"MIK" (space) message & send to 7575

جب سامنے ہاتھی آجائے

رواں کے اوائل میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ویسے تو خیر اب کسی بھی بات پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے مگر پھر بھی کبھی کبھی کچھ ایسا ہو جاتا ہے تو کسی نہ کسی سطح پر ورطۂ حیرت میں ڈال ہی دیتا ہے۔ قصہ جنوبی افریقا کے ایک سفاری پارک کا ہے۔ ٹور گائیڈ ایلن میک اسمتھ نے وہ کر دکھایا جس کی کسی کو بھی توقع نہ ہوگی۔ 
سفاری یعنی سیاحوں کو پارک کی سیر کرانے کے دوران کھلے ماحول میں درندے اور جنگلی ماحول میں پلنے والے دیگر جانور کبھی کبھی خاصے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ایلن کے بھی ساتھ ہوا۔ سیاحوں کو پارک کی سیر کراتے کراتے ایک مرحلے پر ایلن ہاتھوں کے ایک جھنڈ کے سامنے آگیا۔ اور پھر ان میں سے ایک ہاتھی ذرا سا مشتعل ہوگیا۔ وہ ایلن کی طرف بڑھا مگر رک گیا۔ دوبارہ بڑھا اور دوبارہ بھی رک گیا۔ اور پھر اس نے زبانِ بے زبانی سے ایلن کو خدا حافظ کہتے ہوئے اپنی راہ لی۔ یوں چند لمحات کا عجیب و غریب تماشا ختم ہوا۔ 
ایک منٹ کی وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طور ہاتھی مشتعل ہوکر ایلن کی طرف بڑھا مگر رک گیا اور ایک بار پھر بڑھنے کے بعد بھی اس نے قدم روک لیے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ 
ایلن نے انتہائی ہمت کا مثالی مظاہرہ کرتے ہوئے ہاتھی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور ثابت قدم رہا یعنی اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔ یہ بات ہاتھی کے لیے یقینی طور پر بہت حیرت انگیز ہوگی۔ ایلن نے ہاتھی پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اس کے سامنے کوئی انسان نہیں بلکہ مجسمہ کھڑا ہے۔ اور اگر ہاتھی کو اس بات کا یقین نہ بھی آیا ہو تو ایک بات کا یقین ظاہر آگیا ہوگا کہ اس کے سامنے اگر جیتا جاگتا انسان بھی ہے تو کوئی ایسا ویسا ارادہ نہیں رکھتا یعنی نقصان پہنچانے کے موڈ میں نہیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ ہاتھی کے ذہن میں یہ نکتہ بھی ابھرا ہو کہ اگر کوئی بھاگ نکلنے کے بجائے اس کے سامنے کھڑا ہے تو ضرور اُس میں بھی دم خم ہوگا! 
بہر کیف، جو کچھ ایلن کو کرنا تھا وہ اس نے کیا۔ اب آپ تجزیہ کرتے رہیے، قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہیے۔ ایلن نے ایک بات اچھی طرح ثابت کردی کہ کسی بھی خطرناک صورتِ حال میں حواس کو بے قابو ہونے سے بچانا ہی اصل کامیابی ہے۔ صورتِ حال اگر مکمل طور پر مخالف ہو تب بھی حواس کو قابو میں رکھ کر معاملات کو اپنی مٹھی میں رکھا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنا ہی حقیقی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ مگر کم ہی لوگ ایسا کر پاتے ہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ یہ سب کچھ راتوں رات واقع یا رونما نہیں ہو جایا کرتا۔ کسی بھی خوبی یا وصف کو پیدا کرنے، پروان چڑھانے میں زمانہ لگتا ہے۔ ہم کسی بھی شعبے میں جو بھرپور کامیابی حاصل کرتے ہیں، جو نام کماتے ہیں وہ برسوں کی ریاضت کا پھل ہوتا ہے۔ 
ایلن نے جو کچھ کیا وہ اس امر کا مظہر تھا کہ اپنے سے کئی گنا بڑے حریف کو دیکھ کر بھی اگر تحمل سے کام لیا جائے، دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حواس کو قابو میں رکھا جائے تو بظاہر ناطاقتی بھی طاقت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ اگر انسان تحمل اور دانش سے کام لے تو جنگل کا جانور بھی اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اتنی بات تو وہ بھی سمجھتا ہے کہ اگر فریقِ ثانی جارحیت پر آمادہ نہ ہو، نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ اے کاش، انسان بھی یہ نکتہ ذہن نشین کرلیں یعنی فریقِ ثانی جارحیت پر تُلا ہوا نہ ہو تو مفاہمت اور امن پسندی کی راہ پر گامزن رہا جائے، تصادم سے یکسر گریز کیا جائے! 
ایلن نے ایک پریشان کن صورتِ حال میں جو حکمتِ عملی اپنائی وہ ایک روشن مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ ہر انسان کو مسائل کا انبار سامنے دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیے۔ گھبراہٹ بنتے ہوئے کام کو بھی بگاڑ دیا کرتی ہے۔ کوئی بھی مسئلہ کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے اور اُسے کئی مراحل میں منقسم عمل کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ 
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مسئلہ مست ہاتھی کی طرح اچانک ہمارے سامنے آجاتا ہے اور ہم حواس باختہ ہوکر بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔ عقل کا تقاضا یہی ہے مگر دانش کچھ اور کہتی ہے۔ کسی بھی صورتِ حال کا سامنا ہونے پر ہمارا فوری ردعمل عقل کے ماتحت ہوتا ہے۔ عقل کہتی ہے کسی نہ کسی طور جان بچاؤ۔ اگر حواس کچھ دیر تک قابو میں رہیں تو عقل بیک سیٹ پر جا بیٹھتی ہے اور دانش ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لیتی ہے۔ اور جب معاملات دانش کے ہاتھ میں ہوں تو خرابیاں مرحلہ وار ختم ہوتی جاتی ہیں اور اصلاحِ احوال کی صورت ابھرتی جاتی ہے۔ 
یہ سب ایسا آسان نہیں ہوتا جیسا دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی وصف کو پیدا کرنے اور پروان چڑھانے پر برسوں کی محنت صرف ہوتی ہے۔ آپ کے سامنے کوئی گلوکار آٹھ دس منٹ کا کوئی مشکل آئٹم بھی کتنی آسانی سے گا لیتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس آسانی کے لیے اُس نے کتنی مشکلات جھیلی ہوتی ہیں! کرکٹ بیٹ تھام کر آپ بھی پچ پر کھڑے ہوسکتے ہیں مگر جو کچھ ایک کہنہ مشق کرکٹر کرسکتا ہے وہ آپ نہیں کرسکتے۔ سیدھی سی بات ہے، وہ اگر اچھی اننگز کھیلتا ہے اور جاندار و شاندار شاٹس لگاتا ہے تو یہ اُس کی برسوں کی ریاضت کا پھل ہے، اور کچھ نہیں۔ آپ گائے کو ذبیحے کے لیے پچھاڑنے کا سوچتے ہی رہتے ہیں اور جدی پشتی، کہنہ مشق قصاب پلک جھپکتے میں سینگ سے پکڑ کر گائے کو گرانے کے بعد اُسے ذبح بھی کر ڈالتا ہے! یہ سب کچھ صرف اور صرف مشق اور مشقت کے بل پر ممکن ہو پاتا ہے۔ 
عقل کا دامن تھام کر مطمئن ہو رہنا سادہ لوحی کی انتہا ہے۔ عقل کے آستانے پر ماتھا ٹیکنے والے پاتے تو ہیں مگر بہت کم۔ زیادہ اُنہیں ملتا ہے جو عقل کی منزل سے گزر کر، ریاضت کے ذریعے، دانش کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ 
کسی مسئلے کا مست ہاتھی کی طرح اچانک سامنے آجانا محض انفرادی سطح کے معاملات میں نہیں ہوا کرتا، ریاستوں کو بھی ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور اس وقت پاکستان ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ ایک بار پھر عالمی و علاقائی حالات ایسے ہیں کہ ہمیں محض عقل کو بروئے کار نہیں لانا بلکہ دانش کا بھی مظاہرہ کرنا ہے۔ سفارت کاری اور عالمی معیشت کے گھنے جنگل میں ہمیں ایک بڑے ہاتھی کا سامنا ہے۔ اسلام آباد کے اہلِ حل و عقد کو اس ہاتھی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا ہے اور دیکھتے ہی رہنا ہے۔ جو کچھ ایلن نے کیا وہ اب اسلام آباد کو کرنا ہے۔ اب اِس کے نتیجے میں واشگنٹن، لندن، نئی دہلی، کابل یا کوئی اور ہاتھی ناراض ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ ہمیں صرف اتنا یاد رکھنا ہے کہ ہمیں ڈٹے رہنا ہے۔

کسی مسئلے کا مست ہاتھی کی طرح اچانک سامنے آجانا محض انفرادی سطح کے معاملات میں نہیں ہوا کرتا، ریاستوں کو بھی ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور اس وقت پاکستان ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ ایک بار پھر عالمی و علاقائی حالات ایسے ہیں کہ ہمیں محض عقل کو بروئے کار نہیں لانا بلکہ دانش کا بھی مظاہرہ کرنا ہے۔ سفارت کاری اور عالمی معیشت کے گھنے جنگل میں ہمیں ایک بڑے ہاتھی کا سامنا ہے۔ اسلام آباد کے اہلِ حل و عقد کو اس ہاتھی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا ہے اور دیکھتے ہی رہنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں