"MIK" (space) message & send to 7575

’’محافظ‘‘ ہونے کا خنّاس

جو کچھ فرد کرتا ہے وہی کچھ پورا معاشرہ بھی کر رہا ہوتا ہے۔ انفرادی نفسی ساخت ہی پورے معاشرے کی نفسی ساخت ہوتی ہے۔ اِس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ کسی ایک انسان کے ذہن میں ابھرتا رہتا ہے اور مزاج و عادات کا حصہ بنتا ہے وہی پورے معاشرے پر محیط ہو جاتا ہے یعنی فرد کا جائزہ لیجیے تو معاشرے کو سمجھ جائیے اور اگر معاشرے کا جائزہ لیجیے تو فرد کو جان جائیے۔ 
دنیا ایک زمانے سے امریکا کا رونا رو رہی ہے۔ کون سا معاملہ ہے جس میں امریکا کا ہاتھ نہیں، کردار نہیں؟ کئی زمانوں سے ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے کہ امریکا نے یہ کردیا، امریکا نے وہ کردیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکا آخر ایسا کیا کر رہا ہے جو بہت حیرت انگیز اور افسوسناک و تشویشناک ہے؟ سیدھی سی بات ہے، امریکا ہو یا کوئی اور طاقت، اُس کے مزاج، عادات، منصوبوں اور اعمال میں وہی سب کچھ پایا جاتا ہے جو تقریباً ہر انسان کی نفسی ساخت میں پایا جاتا ہے۔ طاقت پانے کے بعد انسان بے قابو ہو جاتا ہے یعنی حواس، اقدار اور تمیز کے دائرے میں نہیں رہتا۔ ہر بڑی طاقت اِسی پیچیدگی سے دوچار رہی ہے۔ جب برطانیہ کے پاس طاقت تھی تب وہ بھی ساری دنیا میں خرابیاں پیدا کر رہا تھا اور دنیا بھر کے وسائل اپنے ہاں جمع کرکے باقی دنیا کو کنگال کرنے کی راہ پر گامزن رہا تھا۔ روس جب طاقت کے نشے میں چُور تھا تب وہ بھی ایسا ہی کچھ کرتا رہا تھا۔ یورپ کی دیگر قوتوں نے کیا دنیا کو جنّت بنانے کی کوشش کی تھی؟ نہیں۔ اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ طاقت اُس حقیقت کا نام ہے جو دوسروں کو کمزور کرنے پر نمودار ہوتی ہے۔ کسی کا بگاڑ یقینی بنائے بغیر ترقی یقینی بنانا کبھی ممکن ہوا ہے نہ ہوگا۔ 
کہتے ہیں کوئی مصیبت اکیلی نہیں آتی۔ مگر صاحب، ایک مصیبت پر کیا موقف ہے، کوئی بھی چیز تنہا نہیں آتی۔ اب دولت اور طاقت ہی کو لیجیے۔ جب کسی کو دولت اور اس کے نتیجے میں طاقت ملتی ہے تو کئی طرح کی غلط فہمیاں اور خوش فہمیاں خود بخود پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک مصیبت تو یہ ہے کہ جس کے پاس دولت اور طاقت ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو دانا سمجھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بے وقوف سمجھ رہا ہوتا ہے۔ یہ ہے اصل خرابی۔ اپنے آپ کو خوبصورت سمجھنے میں کوئی قباحت نہیں مگر مسائل اُسی وقت شروع ہوتے ہیں جب ہم دوسروں کو بدصورت قرار دینے پر تُل جائیں! 
خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے نظامِ شمسی کے محافظ بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ''پلانیٹری پروٹیکشن آفیسر‘‘ کو تین سال کے لیے بھرتی کیا جائے گا۔ مشاہرہ ہوگا ایک لاکھ 87 ہزار ڈالر۔ پلانیٹری پروٹیکشن آفیسر کا کام ہوگا زمین اور دیگر سیاروں کو غیر ارضی مخلوق کے حملوں سے محفوظ رکھنا اور ساتھ ہی ساتھ نظام شمسی میں پھیلا ہوا کچرا بھی ختم کرنا۔ بہت سے ممالک خلائی تحقیق میں مصروف ہیں۔ اِس تحقیق کے ہاتھوں خلاء میں کچرے کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔ ناسا کا تعینات کیا ہوا پلانیٹری پروٹیکشن آفیسر خلائی تحقیق کی مہمات کے دوران خلاء میں کچرا پھینکے جانے پر نظر رکھے گا۔ 
امریکی پالیسیوں سے نالاں افراد سوچیں گے امریکا اگر یہ آفیسر تعینات کر رہا ہے تو کیا احسان کر رہا ہے۔ زمین اور نظام شمسی کے لیے دیگر سیاروں کے لیے خراب حالات بنیادی طور پر تو امریکی پالیسیوں ہی نے پیدا کیے ہیں! گویا 
تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا 
جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ ہر معاملے میں چوہدری بھی بنتا ہے۔ اب امریکیوں کو زمین کے ساتھ پورے نظام شمسی کے دفاع کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ سوچنے والے سوچیں گے کہ زمین کے معاملات کو چلانے کے معاملے میں امریکا نے ایسا کون سا تیر مار لیا ہے کہ اب نظام شمسی کے معاملات کو درست کرنے کا بیڑا اٹھایا جارہا ہے۔ اور بات ایسی پیچیدہ بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ ایک زمانے سے امریکا پوری دنیا کا چوہدری بنا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں وہ دکھائی بھی دے رہی ہیں۔ ''میں ہوں نا‘‘ امریکی پالیسی میکرز کے لیے بنیادی لائن ہے جس پر چلتے ہوئے وہ ساری دنیا کی واٹ لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یک قطبی دنیا جس طرح کی پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتی ہے وہ تمام پیچیدگیاں آج پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں اور اربوں انسانوں کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ 
سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا واحد سپر پاور کے طور پر باقی رہا اور یہ سمجھ لیجیے کہ باقی دنیا باقی نہیں رہی! سوویت یونین کی موجودگی میں اتنا تو تھا کہ دنیا کا ایک حصہ کسی اور کی چھتر چھایا میں تھا یعنی بچا ہوا تھا۔ جب روس نے ہاتھ کھینچا اور سوویت یونین کو برقرار رکھنے میں برائے نام بھی دلچسپی ظاہر نہ کی تو امریکا میدان میں اکیلا رہ گیا۔ یعنی جس طرح چاہے، کھیلے۔ اور وہ کس طور کھیلا ہے یہ بات وہ سبھی جانتے ہیں جن سے کھیلا گیا ہے! ع 
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے! 
زمین شاید کم پڑگئی ہے اس لیے اب نظام شمسی کی ''تحفظ‘‘ فراہم کرنے کی ٹھانی گئی ہے! زمین پر رہنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر جو کچھ امریکا نے کیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے لوگ یقیناً تشویش میں مبتلا ہوں گے کہ اب خلاء کو امریکیوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی اللہ کے آگے سجدہ ریز اور دست بہ دعا رہنا پڑے گا! 
دُنیا کو چلانے اور اُسے ہر طرح کی قدرتی و غیر قدرتی آفات سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے امریکی پالیسی میکرز کے ذہن میں جو خنّاس پایا جاتا ہے اُس کے تدارک کی گھڑی آ پہنچی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں امریکا کو ایسا لیڈر ہے جو لیڈرشپ کے مفہوم ہی نہیں، پورے پیراڈائم کو بھی تبدیل کرنے پر کمربستہ ہے! پوری دنیا کا چوہدری اور محافظ ہونے کا خنّاس امریکا کے ہاتھوں اربوں انسانوں کے لیے مستقل عذاب کا موجب بنا ہے۔ اِسی خنّاس نے ہر خرابی کو نئی انتہاؤں سے آشنا کیا ہے۔ جب تک یہ خنّاس امریکی قیادت کے ذہن سے نہیں نکلے گا تب تک اِس دنیا کو ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھنے کی راہ ہموار نہیں ہوسکے گی۔ 
''میں ہوں نا‘‘ والی مخصوص امریکی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے خلائی تحقیق کے امریکی ادارے نے زمین اور دیگر سیاروں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے خصوصی ''آفاقی محافظ‘‘ بھرتی کرنے کا جو پروگرام شروع کیا ہے اُس کے حوالے سے دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں کے ڈسے ہوئے لوگوں کے دل سے آہوں کے ساتھ شاید یہ بات بھی نکل رہی ہوگی کہ ؎ 
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا 
مجھے زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں