"MIK" (space) message & send to 7575

… آدمی بن جائیے!

مغرب کی مادّہ پرستی ہمارے ہاں ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ اہلِ مغرب جس انداز کی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ ہمارے ہاں انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور کیوں نہ سمجھا جائے؟ وہاں سب کچھ ہنگامی نوعیت کا ہے۔ محبت ہے تو پل بھر کی۔ دوستی ہے تو چند لمحوں کی۔ ملازمت ہے تو چند گھنٹوں کی۔ سب کچھ ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ 
ہم اہلِ مشرق بہت سی روایات پر فخر کرسکتے ہیں۔ دوستی اور محبت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم پل بھر کے یا ہنگامی نوعیت کے تعلق پر یقین نہیں رکھتے۔ اچھا ہے تو زندگی بھر کے لیے اور برا ہے تو زندگی بھر کے لیے۔ جو پیار کیا تو پیار کیا، جو نفرت کی تو نفرت کی۔ یہ ''زندگی بھر‘‘ والا معاملہ ہر معاملے میں دکھائی دیتا ہے۔ کوئی اگر محنت کر رہا ہے تو بس کرتا ہی جارہا ہے کہ زندگی بھر یہی کرنا ہے۔ اور اگر کسی نے ٹھان لی ہے کہ مفت کی روٹیاں توڑنی ہیں تو زندگی بھر اِسی روش پر گامزن رہنا ہے۔ کس میں ہمت ہے کہ ہڈ حرامی اور مفت خوری کی روش سے ہٹاکر دکھائے! 
اہلِ مغرب بعض معاملات میں ایسی مثالیں بھی چھوڑ جاتے ہیں کہ ہم شرمندہ شرمندہ ہو جاتے ہیں۔ اِس معاملے تہذیبوں کے مطالعے کے حوالے سے عالمگیر شہرت رکھن والے میاں بیوی ول ڈیوراں اور ایرل ڈیوراں کی مثال بہت واضح ہے۔ دونوں نے طویل عمر پائی۔ زندگی بھر ساتھ رہے۔ علم و ادب کی خدمت کی اور دنیا سے گئے بھی تو تقریباً ساتھ ساتھ۔ اب ایک اور مغربی جوڑے نے ہم اہلِ مشرق کو شرمندہ کرنے کی خاصی کامیاب سعی کی ہے۔ 
93 سالہ ولف رسل اور 91 سالہ ویرا نے کم و بیش 71 سال ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا اور خوب نبھایا۔ گزشتہ برس ولف کی یادداشت جواب دے گئی۔ اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ویرا کے لیے ممکن نہ تھا کہ شوہر کے ساتھ رہتیں کیونکہ خود ان کی عمر 91 سال تھی اور وہ شوہر کی تیمار داری کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔ اکلوتی پوتی یونی دادی کو دادا سے ملوانے لے گئی۔ اسپتال میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ جس کی ویرا نے کبھی توقع نہ کی ہوگی۔ ولف رسل نے اُنہیں یعنی زندگی بھر کی ساتھی کو بھی نہ پہچانا۔ کمزوری اِس قدر بڑھ گئی تھی کہ اُن کے حافظے اور دماغ نے کام کرنا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔ جب شوہر نے نہ پہچانا تو ویرا پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اُنہوں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ جیون ساتھی ہی کے حافظے سے وہ غائب ہو جائیں گی! ویرا کو ایسا لگا جیسے اُن کی دنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا بھرگیا ہے۔ ولف رسل کا اپنی بیوی کو نہ پہچان پانا گو کہ بیماری، کمزوری اور ڈھلی ہوئی عمر کا نتیجہ تھا مگر پھر بھی ویرا کے لیے یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ ایسی زندگی بھلا کس کام کی کہ شوہر ہی نہ پہچان پائے! شوہر سے ملاقات کے بعد گھر واپسی پر ویرا بھی بیمار پڑگئیں۔ محض ایک دن میں اُن کی حالت ایسی بگڑی کہ اُنہیں اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ 91 سال کی عمر میں انسان موت کی طرف جا ہی چکا ہوتا ہے مگر ویرا، جو ایک دن پہلے تک اچھی خاصی تھیں، محض ایک دن میں ڈھل گئیں اور موت کی طرف اپنا سفر تیز کردیا۔ 
اور پھر کچھ ہی دن بعد ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے لوگوں کو حیران کردیا۔ ولف رسل اور ویرا الگ الگ اسپتالوں میں داخل تھے۔ ولف رسل کو معلوم نہ تھا کہ اُن کی شریکِ حیات بھی اسپتال میں ہیں۔ اُن کا انتقال صبح 6 بج کر 50 منٹ پر ہوا۔ اور صرف 4 منٹ کے فرق سے یعنی 6 بج کر 54 منٹ پر ویرا نے بھی اِس فانی دنیا کو الوداع کہا۔ ویرا کو معلوم نہ تھا کہ وہ بیوہ ہوچکی ہیں۔ 
71 سال کا ساتھ ... اور دنیا سے جانے میں صرف 4 منٹ کا فرق۔ ایسا تو صرف فلموں میں ہوتا ہے۔ ع 
... محبت ہو تو ایسی ہو! 
ویرا نے ثابت کردیا کہ محبت اگر پختہ و لازوال ہو تو رنگ ضرور لاتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کا سایا تھیں۔ شوہر دنیا سے گیا تو وہ بھی چل دیں۔ ؎ 
میں مٹ گیا تو وہ بھی مرے ساتھ مٹ گیا 
سائے سے خوب حقِ رفاقت ادا ہوا! 
اکیسویں صدی میں محبت کی ایسی مثال اور وہ بھی مغربی معاشرے میں! ہم اہل مغرب میں سو کیڑے تلاش کرتے ہیں مگر اپنی کوتاہیوں پر نظر نہیں کرتے۔ ہم اُنہیں دنیا دار کہتے ہیں مگر خیر انہوں نے دنیا تو پا ہی لی ہے، اور اِدھر ہمارا یہ حال ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم! بقول سلیم احمد مرحوم ؎ 
دیوتا بننے کی حسرت میں معلّق ہوگئے 
اب ذرا نیچے اُتریے، آدمی بن جائیے! 
خواہش جنت کو پانے کی ہے اور اعمال جہنم کی طرف لے جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دل ہے کہ دنیا کا دامن چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور اُخروی زندگی کی تیاریوں کے بارے میں سوچ سوچ کر گھبراہٹ میں مبتلا رہتا ہے! گویا 
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی 
ہمارے ہاں اب تک پُرانی سوچ ہی پر عمل ہو رہا ہے۔ آپ کا تو ہمیں کچھ پتا نہیں، ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ بیوی کے مرتے ہی شوہر بھی ڈھلنے لگتا ہے اور تین چار سال میں وہ بھی بوریا بستر لپیٹ کر چل دیتا ہے مگر خواتین ماشاء اللہ بیوگی کی حالت میں دو ڈھائی عشرے آرام سے گزار لیتی ہیں! یقین نہ آئے تو اپنے ماحول پر ایک نظر ڈال دیکھیے۔ 
مرزا تنقید بیگ ہماری کسی بھی بات سے متفق ہونے میں ایک زمانہ لگا دیتے ہیں۔ جب کبھی ہم نے اِس ملک کی بیواؤں کی طویل عمر کا ذکر کیا ہے، اُنہوں نے فوراً ہماری تردید کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عورت تو وفا کی پتلی ہوتی ہے۔ اُسے بھی شوہر کی موت کا غم ہوتا ہے اور وہ بھی کچھ مدت بعد اِس دنیا سے چل دیتی ہے۔ اور ہم نے جب کوئی مثال طلب کی ہے تو اُنہیں آئیں بائیں شائیں پر گزارا کرنا پڑا ہے! خود مرزا کے خاندان میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ شوہر کے مرنے پر بیوی اِتنی طویل مدت تک زندہ رہی کہ پوتوں پوتیوں کی بھی شادیاں دیکھ کر دنیا سے گئی۔ اور دوسری طرف کئی مرد بیوی کے مرنے پر محض دو تین برس میں ہمیشہ کے لیے انٹا غفیل ہوگئے! 
ایک بار جب بیواؤں کی طول العمری کے حوالے سے بحث نے طول پکڑا اور مرزا کسی بھی طور ہمارا کوئی استدلال تسلیم کرنے کے موڈ میں دکھائی نہ دیئے تو ہم نے بالآخر ایک تیر ایسا چلایا جو نشانے پر لگا۔ جب مرزا کسی طور ہم سے متفق نہ ہوئے تو ہم نے کہا اگر آپ کو پورا یقین ہے کہ آپ کے بعد بھابی صاحبہ بھی اِس دنیا سے ناتا توڑ لیں گی تو چلیے، مر کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو خود ہی لگ پتا جائے گا! 
یہ سننا تھا کہ مرزا سہم گئے اور اُن کے چراغوں میں روشنی نہ رہی! بحث کے ذریعے دل بہلانا اور بات ہے مگر مرزا اپنے نکتے کو درست ثابت کرنے کے لیے اِتنا بڑا رسک لینے پر آمادہ نہ ہوئے اور بحث اِسی مقام پر سمیٹتے ہوئے ہمیں چائے پلاکر رخصت کرنے میں عافیت جانی! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں