زندگی در حقیقت کتنی سادہ و معصوم واقع ہوئی ہے اور ہم اِسے کس قدر پیچیدہ بنانے پر کمر بستہ، بلکہ تُلے رہتے ہیں۔ دو اور دو چار ہوتے ہیں مگر ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ دو اور دو پونے چار یا سوا چار تو ہوسکتے ہیں، چار نہیں ہوسکتے۔ سب کچھ اپنی مرضی کا نہیں ہوسکتا۔ اور جہاں بھی اپنی مرضی کے خلاف کچھ اور ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہو وہاں لوگ پلک جھپکتے میں دو اور دو کو چار سے ہٹ کر کچھ بھی قرار دے بیٹھتے ہیں۔
تمام معاملات تو آپ کی مرضی کے ہو نہیں سکتے اس لیے لازم ہے کہ سمجھوتہ کرنے کا ہنر سیکھا جائے۔ یہ ہنر راتوں رات ہاتھ نہیں آتا، برسوں کی ریاضت سے سیکھنا پڑتا ہے۔ بھارتی ریاست بہار کے ضلع ویشالی میں حاجی پور کے رہائشی ارون نے اِس ہنر کا مظاہرہ خوب کیا ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ارون اور مدھو کی شادی دس سال قبل ہوئی تھی۔ دونوں کے دس بچے ہیں۔ یہ گھرانہ مجموعی طور پر سکون سے جی رہا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ارون کو وہم سا ہوا کہ مدھو کے کسی شخص سے ناجائز قسم مراسم ہیں۔ اس نے یہ سوچ کر زیادہ توجہ نہ دی کہ شوہر اور دو بچوں کے ہوتے ہوئے مدھو بھلا کیوں کسی بھی غیر مرد میں دلچسپی لینا چاہے گی۔ مگر پھر کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ پورا معاملہ خود بخود کھل کر سامنے آگیا۔ ثابت ہوگیا کہ ایک شخص سے مدھو کے تعلقات ہیں۔
یہ سب کچھ ارون کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھاگیا۔ کئی دن تک تو اُسے یقین ہی نہ آیا کہ اس کی بیوی دو بچوں کے ہوتے ہوئے کسی اور
میں بھی دلچسپی لے سکتی ہے۔ گھر کی عزت داؤ پر لگ جائے تو حواس اور جذبات تہس نہس ہو جاتے ہیں، دانش دور کسی کونے میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ دل و دماغ کو شدید اشتعال اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے معاملات میں مرد عام پر پھٹ پڑتے ہیں اور کچھ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ ارون بھی اگر بیوی کو مار ڈالتا یا اُسے اور بچوں کو مار کر خود کشی کرلیتا تو لوگوں کو انتہائی افسوس ضرور ہوتا، حیرت ذرا بھی نہ ہوتی۔ اپنی اچھی خاصی بسی بسائی دنیا کو اُجڑتی ہوئی دیکھ کر کسی بھی مرد کے حواس مختل ہوسکتے ہیں۔ مگر ارون نے ایسا کچھ نہ کیا۔ اُس نے خفیف سی بھی ''غصّگی‘‘ کا اظہار نہیں کیا، حواس کو قابو میں رکھا اور انتہائے دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملے کو اِتنے مدُھر طریقے سے منطقی انجام تک پہنچایا کہ کچھ دیر کے لیے تو خود مدھو بھی حیران و شرمندہ رہ گئی۔ ارون نے جب محسوس کرلیا کہ مدھو کسی کے سمجھائے نہیں مانے گی تو کمالِ ضبط کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اُس نے مدھو کو طلاق دے دی۔ اور جب یہ قانونی عمل مکمل ہوگیا تو اُس نے پہلی فرصت میں مدھو کو ساتھ لیا، فیملی کورٹ پہنچا اور مدھو جس میں دلچسپی لیتی رہی تھی اُسے بھی کورٹ پہنچنے کی دعوت دی۔ سول جج کے سامنے دونوں کو پیش کرکے اُس نے اُن کی کورٹ میرج کرادی! اور دونوں بچے بھی مدھو اور اس کے نئے شوہر کی تحویل میں دے دیئے!
حالات نے ارون کو ایسے دو راہے پر لا کھڑا کیا تھا جہاں سے وہ مکمل تباہی اور بربادی کی طرف بھی جاسکتا تھا۔ اگر وہ حواس پر قابو نہ رکھتا اور جذبات کو بھی کھلا چھوڑ دیتا تو اجتماعی قتل کی واردات منصۂ شہود پر آسکتی تھی۔ اِس دو راہے سے ارون اپنے وجود سمیت کئی افراد کی زندگی کے خاتمے کا بنیادی کردار بننے کے راستے کی طرف بھی جاسکتا تھا۔ اُس نے ایک انتہائی مشکل گھڑی میں اپنے پورے وجود پر ذہن کا تصرّف برقرار رکھا۔
پورے خطے کی نفسیات کو ذہن نشین رکھیے تو ارون کی طرزِ عمل بہت محتاط الفاظ میں بھی بے غیرتی کہلائے گی! ہمارے ہاں بیشتر قتل غیرت کے نام پر ہوتے ہیں۔ اور غیرت کی تعریف متعین کرنا انتہائی دشوار ہے کیونکہ ہر نسل، برادری اور ثقافت میں اس کا مفہوم کچھ اور ہے۔ طرزِ عمل کی پیچیدگی کے حوالے سے بہار انتہائی نمایاں ریاست ہے۔ بہار ہی سے متصل ریاست اتر پردیش ہے جہاں بیشتر رویّے انتہائی عجیب ہیں۔ یہ بات اور بھی حیرت انگیز ہے کہ بہار کی سرزمین پر بسے ہوئے شخص نے بیوی کے معاملے میں ایسی سُلجھی ہوئی طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے جو بہت سوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے کے لیے انتہائی کافی ہے۔
مرزا تنقید بیگ نے جب یہ خبر پڑھی تو انہیں بھی تھوڑی حیرت ہوئی۔ ہم نے جب ان سے اس خبر پر تبصرے کی فرمائش کی تو انہوں نے اپنی پسند کا موضوع ہاتھ آتے ہی فصاحت و بلاغت کا دریا بہانا شروع کیا ''میاں، بات یہ ہے کہ ارون نے وہی کیا جو کسی بھی ذی شعور انسان کو کرنا چاہیے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ محبت میں ناکامی پر یا کسی کی بے وفائی پر مرد خطرناک حد تک دل برداشتہ ہو جاتا ہے۔ اور لطف کی بات پر یہ ہے کہ فریقِ ثانی کی صحت پر کچھ خاص اثر نہیں پڑتا۔ یعنی معاملہ ون وے ٹریفک کے اصول پر چل رہا ہوتا ہے۔ ارون نے وہی کیا جو دانائی کی راہ پر گامزن کوئی بھی شخص کرنا پسند کرے گا۔ اگر بیوی کسی اور میں دلچسپی لے رہی تھی تو وہ اُس کی مرضی تھی۔ اب یہ کہاں کی دانش مندی ہوتی کہ وہ تو اپنی مرضی کی راہ پر گامزن رہتی اور شوہر بے چارہ خواہ مخواہ اپنے لہو کی آگ میں جلتا رہتا؟ جو معاملہ چلتا رہتا اور کَھلتا رہتا اُس پر ارون نے عدالت کی مدد سے خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے اپنی راہ لی۔‘‘
اور بچے؟ ... ہم نے استفسار کیا تو مرزا نے نکتہ آفرینی کا سلسلہ جاری رکھا ''اس معاملے میں بھی ارون نے مثالی دانائی کا مظاہرہ کیا۔ ہم آپ عمومی سطح پر مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب میاں بیوی لڑ بیٹھتے ہیں اور اپنی راہیں الگ کرتے ہیں تو بچے رُل جاتے ہیں۔ ارون نے اِس کی گنجائش بھی نہ چھوڑی۔ بچوں کی بہتر پرورش کس کی ذمہ داری ہے؟ ظاہر ہے، ماں کی۔ یہی سبب ہے کہ بچوں کی تحویل کے لیے معاملہ عدالت میں جاتا ہے۔ ارون نے عدالت سے رجوع کرنے کی گنجائش بھی ختم کردی۔ بچوں کو ماں کے حوالے کردیا تاکہ وہ اپنی نئی زندگی میں بچوں کو بھی نیا پن دے!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ بچوں کو یوں ماں کے حوالے کرنا تو سنگ دِلی کہلائے گی یعنی یہ کہ ارون کو بچوں سے محبت نہیں تھی!
اب تو مرزا بھڑک اٹھے ''اماں گھاس کھاگئے ہو کیا؟ جب بیوی نے بے وفائی کا راستہ چُن ہی لیا تو بچوں کو بھی ساتھ رکھے۔ ارون کیا الو کا پٹھا ہے کہ بیوی سے بھی محروم ہو اور بچوں کی ذمہ داری بھی سنبھالے؟ ویسے بھی ماں کے بغیر بچے بے قرار اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہتے۔ ارون نے یہ ٹنٹا بھی ختم کردیا۔‘‘
غور کرنے پر ہم نے بھی محسوس کیا کہ ارون نے عقلِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے بچوں کو ماں کے حوالے کیا۔ مدھو کو بھی کچھ دن میں لگ پتا جائے گا کہ جس کے لیے اُس نے شوہر کو چھوڑا وہ شخص اُس کے بچوں کو کس طرح اور کس حد تک اپناتا ہے! مدھو کے لیے ارون کا (خاصا قابلِ تقلید!) پیغام یہ ہے کہ ع
تو جہاں کہیں بھی جائے، مِرا پیار یاد رکھنا
اور ہاں، بچوں کو بھی ساتھ رکھنا!