بات تھی ہی کچھ ایسی کہ جو بھی سُنے اُس کا دل دہل کر، لرز کر رہ جائے۔ چڑیا گھر میں رات گئے یعنی مکمل سنّاٹے میں شیر کی دہاڑ سُن کر ایک درجن بندر بے ہوش ہوگئے اور پھر چل بسے! طبی معائنے سے معلوم ہوا کہ شیر کی دہاڑ سُننے کے نتیجے میں اُنہیں دل کا دورہ پڑا تھا! اِس میں بظاہر حیرت کی کوئی بات نہ تھی۔ شیر جنگل کا بادشاہ یونہی تو نہیں کہلاتا۔ وہ جب دہاڑتا ہے تو جنگل میں جانور کونوں کُھدروں میں چُھپ جاتے ہیں یا یوں کہیے کہ اُنہیں جان بچانے کے لیے چُھپنا ہی پڑتا ہے۔ جنگل کے کُھلے ماحول میں شیر بہت دور ہوتا ہے تب بھی جانوروں کو خوف محسوس ہوتا ہے۔ چڑیا گھر میں تو شیر اور دیگر جانوروں کے پنجرے قریب قریب واقع ہوتے ہیں۔ رات گئے شیر دہاڑے تو سنّاٹے میں اُس کی دہاڑ کچھ زیادہ ہی ہیبت ناک محسوس ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔
ہم سوچنے لگے کراچی کا چڑیا گھر شہر کے قلب میں واقع ہے۔ کسی زمانے میں یہ علاقہ (جو اب گارڈن کہلاتا ہے) شہر کا مرکزی حصہ ہوا کرتا تھا اور اِس کے بعد ویرانہ شروع ہوجایا کرتا تھا۔ چڑیا گھر کے نزدیک رہنے والے بتاتے ہیں موسم سرما میں جب شیر رات گئے دہاڑتا ہے تو اُس کی آواز سنّاٹے کو چیرتی ہوئی علاقے کے مکینوں کے کانوں تک پہنچ کر خوف کی چھوٹی سی لہر ضرور پیدا کرتی ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ جس علاقے میں چڑیا گھر واقع ہے وہاں بیشتر علاقے رات بھر جاگتے ہیں۔ رنچھوڑ لین، رام سوامی اور لسبیلہ وغیرہ کی رونق رات کے تین بجے کے بعد تھوڑی سی ماند پڑتی ہے۔ پھر بھی چڑیا گھر سے متصل اپارٹمنٹ بلڈنگز کے رہنے والوں کو شیر کی دہاڑ صاف سنائی دیتی ہوگی اور اُن کے دل بھی تھوڑے بہت ضرور دہلتے ہوں گے۔ ایسے میں بے چارے نازک سے بندروں کا شدید خوف زدہ ہو جانا اور دل کا دورہ پڑنے کے باعث بے ہوش ہو جانا زیادہ حیرت کی بات نہیں۔
ہم نے جب چڑیا گھر کی لوکیشن اور شیر کی دہاڑ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو ہمارے ساتھی الطاف نے بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ''ارے بھئی کراچی کے چڑیا گھر کا ذکر تھوڑی ہو رہا ہے۔ یہ تو کسی اور ملک کا، شاید بھارت کا قصہ ہے۔ ہمارے چڑیا گھر میں ایک درجن بندر کہاں سے آگئے؟ اور ہمارے شیر کو دہاڑنے کی توفیق ہی کب ہوتی ہے؟‘‘
بات تو واقعی سوچنے کی تھی۔ ہمارے یعنی کراچی کے چڑیا گھر میں کئی پنجرے یوں خالی رکھے گئے ہیں گویا لوگوں کو یہ دکھانا مقصود ہو کہ پنجرے خالی ہوں تو کیسے دکھائی دیتے ہیں! تین چار بندر دکھائی دے جائیں تو چھوٹے بڑے سبھی اِسے اپنا مقدر سمجھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔
ہم نے غور کیا تو یاد آیا کہ کراچی کے چڑیا گھر میں شیر بھی کچھ اِس قسم کا رکھا جاتا ہے جو دہاڑنے سے پہلے دس بار سوچتا ہوگا کہ دہاڑنے سے کہیں وہ تھوڑی بہت توانائی بھی ہاتھ سے جاتی تو نہیں رہے گی جو بہت مشکل سے بچاکر رکھی ہے! ہم نے کراچی کے چڑیا گھر میں ایسے شیر بھی دیکھے ہیں جنہیں دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ شیر جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے! پنجروں میں بند اِن شیروں کو خوراک اس قدر حساب کتاب اور ناپ تول سے دی جاتی ہے کہ بس کسی نہ کسی طور زندہ رہیں۔ اِتنی خوراک اِنہیں دی ہی نہیں جاتی کہ دہاڑنے کے قابل ہوسکیں۔ اور یوں بھی پنجرے کی سلاخوں کے پیچھے دہاڑنے کا فائدہ کیا ہے؟ کِسے ڈرانا مقصود ہے؟ یہاں کون ڈرے گا؟ کراچی کے جنگل میں دو ٹانگوں والے ایسے ایسے شیر پائے جاتے ہیں کہ جنگل کا بادشاہ دیکھے تو ٹارگٹ کلنگ سے بچنے کے لیے دُم دباکر ایک طرف ہوجائے! اور پنجاب میں جنگل کے بادشاہ کے لیے بہتر امکانات نہیں کیونکہ وہاں تو پہلے کئی ''شیرِ پنجاب‘‘ یوں گھوم رہے ہیں کہ ع
پھرتے ہیں میرؔ خوار، کوئی پوچھتا نہیں!
ہم نے شیر کے لیے غذا اور غذائیت کی قلت کا ذکر کیا تو بھائی الطاف نے کہا ''یہ سنگ دِلی نہیں، دانائی ہے۔ ہمارے ہاں پنجروں کا کیا اعتبار؟ کب کون سی سلاخ جڑ سے اُکھڑ جائے اور شیر بہادر پنجرے سے باہر تشریف لے آئیں! ایسے میں بہتر یہی ہے کہ کم خوراک دی جائے تاکہ جنگل کا نام نہاد بادشاہ اپنی اوقات میں رہے اور اُس میں اِتنی طاقت و ہمت پیدا ہی نہ ہو کہ پنجرے کی کمزور سلاخوں سے ٹکراکر آزادی کی راہ ہموار کرے!‘‘
ہم جب بھی کراچی کے چڑیا گھر کی سَیر کو گئے ہیں، سَیر وغیرہ ایک طرف رہ گئی اور ذہن میں کچھ عجیب خیالات ابھر آئے۔ اچھے خاصے رقبے پر پھیلے ہوئے چڑیا گھر کو بھرپور اور دانستہ کوشش کے ذریعے جنگل کا ماحول دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ جنگل میں بھی جانور بے چارے سہمے رہتے ہیں اور یومیہ خوراک کے لیے خاصی تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جنگل کی سی ویرانی اور ہیبت یہاں کے پنجروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ بندروں کو دیکھیے تو اُن پر ترس آتا ہے۔ نحیف و نزار بندر اچھل کود بھول کر ٹائر میں بیٹھے جھولتے رہتے ہیں۔ اور ہرن چوکڑیاں بھرنا بھول گئے ہیں۔ کیوں نہ بھولیں؟ اُن کے حصے کے فنڈز اُن پر خرچ جو نہیں کیے جاتے! انتہائی محدود کنویں نما پنجرے میں قیدی کی سی حیثیت میں دن گزارنے والے ریچھ بے چارے کو کیا معلوم کہ اُس سے اچھی حالت تو سڑکوں پر اور گلیوں میں تماشا دکھانے والے ریچھ کی ہے جو گھومتا پھرتا بھی ہے اور کھانے کو بھی خوب ملتا ہے۔
اور ہاں، کراچی کے چڑیا گھر میں دو تالاب (یعنی بوٹنگ ایریا) آمنے سامنے واقع ہیں۔ ایک میں پانی ہے اور کشتی کی سَیر بھی کرائی جاتی ہے۔ دوسرے کو خالی رکھا گیا ہے۔ اِس کی غایت شاید یہ ہے کہ چڑیا گھر کی سَیر کو آنے والے جان سکیں کہ پانی کے بغیر تالاب کیسا دکھائی دیتا ہے!
ایک زمانے سے کراچی کا چڑیا گھر انتظامی اعتبار سے ایسی حالت میں ہے کہ اُسے چَریا گھر کہنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔ ہاں، چڑیا گھر کے جانوروں کی مایوسی اور اُداسی دور کرنے کے لیے ایک نُسخہ ہمارے پاس ہے۔ نُسخہ یہ ہے کہ چڑیا گھر کے تمام جانوروں کو کسی نہ کسی طور یقین دلایا جائے کہ صرف اُن کے فنڈز میں ڈنڈی نہیں ماری جارہی۔ انسانوں کا بھی یہی حال ہے۔ اپنے حصے کے فنڈز سے محرومی کے معاملے میں چڑیا گھر کے جانور اور انسان ایک پیج پر ہیں! ہوسکتا ہے کہ یہ بات سُن کر چڑیا گھر کے جانوروں کا دل کچھ سکون پا جائے، اُن کی ڈھارس بندھ جائے کہ حقوق سے محرومی کے معاملے میں وہ یکتا و منفرد نہیں۔ جب منہ میں زبان رکھنے والوں کی بات نہیں سُنی جارہی تو بے زبانوں کی ان کہی بھلا کون سُنے گا؟
خدا کرے کہ وہ دن بھی آئے کہ ہمارے چڑیا گھروں کے شیر پیٹ بھر کھائیں اور ثابت کریں کہ جنگل کا بادشاہ پنجرے میں بند ہو تب بھی کم از کم پورے جگرے کے ساتھ دہاڑنے کی صلاحیت تو برقرار ہی رہتی ہے! دعا ہے وہ دن بھی آئیں کہ چڑیا گھر کے بندر شیر کی دہاڑ سُنے بغیر ہی پیدا ہو جانے والی دل کے دورے جیسی اُداسی اور بے دِلی ترک کرکے اچھل کود پر مائل ہوں اور ہرن چوکڑیاں بھرتے دکھائی دیں۔ یعنی چڑیا گھر واقعی چڑیا گھر دکھائی دیں، چَریا گھر محسوس نہ ہوں!