کوئی بھی سڑک اس لیے ہوتی ہے کہ اس پر سفر کرکے منزل تک پہنچا جائے۔ سڑک اگر اچھے میٹریل سے بنائی گئی ہو تو سفر تیزی سے ممکن ہوتا ہے اور کسی پریشانی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا۔ اِسی طور جتنی اچھی سڑک اُتنا اچھا سفر۔ اب اگر کوئی سڑک کے اعلیٰ معیار ہی میں گم ہو جائے، اُس سے ایسا لگاؤ ہو جائے جیسے پوجا کر رہا ہو تو؟ سڑک پوجنے کے لیے نہیں ہوتی، سفر کے لیے ہوتی ہے۔ انسان کے ذہن میں اگر کوئی منزل ہے تو وہاں تک وہ سفر ہی کے ذریعے پہنچے گا۔ سڑک کو پوجنے سے منزل تک پہنچنا کسی طور ممکن نہیں ہوسکتا۔
یہی حال مذہبی تعلیمات کا بھی ہے۔ مذہب انسان کو منزل تک پہنچانے والا راستہ دکھاتا ہے۔ ہر مذہب کی بنیادی تعلیمات انسان کے اخلاق درست کرنے پر سب سے زیادہ زور دیتی ہیں۔ مذہبی تعلیم پاکر انسان تربیت کے ذریعے اپنے اخلاق اس حد تک درست کرتا ہے کہ باقی لوگوں کے لیے ایک مثال اور نمونے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو شخص مذہبی تعلیمات کو اپنے وجود میں سمو لیتا ہے وہ دوسروں کے لیے ایک روشن مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ لوگ بیشتر معاملات میں ڈھنگ سے کچھ کرنے، بہتر نتائج پانے کے لیے اُس سے تحریک پاتے ہیں۔
اسلام دوسرے بہت سے معاملات میں بھی انسان کی بالکل واضح رہنمائی کرتا ہے مگر سب سے زیادہ زور وہ بھی اخلاق درست کرنے ہی پر دیتا ہے تاکہ بالکل انفرادی اور ابتدائی سطح پر بھی زندگی پُرسکون، جامع اور مفید ہو۔ مفید اپنے لیے بھی اور دوسروںکے لیے بھی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ پوری کائنات میں کہیں کوئی ایک بھی معاملہ ایسا نہیں جس میں کوئی شارٹ کٹ چلتا ہو۔ مذہب تو خیر شارٹ کٹ پر بالکل ہی یقین نہیں رکھتا۔ اور لوگ کسی بھی معاملے میں بہترین حتمی نتائج پانے کے لیے دیگر بہت سے دستیاب وسائل کی طرح مذہب کو بھی شارٹ کے طور پر استعمال کرنے پر بضد رہتے ہیں!
ہم خوش نصیب ہیں کہ دین کی جامع ترین تعلیمات ہمارے پاس قرآن اور احادیث کی شکل میں موجود ہیں۔ قرآن کے بارے میں تو خیر کسی بھی سطح پر کسی شبہے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام کے بدترین اور سخت ترین مخالفین بھی کبھی دعویٰ نہیں کرسکے کہ جو کچھ نبیٔ اکرمؐ نے وحی کی صورت میں بیان فرمایا اُس کا کوئی حصہ محفوظ ہونے سے رہ گیا۔
جو دین ہم تک پوری احتیاط کے ساتھ پہنچایا گیا ہے اور جس کی تعلیمات کے بارے میں ہمارے ذہن میں کہیں شک و شبہے کا شائبہ تک نہیں اُسے بھی ہم نے اوراد و وظائف تک محدود کردیا ہے۔ بات پھر وہی آگئی۔ ہم راہ کو منزل بنانے پر تُل گئے ہیں۔ دین ہمیں اُس منزل تک لے جاتا ہے جو اللہ نے ہمارے لیے طے کی ہے۔ ہم اُس منزل تک پہنچنے کی فکر کرنے کے بجائے راہ کو منزل بنانے کی دُھن میں مگن ہیں۔ اور جب ایسی کیفیت ہو تو انسان کچھ کرنے سے گریز کرتا ہے۔ ایسے میں شروع ہوتی ہے شارٹ کٹ کی تلاش۔ انسان جب شارٹ کٹ کے چکر میں پڑا ہو تو دین کو اُن معاملات میں بھی بروئے کار لانے کی کوشش کرتا ہے جن کا دین سے براہِ راست زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً بخار کی حالت میں طبیب کے پاس جانا پڑتا ہے، ماندگی کا احوال سناکر دوا لینا پڑتی ہے اور وہ دوا کھانا بھی پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ احتیاطی تدابیر بھی اختیارکرنا پڑتی ہیں جو طبیب نے سُجھائی ہوں۔ اب یہ کیونکر ممکن ہو کہ شدید بخار نے جسم کو پُھونک ڈالا ہو اور کوئی محض کسی وظیفے میں علاج تلاش کرے؟ دین ہم تک نبیٔ اکرمؐ کے ذریعے پہنچا ہے اور آپؐ نے تمام معاملات میں ہمیشہ وہی طریق اپنایا جو فطرت اور عقل کے مطابق تھا اور آثار بتاتے ہیں کہ آپ کے تمام فیصلے درست تھے۔ بعض مواقع پر حضورؐ نے کسی کے زخم دھونے کے بعد دعا بھی فرمائی مگر مرہم پہلے لگایا۔ خیبر کے معرکے میں جنابِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں دُکھ رہی تھیں۔ آپؐ نے اپنا لعابِ دہن لگایا اور دعا فرمائی۔ غور فرمائیے کہ محض دعا نہیں کی، پہلے لعابِ دہن لگایا۔ دعا کا مرحلہ اِس کے بعد آیا۔
زندگی کے ہر معاملے کا یہی اسٹینڈرڈ پروسیجر ہے۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے جو کچھ کرنا ہے وہ تو کرنا ہی ہے۔ جب ہم اپنا کام پورا کرکے اللہ سے مدد چاہتے ہیں تو وہ برکت عطا فرماتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے حصے کا کام نہ کریں اور وہ برکت عطا فرمائے۔ غزوۂ بدر میں اللہ نے اہلِ ایمان کے لیے نصرت کی شکل میں ملائک اتارے جنہوں نے متعدد کفار و مشرکین کو جہنم واصل کیا۔ یہ نصرت اُس وقت اتاری گئی جب اہلِ ایمان نے اپنے سے بڑا لشکر دیکھ کر بھی ہمت نہ ہاری اور جو تھوڑا بہت سامانِ حرب اپنے پاس تھا وہ لے کر آپؐ کے ساتھ میدان میں نکل آئے۔
ہم نے عرض کیا کہ دین کی تعلیمات کے جامع ہونے میں ہم کسی حوالے سے شک کی منزل میں نہیں۔ پھر بھی ہم شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بیشتر معاملات میں ہماری خواہش یہ ہوتی ہے کہ، کسی نہ کسی طور، کچھ کیے بغیر ہی سب کچھ حاصل ہوجائے۔ اوراد و وظائف نفس اور روح کی تطہیر کے لیے ہوتے ہیں۔ جب ہم اس مرحلے سے گزرتے ہیں تو بہتر اعمال کی طرف بڑھتے ہیں۔ اوراد و وظائف کو اعمال کا بہترین متبادل سمجھتے ہوئے بے عمل ہو جانا دینی تعلیمات کا مضحکہ اڑانے کے مترادف ہے۔ اللہ پر توکّل کا مطلب یہ نہیں کہ اونٹ کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ پہلے اُس کا زانو باندھنا ہے۔ توکّل کی منزل اِس کے بعد ہے۔
کوئی سے بھی دو نقاط کے درمیان سب سے کم فاصلہ صراطِ مستقیم ہے۔ لوگ شارٹ کٹ کی تلاش میں گھوم پھر کر منزل تک پہنچتے ہیں یعنی زیادہ فاصلہ طے کر بیٹھتے ہیں! سارا معاملہ عمل اور ذوق و شوقِ عمل سے بچنے کا ہے۔ اعتقاد کمزور پڑ جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شان الحق حقیؔ مرحوم نے خوب کہا ہے ؎
دل کی توفیق سے ملتا ہے سُراغِ منزل
آنکھ تو صرف نظاروں ہی میں کھو جاتی ہے!
کل بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ کی ایک خبر پڑھی۔ وہاں کسی گاؤں میں ''ککر دیو‘‘ کا مندر ہے۔ یہ مندر مقامی کسان مالا گھوری کے کتے کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اور مندر میں کتے کی پوجا کی جاتی ہے! لوگوں کا اعتقاد ہے کہ اس مندر میں کتے کے دیو ہیکل مجسمے کے آگے ماتھا ٹیکنے سے کالی کھانسی جاتی رہتی ہے!
توحید کا سبق اچھی نہ پڑھایا گیا ہو تو انسان ایسی ہی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا ہے۔ ہر بیماری ربِ لا شریک ہی کی پیدا کردہ ہے۔ اور اُسی نے علاج بھی پیدا کیا ہے۔ علاج کو چھوڑ کر محض اعتقاد کی بنیاد پر پوجا پاٹھ کرنے سے کیا ہوگا؟ راتوں رات سبھی کچھ حاصل کرنے کی خواہش یا ہوس انسان کو شارٹ کٹ تلاش کرنے کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں ضعفِ اعتقاد جنم لیتا ہے۔ اعتقاد کی کجی اور کمزوری انسان کو کتے کے خالق سے دور رکھتے ہوئے کتے تک محدود کردیتی ہے!