ہم محض کالم نگار نہیں، عامل صحافی بھی ہیں یعنی نیوز ڈیسک پر بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔ (سچ یہ ہے کہ عامل صحافی زندگی بھر رات کی ڈیوٹی کرتے ہیں اس لیے اُن کے چہرے کی ساری رونق بہت حد تک جاتی رہتی ہے اور آخری عمر میں تو وہ صحافی کم اور ''عامل‘‘ زیادہ دکھائی دیتے ہیں!) عامل صحافی ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہمیں بھانت بھانت کی خبریں بھگتنا پڑتی ہیں۔ اِن خبروں میں چند ایک کو منتخب کرکے ہم اُن کی کوکھ سے اپنے لیے کالم کا مواد یا بنیادی ڈھانچا برآمد کرتے ہیں۔ بعض خبریں ایسی دلچسپ ہوتی ہیں کہ پڑھتے ہی اُن پر طبع آزمائی کرنے کو یعنی کالم لکھ مارنے کو جی چاہتا ہے۔
کبھی کبھی ایسی خبریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ آئینے کا کردار بھی ادا کرتی ہیں یعنی ہم اُن میں اپنا عکس دیکھتے ہیں اور تھوڑے شرمندہ سے ہو جاتے ہیں۔ (یہاں ''ہم‘‘ سے مراد صرف ہم نہیں بلکہ آپ بھی ہیں!) ایسی ہی ایک خبر سُورت سے آئی ہے۔ سُورت بھارت کی مغربی ریاست گجرات کا ساحلی شہر ہے۔ شہر تو ساحل کے نزدیک واقع ہے مگر وہاں سے آنے والی خبر نے ہمیں منجدھار میں پہنچادیا۔ بات کچھ یوں ہے کہ اس شہر کے ایک طالب علم بھارگو مودی نے اپر کے جی سے بارہویں جماعت تک یعنی پورے 14 سال تک اسکول کا ایک بھی دن مِس نہیں کیا۔ اس دوران اسکول میں اُس کی حاضری 2906 دن رہی جو ریکارڈ ہے۔ اِس سے قبل یہ ریکارڈ اُس کے بڑے بھائی وتسل کے پاس تھا جو ڈھائی ہزار دن سے کچھ زیادہ کا تھا۔
بھارگو کہتا ہے کہ اُسے اسکول جانا بہت اچھا لگتا ہے اور اتوار کا دن چُھٹی کے لیے کافی ہے۔ دونوں بھائیوںکو اسکول سے اس قدر محبت ہے کہ ایک بار جب وہ اسکول جارہے تھے تب اسکول وین کو حادثہ پیش آگیا۔ دونوں بھائی بھی زخمی ہوئے مگر اُنہوں طبی امداد لینے سے قبل اسکول جاکر حاضری لگوانا مناسب جانا!
اب آپ ہی بتائیے کہ ایسی خبریں پڑھ کر آپ کو افسوس نہیں ہوتا، شرمندگی نہیں ہوتی؟ سچ یہ ہے کہ ہم تو ایسی خبریں پڑھ کر تھوڑے سے شرمندہ ہو جاتے ہیں مگر یہ شرمندگی کسی اور قسم کی ہے۔ ہم کالم نگاری کر رہے ہیں تو اِس سے یہ نتیجہ اخذ مت کیجیے کہ ہم نے کبھی باضابطہ تعلیم حاصل ہی نہیں کی! خیر سے ہم پر بھی اسکول کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اور یہ زمانہ بالکل اُسی طور گزرا تھا جس طور سڑک پر سے بُلڈوزر گزرتا ہے!
اس کالم کے ذریعے تو ہم آپ کو بھارگو کی تصویر نہیں دکھا سکتے مگر یقین کیجیے کہ تصویر دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ اُس نے بلا ناغہ اسکول اٹینڈ کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے کے چکر میں اور کتنا کچھ کھو دیا ہے! تصویر دیکھ کر معلوم ہوا کہ اسکول کی بے داغ حاضری نے اُس کے چہرے کی ساری رونق ہی اُڑاکر رکھ دی ہے۔ ہم شرمندہ اِس لیے ہیں کہ اسکول کے زمانے کی تمام لذّتیں ہم نے بٹوریں اور خوب بٹوریں۔ جو لوگ رات دن پڑھائی میں مصروف رہتے ہیں اور اِدھر اُدھر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے وہ بہت کچھ مِس کر جاتے ہیں۔
یہ خبر ہم نے مرزا تنقید بیگ کو سُنائی تو اُن کی طبیعت کِھل اُٹھی۔ بولے ''تم جیسوں کے لیے یہ خبر تازیانے سے کم نہیں۔ ایک یہ طالب علم ہے کہ اسکول کے زمانے میں ایک بھی ناغہ نہیں کیا اور ایک تم تھے کہ گوشت کا ناغہ ہفتے میں دو دن تھا اور تم اسکول سے ہفتے میں چار دن غائب رہتے تھے! اور غائب رہنے کے بہانے بھی اِس قدر سوچا کرتے تھے کہ اِسی سوچ بچار نے تمہیں کالم نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا! اگر بھارگو کی طرح من لگاکر پڑھ لیتے، اسکول کے در و دیوار سے محبت کرتے تو آج انٹ شنٹ کالم لکھ کر لوگوں کو پریشان نہ کر رہے ہوتے۔‘‘
ہم نے عرض کیا کہ بھارگو نے اسکول میں بلا ناغہ حاضری یقینی بنانے کے چکر میں زندگی کے بہت سے مزے کھو دیئے ہیں۔ اور اب اگر وہ چاہے بھی تو وہ مزے پا نہیں سکتا۔ ہم نے مرزا سے کہا کہ یقین نہ آئے تو ذرا بھارگو کے چہرے پر ایک نظر ڈالیے۔ چہرے پر صرف حاضری دکھائی دے رہی ہے اور حاضری بھی وہ والی جو مزاروں پر خواتین کو آیا کرتی ہے! ہم نے باور کرایا کہ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے بابوؤں یعنی کلرکوں کے چہرے ہی نہیں بلکہ پورا جسم ایک خاصے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ لوگ دور سے دیکھ کر بتاسکتے ہیںکہ یہ شخص کسی سرکاری دفتر میں بابو گیری کرتا ہوگا۔ بالکل ایسا ہی معاملہ پڑھاکو اور ''حاضرو‘‘ قسم کے لڑکوں اور لڑکیوں کا بھی ہے۔ اسکول میں مسلسل حاضری دیتے رہنے سے ان کے چہرے نوٹ بک کی شکل اختیار کرلیتے ہیں! اُنہیں کچھ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ اُن کے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ دنیا کی بہت سی رونقوں سے وہ آشنا ہی نہیں ہو پاتے۔ مرزا نے ہماری بات سُن کر کہا ''تم جیسوں کا یہی تو مسئلہ ہے۔ جہاں کسی کو مثالی انداز سے کام کرتے ہوئے دیکھتے ہو اُس کی ذات میں اور کام میں کیڑے نکالنے بیٹھ جاتے ہو۔ کبھی ڈھنگ سے کچھ کیا ہو تو کچھ اندازہ ہو کہ ڈھنگ سے زندگی بسر کرنا کیا ہوتا ہے۔ اسکولنگ کی تم نے ایسے کی جیسے ابا جی اپنے باغیچے میں سیر کے لیے بھیجتے ہوں! جو زمانہ سیکھنے کا تھا وہ تم نے سیر سپاٹے میں گزار دیا۔ ایسے میں کیا خاک سیکھنا تھا؟‘‘
مرزا کی جلی کٹی باتیں اپنی جگہ، حقیقت یہ ہے کہ اسکول کے زمانے میں سارا مزا صرف پڑھنے میں پوشیدہ نہیں۔ پڑھاکو بچوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اسکول سے ہاف ٹائم میں نکل بھاگنے کا بھی ایک اپنا ہی مزا تھا! ہم نے ایک چھوٹے سے سرکاری اسکول میں پانچویں تک تعلیم پائی۔ چوتھی جماعت تک تو سب کچھ بہت حد تک ٹھیک چلتا رہا۔ اسکول پانچویں تک تھا اس لیے جب پانچویں میں آئے تو ''سینیر موسٹ‘‘ کے درجے پر فائز ہوئے۔ اس منفرد ''پوزیشن‘‘ کا، ظاہر ہے، کچھ نہ کچھ فائدہ تو اٹھانا ہی تھا۔ ایک بڑا فائدہ ہم نے یہ اٹھایا کہ رسمی تعلیم کو خاصے غیر رسمی انداز سے خیرباد کہتے ہوئے اساتذہ پر یہ ظاہر کردیا کہ جتنا سیکھنا چاہیے تھا اُتنا بلکہ اچھا خاصا سیکھ چکے ہیں اور اب لازم ہے کہ سارا وقت اسکول کی چار دیواری میں برباد نہ کیا جائے! اُس عمر میں اندازہ ہوا کہ اسکول سے ہاف ٹائم میں بھاگ کر مارننگ شو دیکھنے کا لطف ایسا ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ نئی نئی ''آزادی‘‘ ہاتھ آئی تھی۔ پھر کیا تھا، ہفتے میں دو تین بار مارننگ شو دیکھنا عادت بن گیا۔ ہم مجبور تھے۔ فلم انڈسٹری تب عروج پر تھی۔ فلمیں ہی اِتنی ساری بنائی جارہی تھیں کہ دیکھنا پڑتی تھیں!
ایسا نہیںہے کہ درسی کتب سے ہمیں شغف نہ تھا۔ ہم امتحانات کے لیے دو چار تیاری کرلیا کرتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ ہمیں اندازہ تھا کہ ہم انسان ہیں اور یہ بات کسی طور گوارا نہ تھی کہ کوئی کتابوں ہی کے حوالے سے سہی، ہمیں کیڑا قرار دے! باقاعدگی سے اسکول آنے والوں کو ہم نے خاصی لگی بندھی زندگی بسر کرتے دیکھا تھا اِس لیے چھوٹی عمر ہی میں طے کرلیا کہ معمولات کے پنجرے میں مقید زندگی ہم کبھی بسر نہیں کریں گے۔ ایک ذرا سا ریکارڈ قائم کرنے یا ریکارڈ کی درستی کے لیے ہم لڑکپن کے سارے مزے غارت تو نہیں کرسکتے تھے! پڑھاکو کے درجے پر فائز ہونے سے بہت سے چٹخارے زندگی کی زبان سے دور رہ جاتے ہیں مگر یہ بات معمولات کے پنجرے میں مقید پڑھاکوؤں کو کون سمجھائے؟