انسانی ذہن بھی کیا عجیب و غریب اور غضب ناک کمپیوٹر ہے کہ جس کی ہارڈ ڈسک بھرنے کا نام نہیں لیتی اور خالی ہونے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ ذہن کی کارکردگی کے حوالے سے دادِ تحقیق دینے والے ماہرین کا اِس نکتے پر اتفاق ہے کہ ذہن میں ڈالا تو بہت کچھ جاسکتا ہے مگر نکالا کچھ بھی نہیں جاسکتا۔ کوئی بھی بڑا واقعہ ذہن کے نہاں خانوں میں پڑا رہتا ہے اور جیسے ہی اُس سے مطابقت رکھنے والا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، متعلقہ شخصیت سامنے آتی ہے یا مقام کی مطابقت پیدا ہوتی ہے تب وہ واقعہ ذہن کے پردے پر یوں جلوہ گر ہو جاتا ہے جیسے ابھی ابھی رونما ہوا ہو۔ کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک یا یو ایس بی سے کوئی بھی چیز آسانی سے ڈیلیٹ کی جاسکتی ہے، ذہن کی ہارڈ ڈسک سے کسی بھی بات کو ڈیلیٹ کرنا ممکن نہیں۔ ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تواتر سے بروئے کار لائی جارہی ہو یا چند باتیں ذہن میں ہر وقت متحرک ہوں تو دوسری بہت سی باتیں پچھلی صفوں میں جا بیٹھیں۔ یعنی ہم جن معاملات پر زیادہ بات نہیں کرتے یا زیادہ اہم نہیں سمجھتے وہ ذہن کے دور افتادہ گوشوں کو مسکن بنالیتے ہیں اور خود ہمیں بھی ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ہم انہیں بھول گئے ہیں مگر جب کبھی کوئی متعلقہ بات کی جائے یا واقعہ رونما ہو تو وہ تمام معاملات اٹھ کر ذہن یا حافظے کی اگلی صفوں میں آ بیٹھتے ہیں۔ یہ ایسا عمل ہے جس پر انسان کا بظاہر ذرا بھی اختیار نہیں۔ اِسی لیے تو اخترؔ انصاری نے کہا ہے ؎
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھے سے حافظہ میرا
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو حواس اور ذہن پر ہر وقت اثر انداز، بلکہ حملہ آور ہو رہا ہے۔ چیزیں آتی جاتی ہیں اور ذہن کی ہارڈ ڈسک کا حصہ بنتی جاتی ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، خود کو ماحول سے الگ تھلک نہیں رکھ سکتا۔ مشکل یہ ہے کہ جو لوگ خود کو ماحول سے دور رکھتے ہیں وہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور پیچھے رہ جانے سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے میں زمانے لگ جاتے ہیں۔ اگر آگے بڑھنا ہے، کچھ کرنا ہے، کچھ پانا ہے تو ذہن کو نئی معلومات سے ''محفوظ‘‘ رکھنے کی روش ترک کیے بغیر چارہ نہیں۔
دنیا بھر میں ماہرین ذہن کی کارکردگی کا گراف بلند سے بلند تر کرتے رہنے سے متعلق دادِ تحقیق دینے میں مصروف ہیں۔ سارا زور اِس بات پر ہے کہ ذہن پر مسلسل مرتب ہونے والے دباؤ میں کمی لائی جائے، اُسے کام کرنے کے لیے زیادہ بڑا میدان فراہم کیا جائے تاکہ کارکردگی کا معیار بلند ہو۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ذہن کی ہارڈ ڈسک یعنی حافظے پر مرتب ہونے والے دباؤ میں کمی واقع نہیں ہو پارہی۔ ذہن تک پہنچنے والی معلومات میں اندھا دھند اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ ایسی صورتِ حال جس پر قابو پانے کا کوئی سود مند طریقہ سُجھانے میں ماہرین اب تک ناکام ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی اِس صورتِ حال سے پریشان و حواس باختہ ہیں۔ زمانے سے ہم آہنگ رہنا اور پھر حواس کو قابو میں بھی رکھنا ایسے امتحانات ہیں جن میں کامیابی سے ہم کنار ہوتے رہنا اب ہمارے لیے تقریباً ناگزیر ہوچکا ہے۔ کامیاب اب وہی ہیں جو تبدیلی سے بچنے کے بجائے اُس سے ہم آہنگ ہو، مطابقت پیدا کر دکھائے۔ یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔ حافظے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ مستقل بنیاد پر یعنی تواتر سے ہم تک پہنچ رہا ہے۔ ہم مزاجاً ''خبر پسند‘‘ ہوچکے ہیں۔ نئی باتیں جاننے کے شوق میں ہم ایسا بہت کچھ دیکھتے اور سُنتے ہیں جس کا بڑا حصہ ہمارے لیے کسی بھی کام کا نہیں ہوتا۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ حواس کے ذریعے ہمارے ذہن میں جو کچھ داخل ہو رہا ہے اُس کا ایک بڑا حصہ ہمارے لیے یکسر لاحاصل و لایعنی ہے مگر ہم یہ عمل جاری رکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ دل و دماغ کے کسی گوشے میں یہ خوف بھی جاگزیں رہتا ہے کہ لایعنی باتوں سے بچنے کی کوشش میں ہم کہیں کسی بامعنی بات سے محروم نہ رہ جائیں!
یہ تو ہوا حافظے پر پڑنے والے دباؤ کا معاملہ۔ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہم وقتی طور پر یا کچھ مدت کے لیے بھول سا جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہماری الجھنیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ایسے میں اگر حافظہ مستقل متحرک رہے، گزرے ہوئے زمانے حافظے میں تر و تازہ رہیں تو؟ اگر ایسا ہو تو انسان ہمہ وقت پریشانی اور وحشت سے دوچار رہتا ہے۔ خاصے پرانے واقعات بھی اگر جزئیات کے ساتھ یاد رہ جائیں تو ذہن میں ہر وقت الجھنیں کلبلاتی رہتی ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ تمام یادیں خوشگوار اور یادگار کب ہوتی ہیں؟ ہر انسان کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جسے وہ بھول جانا چاہتا ہے مگر بھول نہیں پاتا۔ چند ایک برے واقعات زندگی بھر یاد رہتے اور دکھ دیتے ہیں۔ اب اگر یہ تمام برے واقعات بھی اچھے واقعات کے ساتھ ساتھ حافظے کے افق پر ہر وقت ''جگمگاتے‘‘ رہیں تو ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے چراغوں میں روشنی نہ رہے گی، زندگی سر بہ سر حشر کا روپ ہی دھارے گی۔
آج کا انسان اگر بہت سے معاملات میں خوش نصیب ہے تو چند ایک معاملات میں انتہائی بدنصیب بھی ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں کے انسانوں کے لیے زندگی پیچیدہ نہ تھی۔ ٹھیک ہے، بہت سی سہولتیں نہیں تھیں مگر ساتھ ہی ساتھ بہت سی الجھنیں بھی تو نہیں تھیں۔ خبروں اور معلومات کے نام پر زمانے بھر کی فضول باتیں ذہن پر حملہ آور بھی تو نہیں ہوتی تھیں۔ لوگ مزاجاً سادہ ہوا کرتے تھے تو مجموعی طور پر زندگی میں بھی سادگی بہت نمایاں تھی۔
وقت کی گردش ہمیں کہاں لے آئی ہے کہ قدم قدم پر احساس ہوتا ہے ؎
یہ کیا ہے کہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
پہلے تو کبھی جی کو یہ آزار نہیں تھے
ہر گزرتا لمحہ ذہن پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ تحقیق و ترقی نے ہر شعبے کو حصار میں لے رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ جانتے رہنا محض شوق یا ہوس کا معاملہ نہیں رہا بلکہ مجبوری میں تبدیل ہوچکا ہے۔ حواس پر حملوں سے عام آدمی بھی محفوظ نہیں مگر اُن کے لیے تو زندگی واقعی مسئلہ بن گئی ہے جو کسی خاص شعبے میں کچھ کرنے اور نام کمانے کے خواہش مند ہوں۔ زندگی کی عمومی روش نے حافظے کو کباڑ خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ ایسے میں اگر ڈھنگ سے کچھ کرنا اور زندگی کو بامقصد بنانا ہے تو انتہائی لازم ہے کہ زمانے بھر کا کاٹھ کباڑ حافظے کے نہاں خانوں میں ٹھونسنے سے گریز کیا جائے۔ اِس کے لیے دیکھنے اور سُننے کے معاملے میں انتہائی درجے کی احتیاط لازم ہے۔ مطالعے کے معاملے میں بھی غیر معمولی حد تک ''انتخابی‘‘ ہونا پڑے گا۔ اگر ذہن میں الل ٹپ اور اوٹ پٹانگ باتوں اور چیزوں کو انڈیلتے رہے گا تو حافظہ عفریت کی شکل اختیار کے زندگی کے ہر معاملے میں آپ کو الجھنوں سے دست و گریباں ہونے پر مجبور کرتا رہے گا۔ یادوں سے چھٹکارا پانا آپ کے بس کی بات نہیں مگر خوشگوار معاملات کو حافظے کی زینت بنانا خاصی معقول حد تک آپ کے اختیار میں ہے۔ اس اختیار کا محتاط اور دانش مندانہ استعمال ہی آپ کو اس تاسّف سے محفوظ رکھ سکتا ہے کہ ع
یاد ہے یا عذاب ہے یارو!