"MIK" (space) message & send to 7575

انسان اور پتھر

کہاں انسان اور کہاں پتھر؟ دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ کسی سے بھی پوچھ دیکھیے کیا انسان اور پتھر کا موازنہ ممکن ہے تو جواب ملے گا ایسا تو کسی بھی حال میں ممکن نہیں مگر دل خراش حقیقت یہ ہے کہ پتھر نے انسان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 
قدرت نے پتھر میں بہت سی خوبیاں رکھی ہیں۔ پتھر عام سا ہو یا اعلیٰ درجے کا، دونوں ہی کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کہلیل (خلیل) جبران نے ایک افسانچے میں لکھا ہے کہ بہت زیادہ مضبوط بننے کی کوشش نہ کرو کیونکہ جو پتھر جتنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے وہ بنیاد میں اُتنا ہی نیچے رکھا جاتا ہے۔ کہلیل جبران نے یہ بتانا چاہا ہے کہ جس میں زیادہ طاقت ہوتی ہے اُسے بہت کچھ جھیلنا بھی پڑتا ہے یعنی طاقت کی قیمت ادا کرنے سے بچ نکلنا ممکن نہیں۔ 
قدرت کا احسان ہے کہ اُس نے محض عام سے بے ڈھنگے مضبوط پتھر ہی نہیں، رنگ برنگے اور قیمتی پتھر بھی خلق کرکے ہم پر یہ واضح کردیا ہے کہ پوری لگن اور مہارت سے اگر پتھر کو نئی شکل دی جائے، خوبصورتی بخشی جائے تو اُس کی قدر و قیمت میں حیران کن حد تک اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ 
ایک پتھر کی بھی تقدیر بدل سکتی ہے 
شرط اِتنی ہے سلیقے سے تراشا جائے 
پتھر کی طرح کسی انسان کو بھی تراش خراش کر اُس کی قدر میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں گنا اضافہ ممکن ہے مگر خیر، اِس بات پر کم ہی لوگ یقین رکھتے ہیں اور خام شکل میں زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں! 
بہت سے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کے سینے میں دل نہیں، پتھر ہے۔ یہ بات کہنے اور لطف اندوز ہونے تک تو بہت اچھی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کے سینے میں دل ہی پایا جاسکتا ہے، پتھر نہیں۔ پتھر تو بہت کام کی چیز ہے۔ اُس کا انسان کے سینے میں کیا کام! اکیسویں صدی کا انسان تیزی سے ناکارہ ہوتا ہوا وجود ہے۔ کسی انسان کے سینے میں نصب کرکے کسی پتھر کی وقعت داؤ پر کیوں لگائی جائے؟ اور صاحب، پتھر مضبوطی کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ یہ مضبوطی مختلف مواقع پر کام آتی ہے۔ پتھر کی وقعت اور افادیت کا اخلاقی تقاضا ہے کہ انسانی دل کی سختی کو مضبوطی نہ کہا جائے۔ سختی پتھر میں بھی خوب ہوتی ہے مگر مضبوطی بھی تو ہوتی ہے اور یہ مضبوطی اُسے بہت کچھ جھیلنے کے قابل بھی تو بناتی ہے۔ انسانی دل کی سختی کسی پریشانی یا بحران کو جھیلنے سے زیادہ اُس سے جان چُھڑانے کے لیے ہوتی ہے! جب ہم کسی چیز سے جان چُھڑانے اور پہلو تہی کی طرف مائل ہوتے ہیں تب دل کو سخت کرلیتے ہیں۔ پتھر کی سختی کسی چیز سے جان چھڑانے کے لیے نہیں بلکہ اُسے جھیلنے کی طاقت پیدا کرنے لیے ہوتی ہے۔ پتھر بہت بُودے، بلکہ بے ذہن واقع ہوئے ہیں۔ اُنہیں پہلو تہی کا فن نہیں آتا! 
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ایک بیماری ایسی بھی پائی جاتی ہے جس میں میں ٹشوز یعنی گوشت کے ریشے خرابی کے باعث رفتہ رفتہ ہڈیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اسٹون مین سنڈروم نام کی یہ بیماری اس قدر کمیاب ہے کہ اب تک اِس کے صرف 800 کیسز سامنے آئے ہیں۔ تکنیکی زبان میں اِس بیماری کو فائبرو ڈسپلاسیا اوسیفیکینس پروگریسیو (ایف او پی) کہا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس بیماری میں مبتلا شخص رفتہ رفتہ پتھریلے مجسمے میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ اب تک یہ بیماری لاعلاج قرار دی جارہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیںکہ اس بیماری میں مبتلا شخص زیادہ سے زیادہ چالیس سال زندہ رہ پاتا ہے۔ 
ماہرین کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے مگر صاحب، ماہرین کی ہر بات پر آمنّا و صدقنا کہنا کچھ لازم بھی نہیں۔ ہمارا شمار (اللہ کے فضل و کرم سے) ماہرین میں نہیں ہوتا اس لیے ہم انسان کو پتھر بنانے والی اِس بیماری کے بارے میں کوئی حتمی نوعیت کی ماہرانہ رائے نہیں دے سکتے بلکہ اِتنا کہنا اپنا فرض گردانتے ہیں کہ چالیس سال تک جینے والی بات حقیقت سے بہت دور کھڑی ہے۔ 
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں دوسروں کی پریشانیوں کا درد و احساس رکھنے والے، نرم دل کے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں مگر بہرحال یہ لوگ اقلیت میں ہیں۔ اکثریت اُن کی ہے جن کے سینے میں پیدائش کے وقت ہی سے دل نہیں، پتھر پایا گیا ہے۔ یہ پتھر اپنا حجم بڑھاتا رہتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سینے کی حدود سے نکل کر پورے جسم پر محیط ہوتا جاتا ہے۔ یعنی رفتہ رفتہ پورا وجود پتھر میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو اپنے ماحول پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے، اندازہ ہوجائے گا کہ اصلی پتھر زیادہ پائے جاتے ہیں یا چلتے پھرتے انسانی پتھر! 
ماہرین کہتے ہیںکہ پتھر میں تبدیل ہونے والے چالیس سال سے زیادہ نہیں جیتے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ لوگ پتھریلے دل و دماغ ہی نہیں بلکہ پتھرائے افکار و احساس کے ساتھ عمر کے آٹھویں یا نویں عشرے میں بھی داخل ہو جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ زیادہ سے زیادہ پتھریلے ہوتے جاتے ہیں۔ پتھروں کے افکار و احساس کا تو ہمیں کچھ خاص علم نہیں مگر چلتے پھرتے انسانی پتھروں کے بارے میں ہمیں اتنا ضرور معلوم ہے کہ وہ اپنے پتھریلے پن پر نہ صرف یہ کہ شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ زیادہ سے زیادہ فخر کرتے جاتے ہیں! پتھر سخت تر ہوکر زیادہ کام کا ہوتا جاتا ہے اور انسان جتنا پتھراتا جاتا ہے اُتنا ہی ناکارہ ہوتا جاتا ہے۔ ناکارہ ہو رہنے پر فخر کرنا کچھ انسان ہی کا کمال ہے! یہ ہے آج کے انسان اور پتھر کا بنیادی فرق جس پر صرف شرمندہ ہوا جاسکتا ہے۔ 
انسان اشرف المخلوق ہے یعنی ہر مخلوق سے بڑھ کر اُس میں خوبیاں رکھی گئی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ تمام خوبیاں ازخود کام نہیں کرتیں۔ اِنہیں بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ اور انسان نے طے کرلیا ہے کہ اُس میں پائی جانے والی سختی یا نرمی اپنے طور پر کچھ کرے تو کرے، اُس سے کام لینے کی کوشش نہیں کرنی، بس! 
اکیسویں صدی کا سفر جاری ہے مگر انسان آج بھی غار کے زمانے کی باہوں میں جُھول رہا ہے۔ اُسے بلند ہونا ہے مگر نہیں ہو رہا۔ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ انسان شاید یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اُس کے وجود کے لیے بھی کبھی کوئی نہ کوئی ''ایکٹیویشن سسٹم‘‘ تیار کرلیا جائے گا! ایسا کچھ ہونے والا نہیں۔ اگر ہم کارگر ثابت ہونے کے لیے کسی ایکٹیویشن سسٹم کے منتظر رہے تو پتھروں سے بھی بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ اگر ہم پتھروں کا ذہن پڑھ سکتے، اُن کے احساسات معلوم کرسکتے تو عین ممکن ہے کہ پتھر انسان کی بے عقلی اور تساہل پر ماتم کُناں ملتے! جو اشرف المخلوق ہوتے ہوئے اپنی ساری افادیت ''ڈیلیٹ‘‘ کرنے پر بضد ہو اُس کے مقدر پر مفید پتھروں کا ماتم کچھ حیرت کی بات نہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں