برصغیر میں انتخابات کو ہر پانچ سال بعد منعقد ہونے والے عظیم الشان میلے کا درجہ حاصل ہے۔ اس میلے میں عوام کو اپنی پسند، مرضی اور ضرورت کا ہر آئٹم مل جاتا ہے۔ اور اب تو سیاسی جماعتیں بھی عوام کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے انتخابی مہم کے دوران سنجیدہ ایشو پر ایسی کامیڈی کر جاتی ہیں کہ لوگ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ جو کچھ بھی کیا گیا وہ سنجیدگی کے کھاتے میں تھا یا کھلواڑ کے ذیل میں!
لوگ پانچ سال انتظار کرتے ہیں کہ انتخابی مہم شروع ہو گی تو منفرد نوعیت کی کامیڈی دیکھنے اور سُننے کو ملے گی۔ انتخابی مہم ہی کی مدد سے لوگ سیکھتے ہیں کہ کسی کو کسی بھی سبب یا بنیاد کے بغیر ذلیل کرنے کے کتنے طریقے ہو سکتے ہیں اور اُن طریقوں سے بہترین نتائج کس طور حاصل کیے جا سکتے ہیں!
الیکشن کا زمانہ خطے کے ہر ملک کو ایک عجیب و غریب خمار کے دریا میں ڈبو دیتا ہے۔ ڈھائی تین ماہ تک ایسی دھماچوکڑی مچتی ہے کہ لوگ اپنے انفرادی مسائل اور ذاتی رنج و غم بھول کر اجتماعی رنگ میں رنگ جاتے ہیں‘ یعنی سیاسی جماعتوں کے ہر تماشے، امیدواروں کی ہر حرکت کو خوب انجوائے کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو خیر گلی گلی تماشے کا سماں ہوتا ہے۔ کارنر میٹنگز کے نام پر امیدوار ایک دوسرے کے کچے چٹھے کھول کر عوام کی معلوماتِ عامہ میں اضافہ کرتے ہیں تاکہ مستقبل میں وہ کسی بھی حوالے سے دھوکا کھانے سے محفوظ رہیں۔
مگر صاحب، عوام کی خوشی ظالم سماج اور ریاستی اداروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ انتخابات کے موقع پر جو ہنستا گاتا ماحول ہمارے ہاں ہوتا ہے وہی اڑوس پڑوس میں بھی ہوتا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ بھارتی ریاست گجرات میں اس بار عوام کی خوشیوں کو حاسدوں کی نظر لگ گئی ہے۔ مرکزی الیکشن کمیشن نے گجرات اسمبلی کے انتخابات کے دوران لفظ ''پپّو‘‘ کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے مرکز میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کے خلاف اس لفظ کو توپ کی حیثیت سے استعمال کرنے کی بھرپور تیاری کر رکھی تھی۔ راہول گاندھی پر مخالفین سیاسی فکر و عمل کے اعتبار سے ناپختہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ سیاسی مخالفین اُنہیں (پیار و خار سے) پپّو کہتے ہیں!
دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ہی نے 8 سال قبل دہلی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر نوجوان ووٹرز کو ووٹ کاسٹ کرنے کی تحریک دینے کے لیے لفظ پپّو دھڑلّے سے اور کھل کر استعمال کیا تھا۔ تب الیکشن کمیشن نے ایک پیروڈی گیت بھی تیار کیا تھا جس میں نوجوان ووٹرز سے پپّو کے نام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ہینڈسم ہے، آسم ہے، اس کی شرٹ سٹائلش ہے، جینز ٹائٹ ہے، کانوں کے اس کے رِنگ ہے، دوستوں میں وہ کنگ ہے مگر ووٹ کاسٹ کرنے نہیں جاتا! گویا پپّو سے مراد وہ نوجوان ہے جسے ماحول سے کچھ غرض ہے نہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس۔ وہ اپنی ہی دُھن میں رہتا ہے اور بے سُرا ہونے پر بھی مرضی کا راگ الاپنا ترک نہیں کرتا۔ اس معاملے میں بھارت کے پپّو کچھ انوکھے نہیں۔ خطے کے تمام پپّو ایک ہی سانچے کے ڈھالے ہوئے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے خود تو پپّو سے جی بھر کے کھیل لیا مگر جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی باری آئی تو اُس نے اس لفظ کو اہانت آمیز قرار دے کر ممنوع الفاظ کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ یہ تو گھور انیائے ہے! بڑی مشکل سے پپّو پاس ہوا تھا، الیکشن کمیشن نے پھر فیل کر دیا!
پپّو ایسا ہمہ گیر نوعیت کا لفظ ہے کہ اِس میں ایک دنیا سما جاتی ہے۔ گبلو، ببلو ٹائپ کے گول مٹول بچے کو بھی پپّو کہا جاتا ہے۔ بہت خوبصورت بچہ بھی پپّو کہلاتا ہے۔ کند ذہن یا بھولا بھالا شخص بھی پپّو کہلاتا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے نا آشنا یا لاپروا شخص بھی پپّو کہلاتا ہے۔ ایک زمانے سے ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کے پیچھے پپّو سے مطالبہ یا درخواست پینٹ کی جاتی رہی ہے... یہ کہ ''پپّو یار تنگ نہ کر!‘‘ یہ مطالبہ ہر اُس پپّو سے کیا جاتا ہے جو سڑک پر گاڑی تو لے آتا ہے مگر گاڑی چلانے کے آداب سے ناواقف ہے۔ جب وہ کسی جواز کے بغیر اوور ٹیک کرنے کے لیے ہارن پر ہارن دیئے جاتا ہے تو لوگ زِچ ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی مواقع ہی کے لیے گاڑی کے پیچھے لکھوایا جاتا ہے کہ پپّو یار تنگ نہ کر۔ یعنی پپّو سامنے والی گاڑی کے پچھلے حصے پر یہ جملہ پڑھے اور کچھ شرما جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ جو شرما جائے وہ پپّو تو نہ ہوا!
جس طور گویّے سُروں سے کھیلتے ہیں بالکل اُسی طور ہمارے ہاں سیاست دان الفاظ سے کھیلتے ہیں۔ ابھی کچھ مدت پہلے تک ''پیج‘‘ سے ایسی کھلواڑ ہوتی رہی کہ اس لفظ کو برمحل، یا بے محل استعمال کرنے اور مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے معاملے میں سیاست دانوں، تجزیہ کاروں اور اینکرز کی اکثریت ایک پیج پر آ گئی! کچھ مدت پہلے لفظ پپّو ایک بار پھر سیاسی افق پر نمودار ہوا۔ شیخ رشید نے پاناما کیس کے حوالے سے کہا کہ پپّو تین پرچوں میں فیل ہو گیا ہے! پپّو سے تنگ نہ کرنے کی فرمائش کرنے کے بجائے اِس بار پپّو کو تنگ کیا جا رہا تھا، اُس سے تفریح لی جا رہی تھی۔ اور پپّو بے چارہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ جائے تو جائے کہاں۔ اپنی ہی زمین تنگ ہو گئی۔ کچھ ہی دنوں میں حالت یہ ہوئی کہ ایک پیر پاکستان میں ہے تو دوسرا برطانیہ میں۔ اور یہ کیفیت اب تک برقرار ہے۔
کچھ دن پہلے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفٰی کمال نے بھی شیخ رشید والا کام کرنے کی کوشش کی تھی مگر جسے وہ پپّو سمجھ بیٹھے تھے وہ ''پپّو برال‘‘ ثابت ہوا یعنی جوابِ آں غزل کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ خیر، لال پیلی یا کسی اور رنگ کی حویلی بھلے ہی نہ رکھتے ہوں، مصطفٰی کمال بھی کراچی کے معاملات میں شیخ رشید سے کیا کم ہیں یعنی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے!
بھارتی الیکشن کمیشن نے مفادِ عامہ کے تناظر میں ایک غیر دانش مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ پپّو اور ایسے ہی چار پانچ دوسرے الفاظ کے دم سے سیاست کا رونق میلہ بہاریں دکھا رہا ہے۔ اگر ان الفاظ ہی پر پابندی عائد کر دی گئی تو پھر عوام کے لیے دل بستگی کا کیا سامان رہ جائے گا۔ اور یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ پتھروں کو باندھا جا رہا ہے اور سگ ہائے آوارہ کھلے گھوم رہے ہیں۔ بھارتی الیکشن کمیشن کو اگر پابندی عائد ہی کرنی ہے تو چند سیاست دانوں پر عائد کرے جو ہر معاملے میں کسی نہ کسی طور مسلمانوں کو گھسیٹ کر ''پپّو یار تنگ تو کر‘‘ کا ماحول پیدا کرنے سے باز نہیں آتے!
ہمارے ہاں بھی گھما پھرا کر کیفیت یہی ہے۔ ''پپّو یار تنگ نہ کر‘‘ کا زمانہ کب کا جا چکا، اب تو عالم یہ ہے کہ سیاست میں کچھ ہلچل پیدا کرنے کی غرض سے یار لوگ خود ہی ''پپّو یار، تنگ تو کر‘‘ والی حرکتیں کرتے ہیں تاکہ پپّو کو غصہ آئے، وہ کچھ کہے یا کرے اور یوں بیان بازی یا الزام تراشی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو!
صد شکر کہ ہمارے ہاں معاملہ اب تک الفاظ پر پابندی عائد کیے جانے کی منزل تک نہیں پہنچا۔ ہمارے الیکشن کمیشن نے اگر اپنے بھارتی ہم منصب کے نقشِ قدم پر چلنا طے کر لیا تو سیاست کی اچھی خاصی رونق ہی ختم ہو جائے گی۔ چند الفاظ کیا نکلیں گے، سارا مزا ہی جاتا رہے گا۔ حلوے میں سے شکر ہی نکال لی جائے تو کیا بچے گا!