"MIK" (space) message & send to 7575

’’ہمتِ نسواں‘‘ مددِ خدا!

گھروں میں بیت الخلاء کا نہ ہونا دو چار بھارتی شہروں کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اس کے نتیجے میں عزتِ نفس کی کس قدر واٹ لگتی ہے اِس کا اندازہ کچھ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہیں اِس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ آج کی بھارتی ناری یہ سب کچھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ ہر معاملے میں اُس کی عزتِ نفس محفوظ رہے اور اِس کے لیے وہ کوئی بھی قدم اٹھانے کو، کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ بھارت میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ کسی لڑکی کی شادی طے ہوئی اور اُس نے لڑکے کے گھر والوں کے سامنے یہ شرط رکھی کہ رخصتی اُسی وقت ہوگی جب گھر میں بیت الخلاء تعمیر کیا جائے گا! اور معاملہ محض شرط رکھنے تک محدود نہیں رہا بلکہ اُسے منوایا بھی گیا۔ 
خواتین کے حقوق کی علم بردار تنظیمیں بھی اِس معاملے میں کھل کر میدان میں آگئی ہیں۔ اُنہوں نے خواتین کی عزتِ نفس محفوظ رکھنے کے ایک اہم اقدام کے طور پر گھروں میں بیت الخلاء بنانے کی تحریک چلائی ہے جس کے نتیجے میں حکومت بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہوئی ہے۔ بیت الخلاء کا مطالبہ منوانے سے شروع ہونے والا معاملہ گٹکے تک بھی پہنچا۔ ایک ماہ قبل بھارت ہی کے ایک شہر میں ایک لڑکی نے عین وقت پر شادی سے محض اس لیے انکار کردیا کہ اس نے شادی کے شامیانے میں دولھا کو گٹکا چباتے ہوئے دیکھ لیا تھا! لڑکی اچھی طرح جانتی تھی کہ کوئی بھی لت راتوں رات نہیں چُھوٹتی۔ اُس نے سوچا جو شخص گلی سڑی اشیاء سے تیار کیا جانے والا گٹکا کھاکر اپنی صحت برباد کر رہا ہے وہ ازدواجی زندگی کی صحت کا کیا احترام کرے گا۔ بس، یہی سوچ کر اُس نے شادی سے انکار کردیا۔ دونوں طرف کے بزرگ اُسے منانے کی کوشش کرتے کرتے تھک گئے مگر وہ نہ مانی۔ معاملہ جب زیادہ الجھ گیا تو پولیس کو بلانا پڑا۔ پولیس بھی کیا کرتی؟ جب لڑکی ہی راضی نہ تھی تو شادی کیسے ہوتی۔ گٹکا خور لڑکے کو بارات کے ساتھ بے نیل و مرام خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ 
ایسی ہوتی ہے ناری کی شکتی! آپ نے سُنا ہی ہوگا، تین طرح کی ضد (ہٹھ) بہت مشہور ہیں۔ بالک ہٹھ یعنی بچے کی ضد، راج ہٹھ یعنی بادشاہ یا حاکم کی ضد اور تریا ہٹھ یعنی عورت کی ضد۔ آج کے بھارت میں حکمران اور پالیسی میکرز بھلے ہی خوابِ غفلت کے مزے لوٹ رہے ہوں مگر ناری جاگ رہی ہے اور دوسروں کو بھی جگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 
شادی کے موقع پر ہلّا گلّا تو ہوتا ہی ہے۔ بہت سے لڑکے جب سہرا باندھ لیتے ہیں تو شادی کے بندھن میں بندھنے سے قبل اخلاقی حدود و قیود کے سارے بندھن توڑ ڈالتے ہیں اور اپنی یا خاندان کی عزت کی ذرا بھی پروا کیے بغیر خالص چھچھور پن پر اتر آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر شاہ جہاں پور میں رونما ہوا۔ 23 سالہ پرینکا ترپاٹھی کی شادی انوبھو مشرا سے طے کی گئی۔ فریقین نے شادی کی بھرپور تیاریاں کیں۔ شادی کی تقریب کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ مگر معاملہ شاندار تک رہا، پروقار نہ ہو پایا۔ 
ہوا یہ کہ دولھا میاں نئی زندگی شروع کرنے کے تصور سے کچھ زیادہ سے خوش اور اُس سے بھی کچھ زیادہ جذباتی ہوگئے۔ دوستوں نے پلائی اور انوبھو مشرا نے خوب پی اور بدمست ہوگئے۔ اور پھر اِسی حالت میں وہ گھوڑی پر سوار ہوکر لگن منڈپ تک آگئے۔ 
کوئی اپنی ہی شادی کی تقریب میں بدمست ہوکر چلا آئے؟ اِس سے زیادہ بے ڈھنگی بات کیا ہوسکتی ہے؟ انوبھو مشرا کو یاد ہی نہ رہا کہ پرینکا آج کی جاگی ہوئی یعنی بیدار مغز بھارتی ناری ہے جو کسی بھی وقت اور کسی بھی بات پر بِدک سکتی ہے! جب گٹکا برداشت نہیں کیا جارہا تو شراب کیونکر برداشت کی جاتی؟ اور ایسا ہی ہوا۔ 
انوبھو مشرا جب اپنے دوستوں کے ساتھ لگن منڈپ کے مرکز میں پہنچا تو مقدس اگنی کے گرد پھیرے لگانے کی تیاریاں کی جانے لگیں۔ اُدھر پنڈت جی لڑکی والوں کے ساتھ مل کر صندل کی لکڑیوں کو دیسی گھی کے تڑکے سے سُلگا رہے تھے اور دوسری طرف انوبھو مشرا کے دوستوں نے کچھ الگ قسم کی آگ بھڑکادی۔ دولھا میاں نشے میں تھے، بلکہ فُل ٹُن چل رہے تھے۔ شادی کی تقریب بھارت میں ہو اور اُس میں رقص نہ ہو، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ انوبھو مشرا کے دوستوں کو شادی کے پھیروں سے چند لمحات قبل ڈانس کی سُوجھی۔ اور ڈانس کیا تھا، آخری کیل تھی جو انوبھو مشرا کی خوشیوں کے تابوت میں ٹُھک گئی! 
دوستوں نے ڈانس شروع کیا تو پنڈت جی کونے میں دبک گئے۔ اُنہیں ڈر تھا کہ کوئی ڈس نہ لے۔ دولھا کے دوست ناگن ڈانس کر رہے تھے نا! انوبھو مشرا نے یہ تماشا دیکھا تو کچھ دیر ضبط کیا مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا، ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور وہ بھی ناگن ڈانس میں اپنی شاندار مہارت کا ثبوت پیش کرنے لگے! 
چند ہی لمحات کے بعد جو جیون ساتھی ہونے والا تھا وہ اپنی ہی شادی میں ناگن ڈانس کر رہا تھا! یہ منظر پرینکا سے ہضم نہ ہوسکا۔ ممکن ہے انوبھو نے سوچا ہو کہ شادی کے بعد بیوی کے اشاروں پر تو ناچنا ہی ہے، پھر کیوں نہ یہ بتادیا جائے کہ ناچنا آتا ہے! پرینکا نے سوچا جسے اپنے حواس پر اِس قدر بھی اختیار نہیں وہ باقی زندگی کیا کرے گا؟ شش و پنج کا مرحلہ آگیا۔ اور کچھ دیر سوچنے کے بعد پرینکا نے انوبھو مشرا سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا! جب اُس نے شادی سے انکار کیا تو ہنگامہ برپا ہوگیا۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ہوا ہے۔ پھر وہی ہوا جو گٹکے والے کیس میں ہوا تھا یعنی دونوں طرف کے بزرگ پرینکا کو منانے میں مصروف ہوگئے۔ جب وہ نہ مانی تو معاملہ دھونس دھمکی تک پہنچا۔ پولیس کو بلایا گیا مگر پرینکا نہ مانی اور پھر اُس کے لیے فوری طور پر نیا لڑکا تلاش کیا گیا۔ یوں اُس نے ناگن ڈانس والے انوبھو مشرا کو اُس کے دوستوں اور اہل خانہ سمیت تِگنی کا ناچ نچاکر خالی ہاتھ واپس جانے پر مجبور کردیا! 
بات بیت الخلاء کی ہو، گٹکے یا پھر نشے میں دھت ہوکر ناگن ڈانس کرنے ... بھارتی کنیائیں تو سماج سُدھار کے لیے ''شکتی پردرشن‘‘ کر رہی ہیں مگر اب سوال یہ ہے کہ ہماری دوشیزائیں معاشرتی اصلاح کی خاطر طاقت کا مظاہرہ کب کریں گی۔ کراچی میں اس وقت لاکھوں نوجوان لڑکیوں کی زلفوں سے زیادہ گٹکے کی پچکاریوں کے اسیر ہیں۔ اچھا ہے کہ لڑکیاں گٹکا خور نوجوانوں کا قبلہ درست کرنے سے معاشرتی اصلاح کا آغاز کریں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں