ہر طرف ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں خیال آتا ہے کہ جو ہونا ہے وہ ہو ہی جائے تو اچھا۔ ؎
کوئی کب تک دل اپنا جھوٹی اُمیدوں سے بہلائے
کہاں تک یہ اداکاری، جو ہونا ہے وہ ہو جائے!
اب یہ سوچنے بیٹھیے کہ کیا ہونا ہے جس کا ہو جانا ہی بہتر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ موت کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو ہوکر ہی رہنا ہے۔ جس طور ایک دن مرنا ہے اُسی طور ایک نہ ایک گھر بھی بسنا ہے۔ پھر اِس نیک کام میں دیر کیسی؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ لوگ دیر پر دیر کیے جاتے ہیں اور پھر روتے بھی ہیں کہ اب تک گھر بسا نہیں۔ جنہوں نے گھر بسانے کے معاملے کو ٹالتے رہنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہو اُنہیں لاکھ سمجھائیے، کوئی نہ کوئی بہانہ تراشتے ہوئے جھکائی دے کر صاف بچ نکلتے ہیں۔ اور عام طور پر بہانہ بھی وہی ہوتا ہے جو اللہ کی یاد اور دل کے سکون کے معاملے میں سنائی دیتا ہے۔ اگر کوئی شِکوہ کرے کہ دل کو سکون نہیں ملتا اور آپ کہیے کہ اللہ کو یاد کیجیے، دل کو سکون ملے گا تو جواب ملتا ہے ذرا دل کو سکون میسر ہو تو اللہ کو یاد کروں!
ہمارے احباب میں کئی ایسے ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر ہم اب تک رشک کرتے ہیں۔ قابلِ رشک ہونے کا سبب اُن کی کوئی غیر معمولی صلاحیت نہیں، محض شادی شدہ نہ ہونا ہے! اُنہیں دیکھ دیکھ کر ہمیں کئی زمانے یاد آتے رہتے ہیں۔ ہم اُن کی ''کیٹیگری‘‘ تبدیل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں مگر وہ ہیں کہ پکڑائی نہ دینے کا تہیّہ کیے بیٹھے ہیں! ہم تو یہ دلیل بھی دے چکے ہیں کہ گھر بس جائے گا تو کسی فارم کو پُر کرتے وقت unmarried کے خانے پر ٹِک کرتے وقت اِس ''درجۂ بلند‘‘ سے متعلق کوئی وضاحت پیش کرنے کی زحمت سے بھی بچ جاؤ گے!
ہم جب بھی احباب کو یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا سے ایک دن جانا ہے تو اور کچھ نہ سہی، شادی کا لڈو ضرور کھاکر جائیں، وہ اس حوالے سے ہماری ہر کوشش پر کسی نہ کسی بدگمانی کے باعث پانی پھیر دیتے ہیں۔ ایک بدگمانی تو یہ ہے کہ ہم شاید شادی شدہ افراد کے ''ایجنٹ‘‘ ہیں اور اُنہیں گھر بسانے کا مشورہ دے کر دراصل شادی شدہ افراد کی تعداد میں اضافہ یقینی بنانا چاہتے ہیں! شادی کا لڈو کھانے سے بچنے والوں کے ذہن میں شاید یہ خیال بھی ابھرتا ہے کہ ہم کسی بڑی طاقت کے خفیہ ''ایجنڈے‘‘ کے تحت اُن کے پیچھے پڑے ہیں! ہم ''بیانِ حلفی‘‘ کے ذریعے یقین دلاچکے ہیں کہ ہم نہ تو کسی کے ایجنٹ ہیں اور نہ ہی ہمارا کوئی خفیہ قسم کا ایجنڈا ہے مگر پھر بھی یارانِ سخت جان ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے، انکار کے محاذ پر ڈٹے رہتے ہیں! کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ اُنہیں فوج میں بھرتی کرادیں کیونکہ ایسی اولو العزمی کی وہاں زیادہ ضرورت پڑتی ہے!
شادی سے انکار کو حرزِ جاں بنائے رہنے والوں کی طرف سے کبھی کبھی یہ توجیہ سُننے کو ملتی ہے کہ بند ہو مٹھی تو لاکھ کی، کھل گئی تو خاک کی! یعنی ع
پھر دل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی
یہ توجیہ سن کر ہم یقین دلاتے ہیں کہ نہ ڈرو، ذرا شادی کرکے تو دیکھو۔ نکل نکل کر بھی حسرت نہ نکلے گی۔ یعنی معاملات ع
بہت نکلے مِرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
کی منزل میں پھنسے رہیں گے۔ یہ سن کر وہ اور بھی سہم جاتے ہیں!
ہم نے بعض خاصے غیر شادی احباب کو یہ کہتے ہوئے شادی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی کہ ''بیچلر‘‘ تو پیدائشی ہو، ذرا ''ماسٹرز‘‘ کی طرف بھی آؤ یعنی یہ کہ شادی کروگے تو نئی زندگی شروع ہوگی۔ اس پر جواب ملا کہ وہ نہیں چاہتے گزرے ہوئے زمانے ہاتھ سے جاتے رہیں۔ اس پر ہم نے قسمیں کھاکر یقین دلانا چاہا کہ بالکل فکر نہ کرو، گزرے ہوئے زمانے نہ صرف یہ حافظے سے حذف نہیں ہوں گے بلکہ یاد آ آکر اپنے وجود کا احساس دلاتے رہیں گے!
زمانے کی روش کچھ ایسی ہے کہ جنہوں نے بہت سے یارانِ سخت جان یعنی شادی کی طرف لے جانے والی شاہراہ سے ہٹ کر ''کچّے‘‘ میں سفر کرنے والوں نے شادی کے بعد کی زندگی کو مجموعۂ آلام سمجھ لیا ہے! (ویسے اُن کا گمان کچھ ایسا غلط بھی نہیں!)
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب کسی کو شادی پر مائل کرنا ہوتا تھا تو یہ کہتے ہوئے ''تحریک‘‘ دی جاتی تھی کہ قربِ قیامت ہے، قیامت کے برپا ہونے سے متعلق بیشتر پیش گوئیاں مکمل ہوچکی ہیں۔ اِس سے پہلے کہ دجّال کا فتنہ ظاہر ہو اور یاجوج ماجوج انٹری دیں، شادی کرلینے میں کچھ ہرج نہیں۔ یہ بہلاوہ بھی اب از کار رفتہ ہوا۔ حالات نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ آج شادی بجائے خود قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے!
کئی احباب نے (جنہیں ٹھکانے لگایا جاچکا ہے) بتایا کہ شادی پر مائل کرنے کے لیے اُن سے بھی یہی کہا گیا تھا کہ قیامت بس آنے ہی والی ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ سب کچھ ختم ہو جانے سے پہلے شادی کرلی جائے۔ شادی کرنے پر اُنہیں اندازہ ہوا کہ کچھ غلط نہیں کہا گیا تھا۔ شادی کے بعد اُنہیں قربِ قیامت پر غیر معمولی حد تک یقین آگیا کیونکہ شادی کے بعد سے وہ قیامت کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں!
ایک زمانہ تھا کہ فلمی گانوں کے ذریعے بھی گھر بسانے کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔ مثلاً ''مِرا یار بنا ہے دولھا اور پھول کھلے ہیں دل کے‘‘ یا پھر ''آج میرے یار کی شادی ہے‘‘ یعنی لوگ یار کی شادی میں جی بھر کے ناچتے تھے کہ شاید ایسا کرنے کے ''فیض‘‘ سے اپنا گھر بھی جلد بس جائے۔ سنگیتا نے تو ''عمریا بیتی جائے، کوئی رشتہ نہ آئے‘‘ کا المیہ راگ الاپ کر ایک اہم معاشرتی مسئلے کی نشاندہی بھی کی تاکہ لوگ گھر بسانے کے معاملے میں سنجیدہ ہوں! مگر پھر یہ ہوا کہ حسن جہانگیر جیسے لوگ ''شادی نہ کرنا یارو، پچھتاؤگے ساری لائف‘‘ جیسے مشورے کے ساتھ میدان میں آئے اور لوگوں کے دل دہلا دیئے!
عزیزی طالوت سے تو ہم نے یہ بھی کہا ہے کہ تم ضرور شادی کرلو کیونکہ تمہارا تو نام سنتے ہی قربِ قیامت کا اندازہ ہوتا ہے! مگر وہ بھی ''زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں! ہم نے بارہا سوچا ہے کہ آخر ایسا ہے جس کے مشاہدے کے باعث طالوت اور اُن کے ''ہم منصب‘‘ شادی کے لڈو کی لذت سے مجتنب رہنے کو غنیمت جانتے ہیں۔ بہت غور کرنے پر سمجھ میں آیا کہ شادی کی ''مارکیٹ ویلیو‘‘ خراب کرنے کے سب سے بڑے ذمہ دار ہم خود اور ہم جیسے وہ تمام شادی شدہ اصحاب ہیں جو اس ''کموڈٹی‘‘ کو ''لائف اسٹاک مارکیٹ‘‘ میں بیچنا چاہتے ہیں! گھر بسانے کے مرحلے سے گزرنے والے بیشتر افراد ایسے اَدھ مُوئے سے رہتے ہیں کہ ہزاروں، بلکہ لاکھوں میں پہچانے جاتے ہیں! اِن اَدھ مُوئے ''اصحابِ خانہ‘‘ ہی کو تو مثال بناکر کنواروں کو ورغلایا جاتا ہے کہ لوگ تمہیں خوش نہیں دیکھ سکتے اس لیے شادی کے جال میں پھنساکر تمہیں ایسا ہی اُدھ مُوا کرتے ہوئے اپنی صفوں میں دیکھنا چاہتے ہیں! مگر صاحب، کوئی ایسا جگرا کہاں سے لائے کہ گھر گرہستی میں الجھ کر بھی مسکرائے، گاتا جائے!
خیر، جس کی جیسی مرضی۔ ؎
وہ مان کر بھی نہیں مانتے تو کیا غم ہے؟
کمال ہم تو ''اگر‘‘ اور ''مگر‘‘ کے دیکھتے ہیں!