"MIK" (space) message & send to 7575

’’بگ باس‘‘ آخر چاہتا کیا ہے؟

ٹی وی پر جو چند شو بہت مقبول ہوئے ہیں اُن میں بگ باس بھی شامل ہے۔ اس شو نے دنیا بھر میں دھوم مچائی ہے۔ اور کیوں نہ مچائے؟ یہ شو ایسے تمام آئٹمز پیش کرتا ہے جو کسی بھی عام آدمی کے لیے غیر معمولی کشش کے حامل ہوتے ہیں۔ پورے شو میں ایسا ماحول رکھا جاتا ہے جو دیکھنے والوں کے لیے قدم قدم پر دلچسپی کے عنصر کو برقرار رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو لوگ بگ باس دیکھنے کے لیے عادی ہیں وہ اِس کے ہر سیزن کا انتہائی بے چینی اور اشتیاق سے انتظار کرتے ہیں۔ 
امریکی ایوان صدر نے کس دور میں ڈرامے اسٹیج نہیں کیے؟ کب اُسے ایک بڑے تھیٹر کا درجہ حاصل نہیں رہا؟ سچ تو یہ ہے کہ امریکی ایوان صدر کے تیار کیے ہوئے ڈراموں نے ''کامیڈی آف ایرر‘‘ اور ''ٹریجڈی آف ٹیرر‘‘ کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں کہ دنیا بیک وقت دنگ اور تنگ رہ گئی ہے! 
تھیٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا زمانہ گیا۔ جب زمانہ ترقی کر رہا ہے تو امریکی ایوان صدر بھلا کیوں پیچھے رہے؟ یہ زمانہ دکھاوے کا ہے۔ اور دکھاوے کے لیے میڈیا آؤٹ لیٹ سے بڑھ کر کون سی چیز آلہ کار ثابت ہوسکتی ہے؟ امریکی ایوان صدر بھی اب دکھاوے کے معاملے میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے بہرہ مند ہے اور بہت حد تک ٹیلی ویژن آؤٹ لیٹ کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شومین آ جائے تو روز ایک نئی فلم کیوں نمائش پذیر نہ ہو؟ صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس آمد کے بعد سے مارکیٹ میں ایک نئی طرح کا بگ باس متعارف ہوا ہے اور فی الحال اُس کا سیزن ون چل رہا ہے! 
ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی ایوان صدر میں ابھی محض 6 ماہ ہوئے ہیں مگر اِتنی سی مدت میں بھی اُنہوں نے ایسی حرکتیں کی ہیں کہ بہت سوں پر تو کئی زمانے گزر گئے ہیں! بیشتر امریکی اب تک
یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اپنے انتخاب پر فخر کریں یا (اپنے) سَر پیٹیں۔ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کہا اور کیا وہ اس امر کے لیے انتہائی کافی تھا کہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اُنہیں منتخب کرنے کا تصور تک ذہن سے کھرچ کر پھینک دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کی قیادت جس حماقت کی حامل ہوتی ہے اُس سے پوری قوم کسی نہ کسی حد تک ضرور متاثر ہوتی ہے۔ یہاں لفظ ''متاثر‘‘ impressed نہیں بلکہ affected کے مفہوم میں لیا جانا چاہیے! امریکی قیادت نے جو کچھ عشروں تک تواتر سے کیا ہے اُس کے نتیجے میں امریکیوں کی اکثریت کا بہت حد تک حواس باختہ ہو جانا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی واضح حمایت سے نواز کر تو امریکیوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اُن کے ذہن قومی قیادت کی تیار کردہ بے ہنگم پالیسیوں سے محض الجھے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اُنہوں نے اب کام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے! جو کچھ انتخابی مہم سے قبل اور اُس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا اور کیا اُسے دیکھتے ہوئے اُنہیں کوئی ایسا شخص ہی ووٹ دے سکتا تھا جو یہ طے کرچکا ہو کہ قومی قیادت کی طرح اب اُسے بھی ذہن سے کام نہیں لینا اور عواقب کی ذرا بھی پروا نہیں کرنی! 
6 ماہ ہوچکے ہیں یعنی وائٹ ہاؤس میں بک باس کے نئے ورژن کا سیزن ون نصف ہوچکا ہے۔ دنیا حیران ہے کہ امریکی ایوان ہائے اقتدار کی مرکزی شخصیت یعنی صدر کیا چاہتے ہیں اور کیا نہیں چاہتے۔ ٹھیک ہے، یہ وصف تو امریکی پالیسیوں میں بھی پایا جاتا ہے کہ لوگ اُن کے بارے میں سوچ سوچ کر تھک جاتے ہیں مگر کوئی سِرا نہیں پاتے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ امریکی پالیسی میکرز در حقیقت کیا چاہتے ہیں اور دنیا کو کس راہ پر گامزن کرنے کے خواہش مند ہیں مگر وائٹ ہاؤس کے بگ باس نے تو پالیسی میکرز کی ساکھ بھی داؤ پر لگادی ہے۔ بہت غور کرنے پر، تقدیر کی یاوری سے، پالیسیوں کا تو کوئی نہ کوئی مقصد شاید سمجھ میں آجائے مگر صدر ٹرمپ کیا چاہتے ہیں یہ بات کسی پر اب تک نہیں کُھلی۔ اور اِس سے بھی زیادہ پریشان کن امر یہ تصور ہے کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہ آخر کیوں چاہتے ہیں! 
کوئی شخص امریکی صدر کے منصب پر فائز ہو اور کھلنڈرے پن سے باز نہ آئے، اِس کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا میں ایسے کئی صدور گزرے ہیں جنہوں نے خوش مزاجی کی مثالیں قائم کیں۔ حسِ مزاح کا برمحل استعمال متعدد امریکی صدور کا وتیرہ رہا ہے۔ کسی بھی بین الاقوامی فورم میں امریکی صدر کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے کیونکہ اُس کی ہر حرکت، بلکہ ابرو کی جنبش کو بھی کسی نہ کسی منزل میں پالیسی کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ ملک سے باہر امریکی صدر ہر قدم ناپ تول کر، مشیروں کی آراء کی روشنی میں اٹھاتا ہے۔ اور بولتے وقت تو خیر انتہا سے زیادہ احتیاط برتنا پڑتی ہے۔ کوئی ایک غیر متوازن جملہ یا تو کسی پالیسی کی غلط تعبیر کی طرف لے جاتا ہے یا پھر پالیسی کے حوالے سے off-shoot کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک اپنے آپ کو اُن تمام آداب سے استثناء دے رکھا ہے جو امریکی صدر کی حیثیت سے اُن کی شخصیت کا لازمہ تصور کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے متعدد مواقع پر ایسا کھلنڈرا پن دکھایا ہے کہ سربراہانِ مملکت و حکومت کو شرمندہ ہوکر نظریں جھکانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اِسے کہتے ہیں کرے کوئی، بھرے کوئی! 
خواتین کے معاملے میں صدر ٹرمپ کی طرزِ عمل انتہائی قابلِ اعتراض اور شرمناک رہی ہے۔ بین الاقوامی یا عالمی نوعیت کے اجتماعات میں اُنہوں نے بارہا خواتین سے ہاتھ ملانے کے نام پر انتہائی ناشائستہ انداز اختیار کیا ہے۔ اور پھر معاملہ محض خواتین تک محدود ہوتا تو سمجھا جاسکتا تھا کہ شاید ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ رہا ہے اِس لیے عادت اور مزاج دونوں کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ حد یہ ہے کہ اُنہوں نے پوپ کو بھی نہ بخشا اور فوٹو سیشن کے دوران جس بھونڈے انداز سے پوپ کے ہاتھ پر اُنگلی سے ٹکور کی وہ دنیا کو حیران کرنے کے لیے کافی تھا۔ اس پر صدر ٹرمپ کو تھوڑا سا شرمندہ ہونا چاہیے تھا مگر خیر، یہ کام بھی دنیا نے کیا! 
بگ باس کا تازہ ترین ہائی پروفائل ایڈونچر فرانس کے صدر ایمانویل میکرون سے تیس سیکنڈ کے مصافحے کا ہے۔ تیس سیکنڈ کا مصافحہ؟ اتنے طویل دورانیے کا تو معانقہ بھی نہیں ہوتا! اور جب دونوں فریق ''صنفِ کرخت‘‘ سے تعلق رکھتے ہوں تو مصافحے کا اتنا بڑا دورانیہ حماقت کے ذیل میں آتا ہے! وڈیو سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرانسیسی ہم منصب کے ہاتھ کو تیس سیکنڈ تک کس مضحکہ خیز و اہانت آمیز انداز سے اور سفارتی آداب و شائستگی بالائے طاق رکھ کر تھاما، جھنجھوڑا اور مروڑا گیا ہے! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی پالیسیوں میں پائی جانے والی ساری کجی اور تمام خرابیاں و خامیاں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ڈونلڈ ٹرمپ کے وجود میں حُلول کرگئی ہیں۔ جو سلوک امریکی فوج دنیا بھر میں کمزور، مجبور اور مظلوم اقوام سے روا رکھتی ہے وہی سلوک ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی عالمی فورم میں شریک سربراہانِ مملکت و حکومت سے روا رکھتے ہیں! 
ابھی تو پہلے سیزن کا بھی نصف ہوا ہے۔ کم از کم تین سیزن اور ہیں۔ اللہ ہی جانے وائٹ ہاؤس کا یہ نیا بگ باس کیا کیا کر گزرے گا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز والے طاقتور ترین ملک کے سربراہ کی حیثیت سے انتہائی غیر سنجیدہ حرکتوں کے ذیل میں ڈونلڈ ٹرمپ کا نام درج کرنے کے لیے تیار رہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں