کس نے سوچا تھا کہ کراچی کی کبھی ایسی بھی حالت ہوگی؟ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے نام پر شہر بھر میں دُھول اڑانے کا بازار گرم ہے۔ لوگ حیران اور اُس سے کہیں زیادہ پریشان ہیں کہ آخر ملک کے سب سے بڑے شہر کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے۔ مسائل حل کرنے کے نام پر جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ مزید اور گوناگوں مسائل کو جنم دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ گویا ع
پاؤں رکھتا ہوں کہیں اور کہیں پڑتا ہے
ڈیڑھ سال سے شہری ایک تماشا مفت دیکھ رہے ہیں۔ یہ تماشا ہے صوبائی حکومت اور بلدیاتی سیٹ اپ کے درمیان اختیارات اور فنڈز کی رسّا کشی کا۔ ایم کیو ایم کی منتخب بلدیاتی قیادت شکوہ سنج رہی ہے کہ اُسے اختیارات سے نوازا گیا ہے نہ فنڈز سے۔ ایسے میں شہر کے بنیادی مسائل کس طور حل کیے جائیں؟ بلدیاتی اداروں پر ملازمین کی تنخواہوں، واجبات اور پنشن کا بھی بوجھ ہے۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔
صوبائی حکومت کہتی ہے کہ آئینی ترامیم کی بدولت بہت کچھ ہے جو صوبائی حکومت کے تصرف میں ہے اور دوسری طرف بہت کچھ ایسا بھی ہے جس پر صوبائی حکومت کا کوئی اختیار نہیں۔
وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے درمیان کشیدگی کے پیش نظر تھوڑے بہت معاملات اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وفاقی حکومت ہی کی فنڈنگ سے کراچی میں گرین بس کے لیے ایلیویٹیڈ روٹ تیار کیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بسیں سڑک سے بلند پُل پر چلائی جائیں گی۔ یہ منصوبہ وقت پر مکمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ شہر کا ایک بڑا حصہ اِس منصوبے کے روٹ میں شامل ہے۔ ایلیویٹیڈ روٹ کی تعمیر جاری ہے۔ میلوں طویل پُل تعمیر کیا جارہا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ لوگوں کو پریشانی کا سامنا تو ہوگا ہی۔ کہیں معمولی سی سڑک بھی دوبارہ بنائی جاتی ہے تو لوگ کئی ماہ الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ ٹریفک کو شارع فیصل سے راشد منہاس کی طرف موڑنے والے پل کو حال ہی میں تعمیر نو کے لیے بند کیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پل کی تعمیر نو میں تین ماہ لگیں گے۔ ایک پُل کی تعمیر کا جب یہ معاملہ ہے تو سوچیے کہ میلوں سڑک سے بلند شاہراہ کی تعمیر پر کس قدر وقت لگنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ عوام کی پریشانی کا بھی اندازہ لگائیے۔
شہر میں جگہ جگہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ کہیں سڑک کو تھوڑے بہت کام کے بعد یونہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ گڑھے ڈھنگ سے نہ بھرے جانے کے باعث دُھول اڑ اڑ کر وہاں سے گزرنے والوں کے چہرے پر غازہ ملتی رہتی ہے! لوگ صبح کو تیار ہوکر گھر سے نکلتے ہیں اور فیکٹری، دفتر یا دکان تک پہنچتے پہنچتے یہ حال ہوچکا ہوتا ہے کہ ع
پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!
دفتر یا فیکٹری پہنچ کر لوگ صابن خوب رگڑ رگڑ کر منہ دھوتے ہیں اور اپنے کولیگز کو یاد دلاتے ہیں ع
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو!
شہر بھر میں اُڑتی ہوئی دُھول لوگوں کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ دُھول کسی سرکاری حکم یا غیر سرکاری دھونس دھمکی کو تو مانتی نہیں۔ جہاں بھی سینگ سمائیں، یہ سما جاتی ہے۔ گھر میں جھاڑو دیجیے، پونچھا لگائیے۔ بس، دس پندرہ منٹ کی دیر ہے۔ آپ کو ہر طرف دُھول براجمان ملے گی۔ لوگ گھر کی حدود میں بیٹھ کر بھی دُھول سے بچ نہیں پاتے۔ دروازے ہی نہیں، کھڑکیاں بھی بند رکھنا پڑتی ہیں تب کہیں جاکر تھوڑی بہت ''جاں بخشی‘‘ ہو پاتی ہے۔
جب گھر کے اندر یہ حال ہے تو ذرا سوچیے کہ گھر سے نکلنے پر کیا حال ہوتا ہوگا۔ صفائی ستھرائی کا مقامی نظام اب تک بحال نہیں ہوسکا ہے جس کے نتیجے میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں۔ دُھول کے ساتھ ساتھ کچرا بھی اڑتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شہریوں کی صحت کا کیا حال ہوتا ہوگا یہ اندازہ لگانے کے لیے کسی کا آئن اسٹائن ہونا لازم نہیں! کراچی ساحل کے کنارے آباد ہے اس لیے یہاں کے بیشتر باشندوں کا ''سائنس پرابلم‘‘ سے دوچار ہونا حیرت انگیز نہیں۔ سمندری ہوا سانس لینے کے حوالے سے ویسے ہی پیچیدگیاں پیدا کرتی ہے۔ ایسے میں کچرے کے ڈھیر سے اٹھتا ہوا تعفّن اور قدم قدم پر اُڑتی ہوئی دُھول ستم بالائے ستم کا درجہ رکھتی ہے اور قیامت ڈھاکر رہتی ہے۔ بعض علاقوں میں حالت یہ ہے کہ محض دو تین کلو میٹر کا سفر یا پیدل تھوڑا سا فاصلہ طے کرنا بھی سوہانِ روح ہو جاتا ہے! ع
جب کبھی گھر سے نکلیے، کھانستے ہی جائیے
ترقی یافتہ ممالک کتنے ترقی یافتہ ہیں اِس کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ صفائی ستھرائی کے اعلیٰ ترین معیار کو یقینی بنانے کی بدولت وہاں شرٹ کا کالر چار دن بعد میلا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ہاں یعنی پورے ملک میں خیر سے صفائی ستھرائی کا یہ عالم ہے کہ کچھ دیر میں کپڑے کچھ کے کچھ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی تو بندے کو خود بھی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ کس رنگ کی شرٹ پہن کر گھر سے نکلا تھا! کراچی کا یہ حال ہے کہ محض دو تین گھنٹوں ہی میں کالر پر کالک کی لکیر دکھائی دینے لگتی ہے! لوگ اپنی ہی شرٹ کو دیکھ ''زیرِ لب کے نیچے‘‘ یہ گنگنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ع
میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے!
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار دیئے جانے والے شہر سے کس زمانے کی دشمنی نکالی جارہی ہے، یہ کیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ شہر کا شہر کچڑا کنڈی کا نمونہ بنتا جارہا ہے۔ ندی نالوں کا حال یہ ہے کہ تجاوزات ہٹائی جاتی ہیں اور کچھ دن بعد تجاوزات کا پرنالہ پھر وہیں بہنے لگتا ہے! ایک طرف اداروں کی روش ہے کہ درست نہیں ہو پاتی اور دوسری طرف عوام ہیں کہ اپنا راستہ نہ بدلنے پر بضد ہیں!
شہرِ قائد کا نصیب کب جاگے گا؟ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ختم ہوتی ہے تو اسٹریٹ کرائمز کا عفریت سارے بندھن توڑ کر میدان میں آ جاتا ہے۔ تھوڑا سا امن ہو جائے تو بنیادی سہولتوں کا فقدان ناک میں دم کرنے لگتا ہے۔ رینجرز اور پولیس نے مل کر شہر کو قتل و غارت سے بہت حد تک پاک کیا ہے تو اب گرد اور کچرے نے شہر کو تاراج کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اِس سے بڑھ کر ستم کی بات یہ ہے کہ جو اِس کیفیت کو برپا ہونے سے روک سکتے ہیں وہ کچھ کرنے کے بجائے محض تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کی دکان سجائے بیٹھے ہیں! یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ ایک بھرے پُرے شہر کو یوں لاوارث سا چھوڑ دیا جائے؟ اب کیا دُھول جیسی بے حقیقت سے چیز ایک تلخ حقیقت بن کر ہمارے منہ کا مزا خراب کرتی رہے گی؟ ؎
دُھول اُڑ کر یہ ستم ڈھائے گی، سوچا بھی نہ تھا
اِک نظر اُن کو بھی دیکھیں گے تو وحشت ہو گی
آپ ہی شہر کی حالت پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی