"MIK" (space) message & send to 7575

اب ’’آنکھ‘‘ بننے سے بچنا ہے

ایک بار پھر امتحان کی گھڑی سامنے کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ قوم کی حالت یہ ہے کہ ایک مصیبت جاتی ہے اور دوسری آ جاتی ہے۔ جب ہم کسی بحران پر قابو پانے کی منزل کے نزدیک ہوتے ہیں تب اُس کے بطن سے ایک اور بحران ہویدا ہو جاتا ہے۔ بات کو ڈھنگ سے بیان کرنا ہو تو منیرؔ نیازی کے فن سے استفادہ کرنا پڑے گا ؎ 
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ہم ایک بار پھر وہیں آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں ڈیڑھ دو عشروں کے دوران کھڑے رہے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ بند گلی والی کیفیت بار بار ہمیں اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ ایسے میں حواس طویل رخصت پر جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے لیے do or die والا مرحلہ پھر آ گیا ہے۔ کیل کانٹوں سے لیس ہوکر میدان میں نکلے بغیر چارہ نہیں۔ عالمی سیاست و معیشت پر اپنا اجارہ برقرار رکھنے کے لیے امریکا نے بہت کچھ الٹنے، پلٹنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا امریکی اعلان بُھوسے میں چنگاریاں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔ مسلم دنیا میں نئی آگ بھڑکانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے مسلم دنیا میں عمومی سطح پر جذبات بھڑک اٹھے ہیں۔ یہ سلسلہ آسانی سے رکنے والا نہیں۔ پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک اُجالے کی طرف اپنا سفر تیزی سے مکمل کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ صدر ٹرمپ نے‘ بظاہر ٹرمپ کارڈ پھینکتے ہوئے ایک بار پھر ظلمت کو مسلم دنیا پر مسلّط رکھنے کا اہتمام کر ڈالا ہے۔
ڈھائی تین عشروں کے دوران ہم نے کئی بار امریکا اور یورپ کی جنگ لڑی ہے۔ افغانستان میں پہلے ہم نے سوویت یونین کے خلاف امریکا اور یورپ کی جنگ لڑی۔ پھر کچھ مدت ذرا سکون سے گزری تو 2001ء میں نائن الیون کے بطن سے ہمارے لیے ایک اور جنگ ہویدا ہوئی۔ یہ تھی دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ یہ جنگ ایک بار پھر امریکا اور یورپ کی تھی مگر لڑنی پڑی ہمیں۔ اور وہ بھی اِس طرح کہ تباہی اور بربادی ہمیں لڑ گئی۔ اس جنگ کے انتہائی مضر اثرات کے دائرے سے ابھی ہم باہر نکلنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ ایشیا کے بڑے جاگ اٹھے اور امریکا و یورپ کے خلاف کمر کس کر میدان میں آ گئے۔ اور جب یہ تیاری کی حالت میں ہیں تو امریکا بھلا کیونکر پیچھے رہ سکتا ہے۔ خُوئے بد را بہانۂ بسیار کے مصداق امریکا نے ایک بار پھر جنگ کی ٹھانی ہے۔ اور اِس بار بھی نگاہِ انتخاب ہم پر ٹھہری ہے۔ اب کے جنگ کا طریق البتہ مختلف ہوگا۔ اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ یورپ بظاہر امریکا کے ساتھ نہیں۔ یورپ کی بیشتر ریاستوں نے شاید یہ طے کر لیا ہے کہ مسلم دنیا سے بلاجواز مخاصمت مول نہیں لینی۔ سپر پاور کی حیثیت برقرار رکھنے کی اپنی سی کوشش کے طور پر امریکا نے اس بار بہت حد تک تنہا آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک بات کا اطمینان امریکی قیادت کو ضرور ہے‘ وہ یہ کہ معاشی فیصلے اور مالیاتی نظام چونکہ بہت حد تک اُس کے ہاتھ میں ہے‘ اس لیے یورپ اُس کے ساتھ آئے یا نہ آئے، اُس کے خلاف نہیں جائے گا! 
کسی بھی طوفان کا سب سے زیادہ زور جہاں ہو وہ حصہ یعنی طوفان کا قلب‘ عام طور پر طوفان کی آنکھ کہلاتا ہے۔ پاکستان کو طوفان کی آنکھ بننے کا ''شرف‘‘ کئی بار حاصل ہوا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر پاکستانی سرزمین اور اس پر بسنے والی قوم کو‘ طوفان کی آنکھ میں تبدیل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ امریکا نہیں چاہتا کہ ہم اُس کی حاشیہ برداری ترک کریں، اپنے طور پر کچھ کرنے کی راہ پر گامزن ہوں۔ دہشت گردی ختم کرنے کی جنگ کے نام پر اُس نے ''ڈو مور‘‘ کا راگ اِتنا الاپا ہے اب تو سبھی جان چکے ہیں کہ ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا قصہ دُہرایا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں بِلّی لاکھ کمزور سہی مگر دباؤ برداشت کرنے کے معاملے میں اُس کی بھی ایک حد ضرور ہوتی ہے۔ اگر دباؤ حد سے بڑھ جائے تو وہ بھی اپنے مقابلے میں دشمن کے جُثّے اور طاقت کو بھول بھال کر پنجہ مارتی ہے۔ پاکستان بھی اب بِلّی والی منزل تک پہنچ چکا ہے۔
امریکی قیادت نہیں چاہتی کہ پاکستان سیاسی و معاشی استحکام سے ہم کنار ہو۔ اصل مقصد تو سلامتی کا مسئلہ پیدا کرنا ہے۔ سیاست اور معیشت کو کمزور کر دیا جائے تو سلامتی کا مسئلہ خود بخود کھڑا ہو جائے گا۔ ان تینوں مقاصد کے حصول کے لیے امریکی قیادت وہ سب کچھ کر رہی ہے‘ جو وہ کرسکتی ہے۔ خطے میں بھارت، افغانستان اور ایران کو خاصی فراخ دلی سے گریس مارکس دے کر امریکا صورتِ حال کو پاکستان اور دیگر ممالک کے لیے تشویش ناک بنا رہا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں جس انداز کا کھیل جاری ہے اُسے دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا نے ایک چال تو پوری کامیابی سے چل لی ہے۔خطے کے ایک بڑے ملک نے پورے خطے کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی حکومتیں اور پالیسیاں چاہتا ہے۔ امریکا اُس کی پشت پر ہے۔ مئی کے دورۂ سعودی عرب میں امریکی صدر ٹرمپ نے پورے خطے کی ہیئت تبدیل کرنے سے متعلق راہ متعین کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 
اب پاکستان کو گھیر گھار کر ایک بار پھر طوفان کی آنکھ بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ امریکی قیادت کو اپنا سنگھاسن ڈولتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ ہر انڈر ورلڈ ڈان اپنی طاقت بچانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ بالکل اِسی طرح امریکا بھی سپر پاور کی حیثیت کو بچانے کے لیے ہر وہ کوشش کرنا چاہتا ہے جو کی جاسکتی ہے۔
ہم نے کم و بیش ڈیڑھ عشرے کے دوران جو کچھ جھیلا وہی سب کچھ دوبارہ جھیلنے کی طرف ہمیں دھکیلا جارہا ہے۔ یورپ اگرچہ عملاً قابلِ ذکر یا تشویش ناک حد تک امریکا کے ساتھ نہیں مگر وہ اِس وقت تماشائی سے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ ایسے میں ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہے۔ امریکی قیادت نے ڈیڑھ عشرے کے دوران مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ افغانستان کے بعد عراق، لیبیا، شام اور یمن کو تباہ کرکے امریکا نے مسلمانوں کے دلوں میں اپنے لیے واضح نفرت پیدا کی ہے۔ کوئی ایک غلط فیصلہ پورے خطے کو جنگ کی بھٹی میں جھونک سکتا ہے۔ 
اصل امتحان پاکستان کا ہے۔ چین کے ساتھ ساتھ اب اُسے روس اور ترکی کا واضح جھکاؤ بھی میسر ہے۔ خطہ تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ امریکا کی دھمکیوں سے دب کر یا اُس کی طرف سے ''امداد و تعاون‘‘ کے لالچ میں پھنس کر اِن مضبوط اور بہت حد تک قابل اعتبار دوستوں سے نمایاں ترکِ تعلق یا فاصلہ حماقت کے سوا کچھ نہ سمجھا جائے گا۔ ہماری قیادت کو do or die کی اس منزل میں مکمل ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں