"MIK" (space) message & send to 7575

’’بھارت ہٹھ‘‘

مہاراج مسلسل حالتِ انکار میں ہیں۔ پہلے معاملہ پاکستان تک محدود تھا۔ اب چین کھل کر سامنے آیا ہے تو پاکستان کی طرح اُسے بھی نئی دہلی کی طرف سے ''میں نہ مانوں‘‘ والی سوچ کا سامنا ہے۔ آنکھوں دیکھی حقیقت کو تسلیم اور قبول کرنے سے بھی انکار کرکے آنکھوں دیکھی مکّھی نِگلی جارہی ہے! 
کیوں؟ چین کم و بیش 64 ممالک مل کر ایک نئی دنیا کی تشکیل کے لیے عزم اور سکت سبھی کچھ ظاہر کر رہا ہے۔ پاکستان، چین، ترکی، روس، وسطِ ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، اوشنیا (بحر ہند و بحرالکاہل پر مشتملہ خطہ) اور افریقا میں جوش و خروش کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ تین صدیوں سے اہلِ مغرب پوری دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ اور اب یہ راج خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ امریکا بدمست ہاتھی کی طرح دندناتا پھر رہا ہے اور کسی کو بھی خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ یورپ نے اپنی راہیں الگ تو کی ہیں مگر تمام معاملات میں امریکا سے الگ ہوکر چلنا اُس کے لیے اب بھی ممکن نہیں ہو پایا۔ ایسے میں اگر گلو خلاصی کی کوئی صورت نکل رہی ہے تو اِس میں بُرا کیا ہے؟ 
دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان بھی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں تیزی سے اُبھرا۔ کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے کے ساتھ ساتھ اُس نے ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی صلاحیت اور سکت کا لوہا کچھ اِس ڈھنگ سے منوایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ایشیا میں جاپان کی ترقی مغربی دنیا کے لیے بھی چونکانے والی تھی۔ مگر خیر، یہ معاملہ یہیں تک تھا۔ جاپان کی ترقی سے پورے براعظم کو کچھ خاص فائدہ نہ پہنچا کیونکہ جاپان تب سے اب تک مغربی کیمپ میں ہے۔ 
مغرب کی بالا دستی اب اِتنی خطرناک شکل اختیار کرگئی ہے کہ بعض خطے بالکل دب کر رہ گئے ہیں۔ افریقا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مشرقِ وسطٰی میں جو خرابیاں کئی عشروں کی محنت اور منصوبہ بندی سے پیدا کی گئی ہیں وہ سب کی آنکھوں پر عیاں ہیں۔ اِس حقیقت سے کوئی انکار کرسکتا ہے کہ اہلِ مغرب اور بالخصوص امریکا و برطانیہ نے اسلامی دنیا کو ہر معاملے میں پس ماندہ رکھنے پر خاص توجہ دی ہے؟ اور معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا۔ بھرپور شعوری کوشش رہی ہے کہ کوئی بھی اسلامی ملک مستحکم نہ رہے۔ افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور شام کو دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر تاراج کردیا گیا ہے۔ اسلامی دنیا کے سینے میں اسرائیل نام کا خنجر گاڑ کر امریکا اور یورپ نے تمام اسلامی ممالک کو مستقل اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ 
چین اور روس کا یورپ اور امریکا کی عمومی روش سے ہٹ کر سوچنا اور اپنے لیے عالمی سیاست و معیشت میں الگ راہ نکالنے کی کوشش کرنا اوروں کے لیے محض حیرت انگیز ہوگا، اسلامی دنیا کے لیے تو خوش آئند بھی ہے۔ ہم یورپ اور امریکا کو بھی دیکھ اور آزما چکے ہیں۔ ایسے میں چین اور روس مل کر آگے بڑھنے کے تمنائی ہیں تو اسلامی دنیا کا اِس طرف جھکنا حیرت انگیز سمجھا جانا چاہیے نہ بے عقلی کی علامت۔ 
یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ چین جو کچھ کر رہا ہے وہ اوّل و آخر اُس کے اپنے مفاد کا سَودا ہے۔ اِس میں بھی کسی کے لیے حیرت کا کوئی خاص پہلو نہیں۔ ہر بڑا ملک ایسا ہی کرتا ہے۔ اور یہ معاملہ بڑے ملکوں تک کب محدود ہے؟ چھوٹے سے چھوٹا ملک بھی اپنے ہی مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے اور رکھنا چاہیے۔ چین اگر ہمیں ساتھ مل کر چلنا چاہتا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ہمارے محلِ وقوع سے بھرپور استفادہ کرنے کے موڈ میں ہے۔ یہی معاملہ روس اور وسط ایشیا کی ریاستوں کا بھی ہے۔ اُنہیں بیرونی دنیا سے بہتر کاروباری روابط کے لیے پاکستان جیسے ملک سے راہداری درکار ہے۔ تو یہ راہداری فراہم کرنے میں کیا ہرج ہے ... جبکہ اِس کے عوض بہت کچھ مل بھی رہا ہو۔ اور ہمارے پاس ایسا کرنے کے سوا کون سا آپشن بچا ہے؟ ہماری قیادت کا جو حال ہے وہ سب سے زیادہ ہمیں پر تو عیاں ہے۔ سات عشروں میں بھی ملک اور قوم کو پروان چڑھانے کی سوچ پروان نہیں چڑھ سکی۔ کسی اور معاملے میں بہتری کی امید کیا ہوگی، اب تک بنیادی ڈھانچا ہی مستحکم نہیں کیا جاسکا ہے۔ چین اپنی غرض کے لیے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ ریاستی سطح پر کیا جارہا ہے۔ کم و بیش 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کوئی ایسا گیا گزرا معاملہ نہیں کہ زبانی کلامی طور پر ہو جائے۔ آنے والی حکومتوں کو بھی اس معاملے میں خاطر خواہ دلچسپی لینا ہوگی۔ 
بھارت خطے کا انتہائی اہم ملک ہے۔ چین اور بھارت رقبے اور آبادی دونوں اعتبار سے اِتنے بڑے ہیں کہ اُن کی پالیسیاں وسیع تر اثرات کی حامل ثابت ہوتی ہیں۔ ایسے میں ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے تصور کے ساتھ شروع کیے جانے والے منصوبوں سے بھارت کا الگ تھلگ رہنا حیرت انگیز ہی نہیں، تشویشناک بھی ہے سیاسیاتِ عالم کی معمولی سی شُدبُد رکھنے والا بھی محسوس کرسکتا ہے کہ بھارت جو کچھ کر رہا ہے وہ محض اُس کی مرضی کا عکّاس نہیں۔ نئی دہلی کے بزرجمہر پالیسی اور حکمتِ عملی کی سطح پر جو کچھ بھی کر رہے ہیں اُسے ہم ایک وسیع البنیاد فرمائشی پروگرام کا شاخسانہ قرار دے سکتے ہیں۔ امریکا اور یورپ پوری دنیا میں منہ مارتے رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اُن کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چین اِس خطے کا ملک ہے مگر وہ اپنے ہی خطے میں کچھ کرنا چاہتا ہے تو امریکا اور مغرب دونوں کے لیے یہ بات ناقابل قبول ٹھہری ہے! 
چین اور روس کے بڑھتے قدم روکنے کے لیے سرِ دست اور کچھ کرنا تو امریکا اور یورپ کے لیے ممکن نہیں۔ ایسے میں بہتر سمجھا گیا ہے کہ بھارت کو مہرہ بناکر آگے بڑھایا جائے۔ امریکا اور یورپ کی مرضی یہ ہے کہ چین کو کسی نہ کسی طور کسی بڑے وار تھیٹر میں الجھا دیا جائے۔ مشرق وسطٰی میں ایسا کرنا ممکن نہ ہوسکا۔ اب بھارت کو آگے لایا جارہا ہے تاکہ چین اُس کے ساتھ الجھے اور ون بیلٹ ون روڈ سے متعلق اُس کے منصوبے کھٹائی میں پڑجائیں۔ 
اب سوال یہ ہے کہ بھارت کو کوئلے کی دلالی میں ہاتھ، پیر اور منہ کالا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ کسی کی فرمائش پر ایسا کام کیوں کر رہا ہے جو boomerang (پلٹ کر چلانے والے ہی کو نشانہ بنانے والا ہتھیار) کا کام کرسکتا ہے؟ 
آپ نے بالک ہٹھ (بچے کی ضِد)، راج ہٹھ (بادشاہ کی ضِد) اور تریا ہٹھ (عورت کی ضِد) کے بارے میں ضرور سُنا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ اِن میں کسی کی بھی ضِد کا مقابلہ کوئی اور ضِد نہیں کرسکتی مگر اب مارکیٹ میں نئی ضِد آئی ہے ... بھارت ہٹھ! خطے کی تقدیر بدلنے کے حوالے سے کیے جانے والے وسیع البنیاد اور دور رس اقدامات اور منصوبوں کے حوالے سے بھارت نے ''میں نہ مانوں‘‘ والی طرزِ فکر و عمل اختیار کر رکھی ہے۔ 
جو کچھ امریکا اور یورپ کرنا چاہتے ہیں وہ بھارت سے کروا رہے ہیں۔ نئی دہلی کے بزرجمہر فرمائشی پروگرام چلا رہے ہیں۔ مختلف شعبوں میں غیر معمولی ترقی سے ہم کنار ہونے کا دعویٰ کرنے والا بھارت کہاں کھڑا ہے؟ اُس کے پالیسی میکرز نے کیا گھاس چَرلی ہے؟ ہزاروں میل دور واقع خطوں کے کہنے پر چین کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنا کہاں کی دانش اور کہاں کی سفارت کاری ہے؟ یوں بچوں کی طرح ہٹھ دھرمی اختیار کرنا بھارت کو کہاں لے جائے گا، کتنا تنہا کردے گا یہ بات ہم اور آپ تو کم مگر خود بھارت کے پالیسی میکرز زیادہ اور اچھی طرح جانتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں