کچھ باتیں بظاہر مضحکہ خیز ہوتی ہیں مگر ذرا سی توجہ دیجیے اور قہقہوں کا طوفان ایک طرف ہٹاکر معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بات وہ نہیں جو دکھائی دے رہی ہے بلکہ کچھ اور ہی ہے۔ بھارت سے آئے دن شادی بیاہ کی رسموں سے متعلق عجیب و غریب خبریں آتی رہتی ہیں۔ کبھی یہ خبر آتی ہے کہ کسی لڑکی نے شادی سے عین وقت پر محض اس لیے انکار کر دیا کہ جس گھر میں وہ جا رہی ہے اُس میں ٹوائلٹ نہیں تھا‘ یعنی رفعِ حاجت کے لیے گھر سے باہر جانا پڑتا تھا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی لڑکی ٹوائلٹ نہ ہونے کی بنیاد پر شادی سے انکار کرتی ہے اور پھر دونوں طرف کے بزرگ تحریری یقین دہانی کراتے ہیں کہ ٹوائلٹ بنوا کر دیں گے‘ تب لڑکی مقدس اگنی کے گرد پھیرے لینے کیلئے تیار ہوتی ہے۔
لڑکوں کا حال اِس سے بالکل الٹا ہے۔ شادی کے شامیانے میں بہت سے لڑکے ضد کر بیٹھتے ہیں کہ سلامی میں کار دی جائے تو ٹھیک ورنہ شادی ختم۔ اور پھر سودے بازی شروع ہوتی ہے۔ معاملہ موٹر سائیکل پر آکر رکتا ہے۔ شادی کے شامیانے میں سٹیج کیے جانے والے ڈراموں میں لڑکیاں زیادہ باشعور ثابت ہوتی ہیں۔
اتر پردیش کے ضلع بالیہ سے خبر آئی ہے کہ ایک گاؤں میں بارات آئی۔ دلہن کو تیار کیا جا چکا تھا۔ وہ اپنے مکان کی کھڑکی سے بارات دیکھ رہی تھی کہ اُس کی نظر شادی کے شامیانے میں بیٹھے ہوئے دولہا پر پڑی۔ اور نظر پڑتے ہی وہ چونک پڑی۔ یہ کیا؟ دولہا گٹکا چبا رہا تھا! لڑکی یہ بات برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ اس کا جیون ساتھی گٹکا چباتا ہو! اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، لڑکی نے شادی سے انکار کر دیا!
لڑکی کے انکار سے ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ دونوں طرف کے بزرگ جمع ہوئے، پنچایت بیٹھی۔ لڑکی کو سمجھانے کی سب نے کوشش کی مگر سبھی ناکام رہے۔ پولیس کو طلب کر لیا گیا مگر پولیس بھی کیا کرتی؟ جب لڑکی ہی شادی کے لیے راضی نہیں تھی تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ لڑکی اپنی ضد پر اڑی رہی کہ وہ گٹکا چبانے والے سے کسی حال میں شادی نہیں کرے گی۔ اور پھر ''گٹکا چباؤ‘‘ لڑکے کو لڑکی کے بغیر بارات واپس لے جانا پڑی۔
گٹکا چبانے والے لڑکے سے شادی سے انکار کرکے اتر پردیش کی لڑکی نے شعور کا ثبوت ہی نہیں، یہ پیغام بھی دیا کہ جن معاملات پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اُن معاملات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔یہ خبر تو آپ نے پڑھ لی۔ اب ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے اُس پر ہنسیں یا روئیں، شرمندہ ہوں یا فخر کریں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے اپنے حلقۂ احباب ایسے کئی مہربان ہیں جو گٹکے پر انتہائی مہربان ہیں! حق تو یہ ہے کہ ہم اب تک اُن کے اور گٹکے کے تعلق کو سمجھ نہیں پائے ہیں۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ گٹکا اُن کے لیے لازم ہے یا وہ گٹکے کے لیے آب و گِل کے اِس جہاں میں لائے گئے ہیں! جب دیکھیے، اُن کے کَلّے میں اچھا خاصا گٹکا یُوں بھرا ہوتا ہے جیسے کوئی خزانہ چُھپا رکھا ہو۔ بعض کو دیکھ کر لگتا ہے کسی بات پر ناراض ہیں، منہ پُھلا رکھا ہے! اور پھر چبائے ہوئے گٹکے کو تھوکنے کے نام پر وہ جگہ جگہ تجریدی آرٹ کے نمونے معرضِ وجود میں لاتے رہتے ہیں!
کراچی میں ایک زمانے سے ہر طرف طرح طرح کی لتیں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں۔ اور لوگ اُن میں ایسے لت پت ہیں کہ اب اُن کے درمیان ''وچھوڑا‘‘ یقینی بنانا بظاہر ناممکن ہے۔ اور لتیں بھی کیا کیا، کیسی کیسی ہیں۔ بس اتنا ہے کہ دیکھتے جائیے اور حیرت میں مبتلا ہوتے جائیے۔ پنجابی کا مقولہ ''شوق دا مُل کوئی نئیں‘‘ اہلِ کراچی پر بہت ہی فِٹ ہوتا ہے۔ لوگ انوکھے روگ پالتے ہیں اور پالتے ہی رہتے ہیں۔ کیا فائدہ اور کیا نقصان اِس کے بارے میں سوچنا کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں۔ اور جب کوئی شوق پال ہی لیا تو پھر قیمت کے بارے میں کیا سوچنا، ادا کرتے رہیے۔
گٹکے کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اتر پردیش کی دلہنیا نے بڑی ہمت دکھائی کہ گٹکا خور نوجوان سے شادی سے انکار کر دیا۔ ہم یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ ہم میں اِتنی ہمت نہیں۔ ہم اتر پردیش کی دلہنیا کا سا جگرا نہیں رکھتے یعنی دوستوں سے گٹکا چھوڑنے کی فرمائش کر سکتے ہیں نہ گٹکا نہ چھوڑنے پر اُنہیں چھوڑنے کا اعلان! اتر پردیش کی دلہنیا نے بندھن باندھنے ہی سے انکار کر دیا۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ یہ ''گٹکا چباؤ‘‘ دوست ہماری زندگی میں کچھ اِس طور رچے بسے، بلکہ گندھے ہوئے ہیں کہ اِنہیں الگ کرنے سے زندگی کی ساری رونق ہی جاتی رہے گی! اب کوئی ایک آدھ بندہ ہو تو ہم چھوڑ بھی دیں۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ ہر دوسرے تیسرے آدمی کے منہ میں گٹکا ڈیرا جمائے ہوئے ہے! اگر ہم گٹکے کی بنیاد پر حلقۂ احباب میں چھانٹی کرنے پر اُتر آئے تو باقی زندگی کا بڑا حصہ اِسی ''مشن‘‘ کی نذر ہو جائے گا!
کراچی کے بعض علاقوں کا تو یہ حال ہے کہ وہاں کے لوگ آکسیجن کے بغیر جی سکتے ہیں، گٹکے کے بغیر نہیں جی سکتے۔ بنی اسرائیل نے من و سلوٰی ملنے پر بھی رب العالمین سے اپنی پسند کی اشیا (پیاز وغیرہ) کی فرمائش کی تھی۔ کراچی کی گٹکا خور برادری کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ دنیا بھر کی نعمتیں بھی اِن گٹکا خوروں کے قدموں میں ڈھیر کر دیجیے، اِنہیں گٹکے سے ایسی محبت ہے کہ ختم ہونے کا نام نہ لے گی۔ حکومت سمجھا سمجھا کر بیزار ہو چکی ہے۔ ماہرین انتباہ کرتے کرتے تھک گئے، بلکہ عاجز آ گئے مگر گٹکے پر مرنے والے زندگی کی طرف آنے کو تیار نہیں۔
دنیا بھر کی سڑی اور گلی ہوئی چیزیں ڈال کر کیمیکلز ڈالنے سے وہ ملغوبہ بنتا ہے اسے گٹکا کہا جاتا ہے مگر یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی لوگ اپنی روش ترک کرنے کو تیار نہیں۔ منہ کا کینسر ہو جانے کے سیکڑوں کیسز بھی سامنے آ چکے ہیں۔ گٹکا کھانے سے منہ چھوٹا ہوتا جاتا ہے اور بالآخر بند ہی ہو رہتا ہے۔ گٹکے کے حوالے سے کون سی بات ہے جو کسی سے پوشیدہ ہو مگر پھر بھی یار لوگ اِس عذاب سے چھٹکارے کے متمنی نہیں۔ ع
کیسے نکالیں منہ سے یہ کافر گُھسا ہوا!
گٹکا کھاتے رہنے سے جن کے منہ چھوٹے ہو جاتے ہیں اُنہیں گٹکے کی موہ مایا سے بچانے کا ایک اچھا طریقہ تو وہی ہے جو اتر پردیش کی دلہنیا نے دل بڑا کرکے اپنایا۔ کراچی کی لڑکیوں کو بھی شادی کے وقت یہ شرط رکھنی چاہیے کہ ہونے والا جیون ساتھی گٹکے کا شوقین نہیں ہونا چاہیے۔ یقین کیجیے ع
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی!