"MIK" (space) message & send to 7575

’’فیملی فن فیئر‘‘

لگتا ہے یاروں نے طے کرلیا ہے کہ اب ہر معاملے کو کسی نہ کسی طور انٹرٹینمنٹ سے جوڑ ہی دینا ہے۔ میڈیا کی مہربانی سے اب عام آدمی بھی اس بات کا خواہش مند ہے کہ کسی بھی معاملے کو ہنسنے ہنسانے کے موقع میں تبدیل کیے بغیر نہیں نہ رہا جائے اور جس قدر لطف اٹھایا جاسکتا ہے، اٹھایا جائے۔ یہی سبب ہے کہ اب لوگ میت میں بھی شریک ہوتے ہیں تو مرنے والے کی یاد میں چار آنسو بہانے کے بجائے گفتگو کے دوران ہنسنے ہنسانے کا کوئی پہلو برآمد کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور قبرستان میں میت کو قبر میں اتارے جانے کے دوران بھی ہنستے، مسکراتے پائے جاتے ہیں! 
اب آپ ہی سوچیے کہ جب لوگ قبرستان میں ہنسنے اور دل لگی کرنے سے باز نہیں آتے تو شادی کے گھر میں خوش ہونے اور ہنسنے ہنسانے کا کون سا موقع ضائع کریں گے! عالم یہ ہے کہ شادی کے گھر میں ہر معاملہ ہنسی سے شروع ہوکر قہقہے پر ختم ہوتا ہے۔ شادی والے گھر میں خوشیاں ہونی ہی چاہئیں مگر اب ایسی بھی کیا ہوس کہ شادی جیسے اہم معاملے کو ''فیملی فن فیئر‘‘ میں تبدیل کردیا جائے! کسی بھی معاملے سے تفریحِ طبع کشید کرنے کی کوئی ایک حد ضرور متعین کی جانی چاہیے۔ 
شادی کے حوالے سے آج کل ایسی عجیب خبریں آرہی ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اُن پر دل کھول کر ہنسا جائے یا عقل کا ماتم کیا جائے۔ یاروں نے طے کرلیا ہے کہ ہر معاملے کو انٹرٹینمنٹ کی چوکھٹ پر قربان کرکے دم لیں گے! 
بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں شادی کی تقریب میں اُس وقت دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوگئی جب پاکستانی فلموں میں کمال ایرانی کا ادا کیا ہوا مشہور کردار دولھا کی سابق گرل فرینڈ نے ادا کیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کمال ایرانی نے کئی فلموں میں ہیرو کے جلّاد صفت باپ کا کردار ادا کیا تھا۔ سچویشن یہ ہوتی تھی کہ جہیز نہ ہونے یا وعدے کے مطابق نہ دیئے جانے پر کمال ایرانی شادی کے شامیانے میں اعلان فرماتے تھے ''یہ شادی نہیں ہوسکتی، بارات واپس جائے گی۔‘‘ 
سنجے کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ مقدس اگنی کے گرد شادی کے پھیرے لینے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ اُس کی سابق گرل فرینڈ چند مردوں کے ساتھ وہاں آئی اور پنڈت جی کو شلوک پڑھنے سے روک دیا۔ پھر اُس نے سنجے کو گن پوائنٹ پر اغوا کیا یعنی اپنے ساتھ لے گئی! باراتی بے چارے ''دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا‘‘ والی صورت حال پیدا ہونے پر اپنے سے منہ لے کر رہ گئے۔ ذرا سی دیر میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اغوا کار سنجنا سے سنجے محبت کرتا تھا اور دونوں نے ساتھ جینے، ساتھ مرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔ مگر جب گھر والوں نے کہیں اور شادی طے کردی تو سنجے سے باپ کے سامنے اپنی محبت کا اقرار، اعلان یا انکشاف نہ ہوسکا۔ جب سنجنا کو معلوم ہوا کہ جس کے ساتھ وہ باقی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرچکی ہے وہ کسی اور کا ہونے والا ہے تو یہ صورتِ حال اُس سے برداشت نہ ہوسکی اور وہ لگن منڈپ سے دولھا ہی کو لے اُڑی۔ 
ایسا ہوتا ہے ہمت کا اظہار اور ایسی ہوتی ہے انٹرٹینمنٹ! سُنا ہے سنجنا نے لگن منڈپ میں انٹری دی تو خالص فلمی انداز سے سنجے کو للکارتے ہوئے کہا ''محبت کے وعدے ہم سے اور شادی کسی اور سے؟ ایسا ہم ہونے نہیں دیں گے!‘‘ سنجے کا تو ہمیں معلوم نہیں، البتہ پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ باراتیوں کے لیے تو ''سواد آگیا بادشاہو‘‘ والی کیفیت ضرور پیدا ہوگئی ہوگی! ایک ٹکٹ میں دو مزے اِسی کو تو کیفیت کہتے ہیں۔ شادی کی شادی، فلم کی فلم! ڈراما، ایموشن، تھرل، ٹریجڈی ... جو کچھ بھی چاہیے وہ سب ملے گا شادی کے شامیانے میں۔ 
دوسرا کیس اُتر پردیش کے ضلع مظفر نگر کا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ بارات آئی۔ دولھا اور اُس کے اہل خانہ نے فرمائش کی کہ کھانے میں گوشت کی ڈِش ہونی چاہیے۔ یہ سُن کر لڑکی والے پریشان ہوگئے۔ معاملہ یہ تھا کہ شہر میں گوشت کی قلت تھی۔ انتہا پسند ہندوؤں کے دباؤ کے باعث گوشت کم کم فروخت کیا جارہا تھا۔ لڑکی والوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ گوشت کی قلت کے باعث سبزی اور دالوں کی ڈِشیں تیار کرائی گئی ہیں۔ مگر لڑکے والے نہ مانے اور گوشت کی ڈِش پر اڑے رہے۔ حد یہ ہوئی کہ لڑکے والوں نے گوشت کی ڈِش نہ کھلائے جانے کی صورت میں انتباہ کردیا کہ پھیرے بھی نہیں ہوں گے! 
کھانے پینے کا پھیر ایسا پڑا کہ شادی ایک طرف رہ گئی۔ ایک تماشا کھڑا ہوگیا۔ فریقین ایک دوسرے کو منانے میں لگ گئے۔ لڑکی والوں کی طرف سے چند بزرگوں نے مذاکرات کیے جو غیر نتیجہ خیز رہے۔ آخر میں لڑکی والوں نے ہاتھ جوڑے مگر لڑکے والے پھر بھی نہ مانے اور معاملہ گوشت کی منزل میں اٹکا رہا۔ 
اور پھر لگن منڈپ ہی میں رشتہ ٹوٹ گیا! 
اُف توبہ۔ یہ تو قیامت تھی جو لڑکی اور اُس کے اہل خانہ پر گزر گئی۔ مگر خیر، لڑکی کی تقدیر اچھی تھی۔ شادی کے شامیانے ہی میں نئے جیون ساتھی کا بھی اہتمام ہوگیا۔ قدرت کی مہربانی سے ایک لڑکا کھڑا ہوا اور اُس نے شادی کی پیش کش کردی۔ لڑکی نے اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق فوراً ہاں کردی۔ 
جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں اور اُن کا اعلان شادی کے شامیانے میں بھی ہوتا ہے! اب آپ ہی سوچیے کہ لوگ معاملات کو ربڑ کی طرح کس قدر کھینچتے ہیں کہ شادی جیسا معاملہ بھی دُھول چاٹتا ہو جاتا ہے۔ کوئی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ شادی جیسے انتہائی اہم بندھن سے متعلق تقریب کو ایسا کوئی رنگ نہ دیا جائے جو پہلے ہنسائے اور پھر رُلائے۔ 
شادی کی تقریب کو کامیڈی شو میں تبدیل کرنے والی تیسری تقریب بھارت کی مشرقی ریاست بہار کی ہے جہاں ایک لڑکی نے بارات کی آمد پر جب اپنے کمرے کی کھڑکی سے جھانکا تو دولھا کو دیکھتے ہی شادی سے انکار کردیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ دولھا ڈپلی کیٹ ہے! 
معاملہ یہ تھا کہ لڑکی کا بھائی دہلی میں نوکری کرتا تھا جہاں اُس کی دوستی لڑکے کے بھائی سے ہوگئی۔ جب دونوں ایک دوسرے کے گھریلو حالات سے واقف ہوئے تو لڑکے کے بھائی نے بتایا کہ اُس کا ایک بھائی غیر شادی شدہ ہے۔ اُس نے تصویر دکھائی اور لڑکی والوں نے ہاں کردی۔ بارات آئی تو اندازہ ہوا کہ مال دکھایا گیا کچھ اور دیا گیا کچھ۔ بارات لے کر آنے والا دولھا کوئی اور تھا، وہ نہیں جو تصویر میں دکھایا گیا تھا۔ 
پھر؟ پھر کیا تھا، لڑکی والوں نے دولھا اور اُس کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ تمام باراتیوں کو بھی قید کرلیا! اب پھیرے ویرے تو کیا ہونے تھے، مذاکرات کا پھیر پڑگیا۔ پورا ایک دن مذاکرات میں گزر گیا۔ ثالث کا کردار مقامی پنچایت کے عہدیداروں نے ادا کیا۔ لڑکی والوں نے شادی کے سلسلے میں کیے جانے والے اخراجات کی مد میں ایک لاکھ روپے وصول کیے، تب کہیں جاکر دولھا اور تمام باراتیوں کی جان چُھوٹی۔ 
اِن تین مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ شادی کی تقریبات بہت حد تک ''فیملی فن فیئر‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں اور اِک رنگ میں سو رنگ دکھاتی ہیں۔ اِن میں رومانس کے ساتھ ساتھ آپ کو ڈراما بھی ملے گا اور تھرل بھی۔ کامیڈی تو خیر ہے ہی اِن تقریبات کا لازمی جُز، کبھی کبھی آخر میں کچھ ٹریجڈی کا مزا بھی چکھنے کو مل سکتا ہے! اور اگر شادی کے تقریب میں کوئی ٹریجڈی نہ ہو تو کوئی بات نہیں، شادی کے بعد تو ٹریجڈیز کی ابتداء ہو ہی جانی ہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں