"MIK" (space) message & send to 7575

انکار کو سمجھنے کا ہُنر

گلاب دین تھا تو کمّی مگر چوہدری صاحب کا منہ چڑھا تھا۔ چوہدری صاحب اُس کا خاص خیال رکھتے تھے اور وہ بھی چوہدری صاحب کی پسند و ناپسند کا خوب خیال رکھتا تھا اور خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا تھا۔ 
ایک دن گلاب دین کے بیٹے نے باپ سے ایسی بات کہی کہ اُس بے چارے کے تو پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔ بیٹے نے کہا ''اباّ، مجھے چوہدری صاحب کی بیٹی رانو سے پیار ہوگیا ہے۔ چوہدری صاحب سے میرے لیے رانو کا ہاتھ مانگو۔‘‘ 
یہ بات گلاب دین کو حواس باختہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ چند لمحات کے بعد جب حواس بحال ہوئے تو گلاب دین نے بیٹے کو دو تھپّڑ لگائے اور اُس سے کہا کہ انسان کا بچہ بنے اور یہ خیال ذہن سے نکال دے۔ 
بیٹا بضد رہا۔ کئی دن تک اُس نے رانو کے نام کا راگ الاپ الاپ کر باپ کا ناک میں دم کیا۔ آخر گلاب دین نے سوچا چوہدری صاحب سے بات کرنے میں کیا ہرج ہے۔ کوئی مار تو نہیں دینگے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ انکار کردیں گے۔ یہی سوچ کر ایک دن وہ چوہدری صاحب کی اوطاق میں جاپہنچا۔ چوہدری صاحب احباب کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے گلاب دین کو بہت پیار سے اپنے پاس بٹھایا۔ گلاب دین نے عرض کیا ''چوہدری صاحب آپ سے اکیلے میں کچھ درخواست کرنی ہے۔‘‘ 
چوہدری صاحب بولے ''گلاب دین! تم بھی اپنے ہو اور یہ سب بھی اپنے ہیں۔ جو کہنا ہے، بے جھجھک کہو۔‘‘ گلاب دین نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ''چوہدری صاحب! میرا بیٹا آپ کی بیٹی کو پسند کرتا ہے۔ میں بیٹے کے لیے اُس کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔‘‘ 
ایک لمحے کو تو چوہدری صاحب کو یقین ہی نہ آیا کہ گلاب دین نے وہی کہا ہے جو اُنہوں نے سُنا ہے۔ پھر جب حواس بحال ہوئے تو اپنے آپ پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ اور انہوں نے گلاب دین کو مارنا شروع کیا۔ وہ مارتے رہے اور سب تماشا دیکھتے رہے۔ پھر کسی کو خیال آیا کہ بس بہت ہوچکا، اب چوہدری صاحب کو روکنا بھی چاہیے۔ اُس نے کہا ''بس کریں چوہدری صاحب، معاف کردیں۔ غلطی ضرور ہوگئی ہے مگر اپنا ہی بندہ ہے۔ جانے دیں۔‘‘ 
چوہدری صاحب نے کہا ''جا، چلا جا۔ اب اپنی شکل نہ دکھانا۔‘‘ 
گلاب دین، جو مار کھا کھاکر ادھو مُوا ہوچکا تھا، کپڑے جھاڑتا ہوا بمشکل اُٹھا اور سَر جھکاکر بصد احترام استفسار کیا ''تو پھر چوہدری صاحب، میں آپ کی طرف سے انکار سمجھوں؟‘‘ آپ ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ سُن کر چوہدری صاحب پر اور پھر (دوبارہ) گلاب دین پر کیا گزری ہوگی! 
ہمارا بھی گلاب دین جیسا ہی حال ہوگیا ہے۔ اقوام کی برادری میں ہم نے پورے انہماک اور محنتِ شاقہ سے اپنا وہ حشر نشر کیا ہے کہ اب زمانے بھر کی پریشانیاں ہماری تلاش میں رہتی ہیں۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر ایک انتہائی ''معصومانہ‘‘ سوال داغا گیا کہ کیا امریکا اور بھارت مل کر پاکستان کے خلاف کوئی اتحاد قائم کر رہے ہیں! ع 
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا! 
اب ذرا سوچیے، اب بھی شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہے؟ اس سوال میں ''کیا‘‘ کا جواب نہیں۔ اس وقت جنوبی، جنوب مشرقی اور وسط ایشیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے حوالے سے ردعمل کے کھاتے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیا اِتنا ڈھکا چھپا ہے کہ ہم کسی بھی طرح کے شک اور شبہے میں مبتلا ہوں؟ بھارت اور امریکا اب کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ یہ دونوں ممالک کیا اور کس طرح چاہتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم اِن کے ارادوں کو بھانپنے میں کس حد تک کامیاب ہیں اور اِس حوالے سے ہمیں کیا کرنا ہے۔ 
گلاب دین کی طرح ہم بھی بار بار ایک ہی سُوراخ سے اپنے آپ کو ڈسواتے ہیں اور پھر ڈھیر سی ذلت سمیٹنے کے بعد کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں ''تو پھر میں آپ کی طرف سے انکار سمجھوں؟‘‘ 
زمانے کی نزاکت اور نوعیت کا تقاضا ہے کہ ہم اور کچھ سمجھیں یا نہ سمجھیں، کم از کم انکار کو تو سمجھیں۔ انکار کو سمجھنے کے بعد ہی اقرار کی منزل تک لے جانے والا راستہ اور اُس راستے پر چلنے کا شعور و حوصلہ ملتا ہے۔ پاکستان اب تک اقرار و انکار کی منزل میں ہے۔ پالیسیوں میں ہچکچاہٹ اور ابہام پایا جاتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کسی بھی عالمی چوہدری سے ہم کیا چاہتے ہیں بلکہ اصل امتحان یہ ہے کہ ہم اُس سے کچھ بھی غیر فطری طور پر یا غیر متوقع انداز سے نہ مانگیں اور اُسے کچھ ایسا نہ دیں جو نہیں دینا چاہیے۔ یعنی اپنے مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہے اور قومی سطح پر عزتِ نفس کو بچاکر بھی رکھنا ہے۔ بار بار کی ذلت اور بے توقیری قومی وقار کو توڑ مروڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ہمارے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم پالیسی کے معاملات میں توازن برقرار نہیں رکھتے اور وہ سب کچھ چاہتے ہیں جس کے حوالے سے ہمارا کوئی استحقاق بنتا ہی نہیں۔ جب بھی کوئی چوہدری ہمیں قریب بٹھاتا ہے، اپنا سمجھتا ہے تو ہم اُس سے وہ مانگ بیٹھتے ہیں جو مانگنا چاہیے ہی نہیں۔ جب بھی انسان کسی سے اچھے تعلقات قائم کرتا ہے تو بہت سی توقعات وابستہ کرلیتا ہے۔ توقعات کا دائرہ جب پھیلنے پر آتا ہے تو پھر کسی بھی منطقی حد کو یاد نہیں رکھتا۔ دانائی کی ایک علامت یہ بھی تو ہے کہ ہم اچھے تعلقات کے بطن سے ایسا کچھ بھی نکالنے کی کوشش نہ کریں جو اُس میں پایا ہی نہیں جاتا ہو! 
اقوام کی برادری میں بھی ہمیں یہی اصول یاد رکھنا ہے۔ بار بار بے توقیر ہونے اور مار کھانے کے بعد کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوکر انکار کو کنفرم کرنے کی ''درخشاں روایت‘‘ ترک کرکے ہمیں اب یہ ساری دنیا کو یہ بتانا ہے کہ ہم توقیر اور بے توقیری دونوں کا مفہوم بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور اُنہیں برتنے کا ہُنر بھی! سب سے پہلے تو ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ کون ہمارا چوہدری ہوسکتا ہے اور کون نہیں۔ اِس کے بعد یہ دیکھنا ہے کہ جسے چوہدری مان لیا ہے اُس سے کس حد تک اور کیا طلب کیا جاسکتا ہے اور توقعات کو کس منزل میں رکھنا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ توقعات کا ریلا ہمیں بہا لے جائے اور معاملات پھر وہیں تک پہنچ جائیں یعنی کپڑے جھاڑ کر اٹھنا اور پوچھنا پڑے کہ پھر میں آپ کی طرف سے انکار سمجھوں! اِس قدر دانائی ہوگی تو عالمی گاؤں میں عزت بنی رہے گی، وگرنہ کولھو کے بیل کی طرح ہم ذلت و خواری کے منحوس دائرے ہی میں گھومتے رہیں گے اور وہ بھی آنکھوں پر پٹّی باندھے بغیر۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں