحے کے لیے داغؔ دہلوی نے کہا تھا ؎
لے چلا جان مِری روٹھ کے جانا تیرا
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا
اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسافر دور سے کسی چنچی رکشے کو روشنی کی رفتار سے آتا ہوا دیکھتے ہیں اور مایوس ہوکر ایک طرف ہٹ جاتے ہیں مگر چنچی کا ڈرائیور حیرت انگیز طور پر بریک دبا دیتا ہے اور سڑک پر کھڑے ہوئے مسافر حیرت کے سمندر میں جا گِرتے ہیں... اور اِس سے پہلے کہ ڈرائیور اپنا ارادہ بدل دے، مسافر حیرت کے سمندر کی غوطہ خوری ترک کرتے ہوئے حقیقت کی دنیا میں واپس آتے ہیں اور جھٹ رکشے میں بیٹھ کر سکون کا سانس لیتے ہیں!
تقریباً تمام ہی چنچی رکشے ''دل میں جگہ ہونی چاہیے‘‘ کے اُصول کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ مسافر کا راضی ہونا شرط ہے۔ باقی کام ڈرائیور کا ہے اور وہ اپنا کام ایسی مہارت سے کرتا ہے کہ دو انڈوں کی مدد سے پانچ انڈوں کا آملیٹ بناکر دکھاتا ہے یعنی جہاں دو افراد ڈھنگ سے نہ بیٹھ پائیں وہاں یہ چار بندے یوں بٹھاتا ہے کہ دیکھنے والے خود کو تادیر حیرت کی راہ پر کا مسافر پاتے ہیں اور راہ بھی ایسی کہ جس کی منزل کا نام و نشان نہ ہو! مسافر راضی ہو تو اُسے بٹھاکر یعنی باضابطہ فِٹ کرکے مزے کرانا (!) ڈرائیور کا کام ہے۔ ع
ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ
ایک بار چنچی رکشے میں فِٹ ہونے پر آپ خود کو کسی ریسنگ کار میں محسوس کریں گے۔ اب آپ کو معلوم ہوگا کہ فرّاٹے بھرنا کیا ہوتا ہے۔ جب چنچی رکشوں کے درمیان ریس لگتی ہے تو بڑی بڑی گاڑیاں جگر تھام کر ایک ہٹ جاتی ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتی ہیں۔ چنچی رکشوں کے آنے اور گزر جانے کی کیفیت داغؔ دہلوی نے اِن الفاظ میں بیان کی ہے ؎
اپنی آنکھوں میں ابھی کوند گئی بجلی سی
نہیں معلوم یہ آنا تھا کہ جانا تیرا!
خیر سے چنچی رکشے میں بیٹھنے کا انتظام کچھ اِس نوعیت کا ہوتا ہے کہ مردانہ حصے میں تو معاملات نہ چاہتے ہوئے بھی ناشائستگی اور بدتہذیبی کے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں! سبھی ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوتے نظر آتے ہیں! راستے میں کسی ایک مسافر کو اترنا ہو تو بیک وقت کئی مسافر چُبھے ہوئے تیر کے نکلنے کی سی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں! ہلنا جلنا تو بہت دور کی بات ہے، کھل کر سانس لینا بھی کارنامہ محسوس ہوتا ہے! ؎
ایسے اکھیاں میچے پڑے ہیں کروٹ بھی نہیں لے سکتے
جن کی چالیں البیلی اور چلنے میں چَھلبلیاں تھیں!
چنچی رکشے میں مسافروں کو فٹ کرنے کی تکنیک ایسی ہے کہ بالکل جُڑ کر بیٹھے ہوئے لوگ بھی ایک دوسرے کو دیکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے! کئی اسٹاپ گزر جاتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کا دیدار نصیب نہیں ہو پاتا! ہاں، گردن گھما کر رکشے سے باہر کی دنیا کا نظارا جتنا چاہے کیجیے۔
اور خواتین؟ اُن پر تو چنچی رکشے نے ایسا ستم ڈھایا ہے کہ کیا ہی کسی شوہر یا فیشن نے ڈھایا ہوگا۔ خواتین اور چُپ رہیں؟ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا مگر چنچی رکشے میں دنیا یہ معجزہ بھی دیکھتی ہے! چنچی رکشے کا پچھلا حصہ خواتین کے لیے مختص ہوتا ہے۔ خواتین اِس حصے میں یُوں پھنس پھنساکر بیٹھتی ہیں کہ ڈھنگ سے سانس بھی نہیں لیا جاتا۔ اپنا وجود یاد رہ جائے تو بڑی بات ہے، ایسے میں نند، بھاوج، دیورانی، جیٹھانی اور ساس سُسر کو کیا یاد کریں اور ان کی جان کو کیا روئیں؟ جہاں سانس ہی اٹک اٹک کر آرہا ہو وہاں ''حوصلۂ کلام‘‘ یعنی باتوں کا جگرا کہاں سے لائیں؟ ؎
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی، کہاں کی غزل؟
اگر کسی کو زندگی سے شِکوہ ہے کہ اُسی کبھی سکون کا سانس نہیں لینے دیا تو ایک بار چنچی رکشے میں بیٹھ کر دیکھے۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا یہ شِکوہ مٹ جائے گا۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ ہم دراصل یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک آدھ گھنٹہ چنچی رکشے میں سفر کرنے کے بعد اُترنے پر آپ کو اندازہ ہوگا کہ سکون کا سانس لینا کیا ہوتا ہے!
بہت سی فیملیز چنچی رکشے کو رولر کوسٹر اور سُوئنگز وغیرہ کے زمرے میں رکھ کر استعمال کرتی ہیں۔ بچے اگر سیر سپاتے اور جدید ترین جُھولوں میں بیٹھنے کی ضد کر رہے ہوں تو انہیں پندرہ بیس منٹ چنچی رکشے میں سفر کرائیے۔ ہم تقریباً دعوے کے انداز سے یقین دہانی کراتے ہیں کہ چنچی رکشے سے اترنے پر بچے کسی امیوزمنٹ پارک جانے کی ضد نہیں کریں گے!
ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں دیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ بہت سے تاریخی عمارتیں اپنی شان دکھاتی نہ تھکتی تھیں۔ جدید ترین مگر خاصی غیر دل کش و بے جان عمارتوں کے جھرمٹ میں تاریخی عمارتوں کا حُسن گہنا سا گیا ہے۔ اب اگر کسی سے کراچی کی کوئی نشانی یا نمایاں چیز دریافت کیجیے تو وہ سوچنے میں بہت دیر لگاتا ہے۔ ایسے میں چنچی رکشے دردِ دل کی دوا بن کر نمودار ہوئے ہیں۔ اِس وقت اگر کوئی بھی اور چیز دل کش اور قابل غور دکھائی نہ بھی دیتی ہو تو چنچی رکشوں کے ذریعے بھی کراچی کو یاد رکھا جا سکتا ہے! ایک دور تھا کہ W-11 کے روٹ کی بسیں کراچی کی شناخت تھیں۔ لوگ اِن گاڑیوں کی تصویریں دیکھتے ہی سمجھ جاتے تھے کہ بات کراچی کی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں گاڑیاں سجانے کا رواج ملک گیر ہے مگر خیر، اس معاملے میں W-11 ''پاینیئر‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ اب چنچی رکشے بہارِ جاں فزا دِکھا رہے ہیں تو W-11 اور اِسی قبیل کی دیگر گاڑیاں اُن غنچوں کی سی حیثیت اختیار کرگئی ہیں جو بن کِھلے مُرجھا جاتے ہیں! بس یہ یوں سمجھیے کہ چنچی رکشے آگئے ہیں تے چھاگئے ہیں، ٹھاہ کرکے! بقول فیض ؔ ؎
تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی