مرے کو مارے شاہ مدار والی کہاوت تو آپ نے سُنی ہی ہوگی۔ جب کبھی خواتین سے متعلق کسی تازہ ترین تحقیق کے نتائج طشت از بام کیے جاتے ہیں، ہمیں یہ کہاوت بے ساختہ یاد آ جاتی ہے۔ یاد بھلا کیوں نہ آئے، جب بھی محققین خواتین سے متعلق کسی بھی معاملے کی چھان بین کرنے بیٹھتے ہیں، اُنہیں گریس مارکس دے بیٹھتے ہیں۔ ٹھیک ہے، سب کو عزت پیاری ہوتی ہے اور ماہرین کو بھی اپنی عزت پیاری ہوگی مگر بھئی خوف کے مارے عزت دیئے جانے کی بھی کوئی حد تو مقرر ہونی ہی چاہیے!
خواتین کی زندگی کے ہزار ہا پہلو ایسے ہیں جن پر قیامت تک دادِ تحقیق دی جا سکتی ہے تاہم ایک پہلو ایسا ہے جو صد ہزار تحقیق کے بعد بھی تشنہ سا رہا ہے اور تشنہ ہی رہے گا۔ یہ پہلو ہے گفتار کا تواتر، تسلسل اور حجم۔ خواتین بات کیے بغیر کچھ دیر بھی سُکون سے نہیں رہ سکتیں۔ باتیں کرنا اُن کی فطرت سمجھی جاتی رہی ہے مگر اب ماہرین یہ طے کرکے میدان میں نکل آئے ہیں کہ خواتین کو اِس معاملے میں یکسر بے قصور ثابت کرکے دم لیں گے۔ خواتین کی بسیار گوئی، بلکہ ''برق گفتاری‘‘ کے حوالے سے کی جانے والی تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے (یعنی ہمارے اور آپ کے علم میں لایا گیا ہے) کہ خواتین کے دماغ میں ایک ایسی پروٹین (فاکس پی ٹو) پائی جاتی ہے جو اُنہیں زیادہ بولنے کی تحریک ہی نہیں دیتی بلکہ عام طور پر اس قدر مجبور کر دیتی ہے کہ وہ زیادہ بولے بغیر نہیں رہ سکتیں یعنی بسیار گوئی کے بغیر اُن سے رہا نہیں جاتا، ذہنی و قلبی سُکون میسر نہیں ہو سکتا!
دیکھا آپ نے! ماہرین نے کتنی خوبصورتی سے خواتین کی بسیار گوئی کو فطرت یا مزاج کی حدود سے نکال کر جبلّت کی حدود میں داخل کر دیا! یعنی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ اگر بہت بولتی ہیں تو اِس میں اُن کا کوئی قصور نہیں۔ وہ تو مجبورِ محض ہیں، اُنہیں تو حلق ہی اِس کام کے لیے کیا گیا ہے!
اب آئیے اِس بات کی طرف کہ خواتین دن بھر میں کتنا بولتی ہیں۔ ماہرین جن بہت سے معاملات میں عاجز دکھائی دیتے ہیں اُن میں سے ایک خواتین کی گفتار کے حجم کا اندازہ لگانا بھی ہے! اب تک کے تمام اندازوں کو خواتین غلط ثابت کرتی آئی ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ خواتین عام طور پر دن بھر میں بیس ہزار الفاظ ادا کرتی ہیں۔ جی ہاں! بیس ہزار! کمال دن بھر میں اتنے سارے الفاظ ادا کرنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اِس پر بھی خواتین یہی شِکوہ کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ بات ٹھیک سے ہو نہیں پائی، مدعا کھل کر سامنے نہیں آ سکا! گفتگو اور پیار دونوں ہی معاملات میں خواتین کمی اور تشنگی کا شِکوہ کرتی نظر آتی ہیں۔ سات آٹھ بچوں کی ماں کی زبان پر گِلہ ملے گا ''اے بہن! آج تک سچّا پیار نہیں ملا!‘‘
جب سے ٹیلی کام ٹیکنالوجی میں غیر معمولی پیش رفت ہوئی ہے، خواتین کی قوتِ گفتار میں بھی ہوش رُبا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پیکیج پر دن میں تین چار مرتبہ ایک ایک گھنٹے کی گفتگو اب پختہ عادت کا درجہ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ایک گھنٹے میں انسان کتنے الفاظ ادا کر سکتا ہے۔ گن کر دیکھ لیجیے اور پھر اندازہ لگائیے کہ ماہرین کا یومیہ بیس ہزار الفاظ والا اندازہ کس قدر غلط ہے!
دن بھر میں مرد کتنے الفاظ ادا کرتے ہیں؟ اس حوالے سے ماہرین میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اپنے ''احساسِ محرومی‘‘ کو بھی چھپانا چاہتے ہیں! بیس ہزار الفاظ والی تحقیق میں ماہرین نے مردوں کو سات ہزار الفاظ کی منزل پر روک دیا ہے!
مرزا تنقید بیگ کو ہمیشہ یہ شِکوہ رہا ہے کہ اُنہیں گھر میں بولنے کا ذرا بھی موقع نہیں ملتا۔ اور یہ تھوڑا بہت بولنا بھی اُس وقت نصیب ہوتا ہے جب بھابی صاحبہ زبان کو تھوڑا آرام دے رہی ہوتی ہیں! یعنی وہ سلسلۂ گفتار میں وقفہ متعارف کراتی ہیں تو مرزا کی زبان کے دن پھرتے ہیں! جب ہم نے مرزا کو خواتین کی بسیار گوئی سے متعلق تازہ ترین تحقیق کے بارے میں بتایا تو وہ بولے ''ہمارے خیال میں ماہرین کو شدید قسم کا مغالطہ ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سات ہزار الفاظ خواتین کے لیے گفتار کی کم از کم یومیہ خوراک ہوں! مرد بے چارے عام طور پر دن بھر میں چند سو الفاظ سے زیادہ نہیں بول پاتے‘‘۔
ہم نے عرض کیا کہ بات کرنے کے معاملے میں مرد قدرے مظلوم ہیں مگر آپ کو اُنہیں اِتنا ہلکا بھی مت لیں۔ مرزا نے تنک کر جواب دیا ''بس اب رہنے دو میاں! آئینہ دکھائے جانے پر بھلا کون خوش ہوتا ہے؟ ہم صرف اپنی نہیں، تمہاری بھی بات کر رہے ہیں!‘‘
مرزا کی بات سُن کر ہم (پتا نہیں کون بار) گھڑی بھر کے لیے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ ہماری طرح مرزا کی بھی یہی رائے ہے کہ خواتین سے متعلق کسی بھی معاملے کی تحقیق کا مرحلہ درپیش ہو تو ماہرین اور محققین کی گھگھی بندھ جاتی ہے اور پھر وہ کچھ بھی کہتے وقت صرف اور صرف خواتین کی خوشنودی اور اُن کے مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہیں! ایسا نہیں ہے کہ اُن کی مجبوری ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ''اپنی عزت اپنے ہاتھ‘‘ کے اصول پر عمل پیرا رہتے ہیں!
مرزا کہتے ہیں ''خواتین سے متعلق تحقیق کا مرحلہ درپیش ہو تو ماہرین اور محققین ڈنڈی مارنے میں دیر نہیں لگاتے اور اپنے ہی ہم جنسوں یعنی مردوں کے خلاف بولنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ اور وہ ڈنڈی کیوں نہ ماریں؟ ایسا نہ کرنے کی صورت میں سَروں پر ڈنڈے برسنے کا احتمال جو ہوتا ہے! اگر 'خواتین نواز‘ تحقیق کا رجحان برقرار رہا تو کل کو تحقیق کے ذریعے ثابت کر دیا جائے گا کہ اُن کے بیشتر افعال جینیاتی ساخت کا نتیجہ ہیں، اِس لیے اُن پر کوئی گرفت نہ کی جائے۔ کون سا مرد ہے جو خواتین کی شاپنگ کی عادت سے پریشان نہ ہو۔ موقع ملا تو ماہرین یہ ثابت کرکے دم لیں گے کہ خواتین کے دماغ میں 'شاپنگوٹین ایکس‘ نامی پروٹین پائی جاتی ہے جو اُنہیں بار بار شاپنگ کی تحریک دیتی ہے۔ اور ماہرین کی طرف سے دی جانے والی اِس سند کی بنیاد پر خواتین معمول سے کہیں زیادہ شاپنگ کو جبلّی حق قرار دے کر عدالت سے بھی رجوع کر سکیں گی!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ ''شاپنگوٹین‘‘ تو سمجھ میں آگیا مگر اِس کے ساتھ یہ ''ایکس‘‘ کا دُم چَھلّا کیوں لگا ہوا ہے تو مرزا نے یہ کہتے ہوئے خواتین کی شاپنگ کی عادت کو ''خراجِ عقیدت‘‘ پیش کیا ''انگریزی میں کسی بھی ہندسے کے ساتھ حرف 'ایکس‘ دراصل شدّت یا ضرب کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر 3x لکھا ہو تو اِس کا مطلب ہے تین گنا یعنی 300 فیصد۔ شاپنگوٹین اور ایکس کے درمیان کوئی ہندسہ اِس لیے نہیں لگایا جا سکتا کہ اللہ کے سوا کوئی طے نہیں کر سکتا کہ کوئی بھی عورت کتنے گنا شاپنگ کرے گی! 'شاپنگوٹین ایکس‘ نام کی پروٹین دراصل شاپنگ کے عمل کے لامتناہی یعنی ابدی ہونے کی طرف اشارا ہے!‘‘
مرزا نے ''شاپنگوٹین ایکس‘‘ کی جو توضیح کی اُسے سُن کر (بیگم کے موجود نہ ہونے پر بھی) ہماری گھگھی بندھ گئی۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ ہمارے الفاظ کے چراغوں میں روشنی نہ رہی!