"MIK" (space) message & send to 7575

کہیں ’’آرٹ‘‘ نہ مر جائے

ایک زمانے سے دنیا بھر میں یہ کوشش کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طور ہم جیسی اقوام کو نیچا دکھایا جاتا رہے اور ہم اپنی ہی آگ میں جل بُھن کر خاک ہوتے رہیں۔ ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرنے والی اقوام کو شاید اندازہ نہیں کہ ہم نے بھی اپنے گرد حصار کھینچ رکھا ہے یعنی ہم ''چینج پروف‘‘ ہوچکے ہیں! جنہیں تبدیل ہونا ہے وہ شوق سے تبدیل ہوتے رہیں، ہم اپنے حال میں خوش اور اپنی کھال میں مست ہیں۔ 
نظم و ضبط کو دنیا بھر میں یوں اپنایا گیا ہے جیسے اس کے بغیر زندگی گزر ہی نہیں سکتی۔ کوئی جاکر دنیا کو بتائے کہ نظم و ضبط اور ترتیب کے بغیر بھی زندگی گزر سکتی ہے اور اس سلسلے میں کسی اور کی کیوں، ہماری ہی مثال پیش کردے! ہم نے کب نظم و ضبط کو اپنایا ہے اور کب ہم زندہ نہیں رہے؟ ع 
اپنے اپنے ظرف، اپنے حوصلے کی بات ہے! 
جن ممالک نے ترقی کی راہ پر گامزن ہونا سیکھا ہے اُن کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں مگر بہت سی آسانیاں چلی بھی تو گئی ہیں۔ لگی بندھی زندگی بسر کرنے میں کتنی قباحتیں ہیں یہ بات کوئی ترقی یافتہ معاشروں سے سیکھے۔ سڑک پر نکلیے تو گاڑی کی رفتار کی حد مقرر ہے۔ اُس حد کو ذرا سا عبور کیا اور دھرلیے گئے۔ جرمانہ ادا کرو اور جان چھڑاؤ۔ ذرا سا اوور ٹیک کرنا ہو تو دس قواعد یاد کرو، اِدھر اُدھر دیکھو۔ ایسے میں اوور ٹیک کرنے کا کیا مزا! ؎ 
ہوا جو تیرِ نظر نیم کش تو کیا حاصل؟ 
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آر پار چلے! 
اگر ہر معاملے میں قوانین اور قواعد آڑے آجائیں تو یہ بھی کوئی زندگی ہوئی! فرانس کے عظیم فلسفی اور ماہر عمرانیات والٹیئر نے کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر ہم اُسے ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، والٹیئر نے زنجیریں توڑنے کی تعلیم دی ہے۔ طرح طرح کے قوانین اور قواعد و ضوابط ہمارے پیروں میں بیڑیاں ڈالنے کی کوشش کے سوا کیا ہیں! انسان جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ کرنے نہیں دیا جاتا۔ اور پھر شخصی آزادی کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ ایسی شخصی آزادی بھلا کس کام کی کہ انسان اپنی مرضی سے تھوک بھی نہ سکے! ترقی یافتہ معاشروں کا یہی تو ''المیہ‘‘ ہے کہ وہاں انسان کو نظم و ضبط اور قواعد و ضوابط کی زنجیروں میں یوں جکڑ دیا گیا ہے کہ اب ''نجات‘‘ کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ دنیا بھر کی سہولتیں میسر ہیں مگر اُن سے زیادہ تو پابندیاں ہیں۔ حد یہ ہے کہ کھلے میں یعنی کسی پبلک پلیس میں زیادہ زور سے بات بھی نہیں کرسکتے۔ یہ کیا بات ہوئی؟ کیا انسان دل کی بات بھی نہ کرے، گھٹ گھٹ کر مر جائے! خاموشی میں لپٹے ہوئے، سنّاٹا زدہ ترقی یافتہ معاشروں کے لوگ ذرا ہمارے ماحول کو دیکھیں۔ زندگی کا دریا کیسا موجیں مار رہا ہے۔ کوئی لاکھ مشورہ دے یا انتباہ کرے کہ اپنی موج میں رہنا، اپنے آپ میں رہنا مگر یار لوگ کہاں سنتے ہیں۔ بات بات پر اپنے آپ سے یوں باہر نکلتے ہیں کہ تماشا بنتے دیر نہیں لگتی۔ یہی تو ''لطفِ حیات‘‘ ہے! ایسے تماشے ترقی یافتہ معاشروں میں کہاں؟ وہاں بلند و بالا شاندار عمارتیں ضرور ہیں مگر اُن میں زندگی نام کو نہیں۔ 
ترقی یافتہ معاشروں نے خاندانی نظام کو خیرباد کہہ کر زندگی کے رونق میلے کا ایک بڑا ہی شاندار حصہ تو پہلے ہی ختم کردیا ہے! رشتوں کی کھینچا تانی ہی نہ رہے تو جینے میں کیا مزا؟ یہاں تو زندگی کا لطف ہی اب اس بات میں ہے کہ کون کس کی ٹانگ کس حد تک کھینچ سکتا ہے اور کھینچ رہا ہے! ترقی کرنے کے لیے جو صلاحیت و سکت درکار ہوا کرتی ہے وہ ہم میں ہے مگر پہلے ہم اِس کھینچا تانی سے تو فراغت پالیں۔ تب تک یہی ہمارے لیے ترقی کی دوڑ ہے! 
ابن انشاؔ مرحوم نے چین کا سفر کیا تو ''چلیے ہو تو چین کو چلیے‘‘ کے زیر عنوان سفر نامہ لکھا۔ اس سفر نامے میں انہوں نے لکھا ''چین میں شاندار ترقی کے ہاتھوں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسی ترقی کس کام کی کہ آدمی پان کھاکر اپنی مرضی کے مطابق کہیں پیک بھی نہ تھوک سکے!‘‘ دیکھا آپ نے؟ نظم و ضبط اور صفائی ستھرائی انسان سے کیسی کیسی ''آزادیاں‘‘ چھین لیا کرتے ہیں! رات کو مٹر گشت کرتے کرتے نیند آجائے تو فٹ پاتھ پر یا پارک میں سویا بھی نہیں جاسکتا! یعنی سونا، جاگنا، کھانا، پینا سبھی کچھ نظم و ضبط کی دہلیز پر قربان! 
چین ہی سے ایک خبر یہ آئی ہے کہ وہاں ایک صاحب نے اپنے کتے کو باضابطہ تربیت دی ہے کہ جہاں کہیں بھی کچرا دیکھے، فوراً منہ میں دبائے اور قریبی ڈسٹ بن میں ڈال آئے۔ یہ صاحب جب اپنے دس ماہ کے کتے کے ساتھ شام کی سیر کو نکلتے ہیں تب لوگ حیرت سے دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ کتا جہاں تہاں پڑی ہوئی اشیاء کو منہ میں دباکر ڈسٹ بن میں ڈالتا رہتا ہے۔ سنا ہے اس کتے کی تربیت اس وقت شروع کردی گئی تھی جب یہ غریب صرف دو ماہ کا تھا۔ گھومنے پھرنے، اچھلنے کودنے کے زمانے میں بھی یہ بے چارہ مالک کے ہاتھوں تربیت کا عذاب سہتا رہا۔ پتا نہیں اِن صاحب نے کتے کو کس کام پر لگا رکھا ہے؟ بے چارہ بھونکنے اور کاٹ کھانے کے لیے اس دنیا میں آیا تھا اور کچرا چننے پر لگادیا گیا! یہ صاحب خود تو جی بھر کے سیر کرتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کتے سے کرواکے اُسے ذرا بھی سیر نہیں کرنے دیتے! اور پھر اِس تماشے کی داد بھی وصول کرتے ہیں! پس ثابت ہوا کہ کتے وفادار تو بلا کے ہوسکتے ہیں، چالاکی میں انسان سے آگے نہیں جاسکتے! 
''اطمینان بخش‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب تک یہ تماشا نہیں لگا۔ ہمیں آج بھی جہاں تہاں کچرا پھینکنے کی مکمل آزادی حاصل ہے! اور کتوں کو ہم نے الٹے سیدھے کاموں میں الجھانے کے بجائے مزاج کے تقاضے نبھانے یعنی بھونکنے تک محدود رکھا ہے یعنی ہم اِتنے سنگ دل ہیں کہ کسی بے زبان کو اس کے فطری راستے سے ہٹاکر کسی اور ڈگر کا مسافر بنادیں! 
دنیا والوں کو صفائی ستھرائی کی پڑی ہے اور ہم نے ''اینٹی کلین‘‘ کلچر اپناکر پوری زندگی کو ایک انوکھے ''آرٹ‘‘ کی شکل دے رکھی ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کھچاکھچ بھری ہوئی منی بس کی چھت پر سفر کرتے ہوئے سڑک پر پان کی پیک تھوکنے کا مزا کسی اور ملک میں ملے گا! بھرپور پچکاری سے فٹ پاتھ یا سڑک پر جو شاندار نقش و نگار تشکیل پاتے ہیں وہ آپ کو کہیں اور ملیں گے؟ اور اگر پچکاری چمکتے ہوئے سفید کپڑوں پر جا گِرے تو؟ بس، یہ سمجھ لیجیے کہ متعلقہ فرد تو تجریدی آرٹ کا چلتا پھرتا نمونہ بن جاتا ہے! یہاں قدم قدم پر اسی طرح کا فن ہے اور فن کاری ہے۔ نظم و ضبط بھی شوق سے اپنایا جائے، قوانین و قواعد پر عمل بھی درست مگر سوچ لیجیے کہ پھر ہمارے بھرپور ''آرٹ‘‘ کا ایک بڑا حصہ اپنی موت آپ مر جائے گا! ترقی یافتہ اقوام کے ''چونچلے‘‘ اپنائے بغیر بھی ہم بخوبی زندہ ہیں تو پھر سب کچھ ایک لگے بندھے نظام کی ڈور سے باندھ کر اپنی ''تابندہ روایات‘‘ اور بے مثل و بے لگام آزادی کا گلا گھونٹنے سے فائدہ؟ جس ترقی سے آزادی ہی سلب ہو جاتی ہو اُسے دور سے سات سلام!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں