پاکستان سمیت ہر پسماندہ اور واماندہ معاشرے میں سو طرح کے ناسور پائے جاتے ہیں۔ ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ہر طرف ایک دوڑ سی لگی ہے کہ کسی نہ کسی طور وہ سب کچھ حاصل کر لیا جائے جو سوچا جا سکتا ہے اور جو زندگی کا معیار قابلِ رشک بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ایسا سوچنے میں کچھ ہرج تو نہیں۔ یقینا نہیں۔ سوال سوچنے کا نہیں، کرنے کا ہے۔ ایک بڑا ناسور ہر اعتبار سے خطرناک ترین ہونے کے ساتھ ساتھ روز افزوں ہے۔ یہ ناسور ہے کچھ کیے بغیر سب کچھ پانے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا۔ یہ ناسور تن آسانی سے کئی درجے آگے یا اوپر کی چیز ہے۔ عرفِ عام میں اِسے ہڈ حرامی کہا جاتا ہے۔
ایک دور تھا کہ جب سرکاری ملازمت کو مجموعی اعتبار سے پرسکون ترین معاملہ تصور کیا جاتا تھا۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی یا کیل کی طرح ٹھونک دی گئی تھی کہ سرکاری ملازمت حاصل کیجیے اور لمبی تان کر سو جائیے۔ ایسا نہیں ہے کہ سرکاری مشینری کے تمام ہی پُرزے کوئی کام نہیں کرتے یا مفت کی روٹیاں توڑتے رہتے ہیں۔ یہ عمومی تاثر تھا کہ سرکاری نوکری میں کام کرنا نہیں پڑتا اور نوکری خطرے میں بھی نہیں پڑتی۔ اور پھر عمر بھر کی ہڈ حرامی کا صلہ ا پنشن کی شکل میں بھی ملتا رہتا ہے!
اب زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ سرکاری نوکری بے چاری اب ''امتیازی‘‘ حیثیت کی حامل نہیں رہی۔ جو مزے سرکاری نوکری میں ہوا کرتے تھے‘ وہ اب کہیں بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بیشتر بڑے نیم سرکاری اور نجی اداروں کی جاب بھی اب وہی مزا دیتی ہے جو سرکاری نوکری دیتی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر نے یہ کام اور آسان بنا دیا ہے۔ بظاہر جدید ترین اصولوں اور نظریات کی روشنی میں کام کرنے والا کارپوریٹ سیکٹر بھی ہڈ حرامی کے مزے لوٹنے والوں کو پالنے میں سرکاری شعبے سے کسی بھی طور پیچھے نہیں۔ یہ شعبہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والوں کو نوازنے اور کچھ کیے بغیر بہت کچھ پانے کی خواہش رکھنے والوں کو پروان چڑھانے میں اپنا حصہ ''کماحقہٗ‘‘ ڈال رہا ہے۔
بیشتر پسماندہ معاشروں کی مانند پاکستانی معاشرے کی عمومی روش بھی جمود اور عدمِ تحرّک سے عبارت ہے۔ نئی نسل کی تربیت میں اتنی بنیادی خامیاں پائی جاتی ہیں کہ اُن سے کسی بھی شعبے میں پرجوش اور فعال کردار ادا کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ نئی نسل جو کچھ دیکھ رہی ہے‘ عملی زندگی میں وہی تو کرے گی۔ آج کے نوجوان جب مشاہدہ کرتے ہیں کہ کام کیے بغیر بھی لوگ پنپ رہے ہیں، ہاتھ پیر ہلائے بغیر بھی زمانے بھر کی سہولتوں سے مستفید ہو رہے ہیں تو اُن میں کام کرنے کا جذبہ کیوں پروان چڑھے گا؟ اس کے برعکس، بہت سوں کو کسی جواز کے بغیر یعنی شبانہ روز محنت کی عدم موجودگی میں نہایت پرسکون و پرتکلف زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھ کر نئی نسل میں اپنی صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لانے اور ڈٹ کر محنت کرنے کی لگن دم توڑتی جاتی ہے۔
پورے من سے محنت نہ کرنے والے تو خیر دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ ایسے لوگوں سے پاک نہیں جو اپنے وجود کو زیادہ بروئے کار لائے بغیر دنیا بھر کی نعمتیں پانے کے لیے بے تاب و بے قرار رہتے ہیں۔ ''کند ہم جنس باہم جنس پرواز‘‘ کے مصداق پاکستانی معاشرہ بھی اپنے جیسے معاشروں کی بہت سی قباحتوں کو بخوشی گلے لگائے ہوئے ہے۔ اِسی روش کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اپنے وجود کو زیادہ گِھسے بغیر بہت کچھ پانے کی خواہش کو پروان چڑھانے والے ہمارے ہاں بھی کروڑوں میں نہیں تو لاکھوں میں ضرور ہیں۔
ستم یہ ہے کہ کوئی اپنی ''بے محنتی‘‘ پر شرمندہ نہیں ہوتا اور اِس سے بھی بڑھ کر یعنی ستم بالائے ستم یہ کہ بے محنت کے جیے جانے اور سارے مزے ڈکار جانے والوں کو لوگ ناپسندیدگی کی نظر سے بھی نہیں دیکھتے۔ جس روش کو کراہت کے ساتھ قبول کیا جائے اُسے ترک کرنے کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اگر کوئی روش بخوشی قبول کر لی جائے تو کوئی احمق ہی ہوگا جو اُسے ترک کرنے کا ذہن بنائے گا!
تن آسانی تک تو معاملات قابو میں رہتے ہیں۔ لوگ اگر کسی بھی کام کو آسان ترین طریقے سے کرنے کی کوشش کریں تو معاملہ بہرحال نبھ جاتا ہے مگر کام کرنے سے گریز کی روش تو کسی طور پسندیدہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ حقیقی تشویش کا پہلو یہ ہے کہ یہ بیماری بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کل تک ہڈ حرامی ''آپشنل‘‘ تھی، آج یہ ''ڈیفالٹ‘‘ ہوئی جاتی ہے! دوسروں کی دیکھا دیکھی کسی خصلت کو اپنانا اور بات ہے اور اُس خصلت کا سرشت میں جذب ہو جانا بالکل الگ بات! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی سماج میں ایسے لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے جو کچھ بھی کیے بغیر بہت کچھ، بلکہ سب کچھ حاصل کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے پر تُلے رہتے ہیں۔ انہیں تحریک ملتی ہے ایسے لوگوں سے‘ جو رات دن بے عملی کا مرقّع بنے رہتے ہیں مگر بظاہر کوئی بڑی الجھن اُن کے ''عزائم‘‘ کی راہ میں حائل نہیں ہوتی!
چھوٹی عمر سے محنت کی عظمت کا نقش دلوں پر بٹھائے جانے سے نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے زیادہ اچھی طرح تیار کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اُن میں احساسِ ذمہ داری بھی بھی بیدار کرنا لازم ہے تاکہ وہ معاشرے کے لیے اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہوں اور ان فرائض کو ادا کرنے سے پہلو تہی کے مرتکب نہ ہوں۔
محض بولنے سے محنت کا حق ادا نہیں ہو جاتا۔ ٹی وی ٹاک کو عمل یا محنت کا نعم البدل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کہنے اور کرنے کے فرق کو سمجھنا ہر ذی شعور پر فرض ہے۔ محنت کو شعار بنائے بغیر مسائل حل ہوتے ہیں نہ کوئی معاشرہ حقیقی معنوں میں پنپتا ہے۔
1947ء سے 1980ء تک پاکستانی معاشرے میں صلاحیت کو پروان چڑھانے اور پھر اُسے بروئے کار لانے کا رجحان خوب پھلا پُھولا۔ محنت، دیانت، اخلاص، کردار کی بلندی اور اخلاق کی بالیدگی واضح طور پر موجود تھی۔ مگر اب بہت کچھ داؤ پر لگتا دکھائی دیتا ہے۔ تن آسانی اور اُس سے بھی بڑھ کر ہڈ حرامی اب معاشرے کی سب سے نمایاں خصلت کی حیثیت سے ابھر رہی ہے۔
ہم سبھی ایک نیا پاکستان چاہتے ہیں مگر اپنے آپ کو نیا بنانے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا بدل گئی ہے۔ ہر ذی شعور معاشرہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو نبھانے کے لیے دن رات محنت کر رہا ہے۔ تعلیم اور تربیت‘ دونوں کے انداز اور مقاصد تبدیل ہو چکے ہیں۔ شخصی کارکردگی کا گراف زیادہ سے زیادہ بلند کرنے کے حوالے سے بہت کچھ کیا جا رہا ہے مگر اس حوالے سے ہمارے ہاں اب تک وہ سوچ ہی نہیں اپنائی جا سکی ہے جو اپنائی جانی چاہیے۔ محنت کو شعار بنانے اور ہڈ حرامی یا مفت خوری کی خصلت کو ترک کرنے تک کوئی بھی ایسی تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی جس پر رشک کیا جائے۔ دوسروں کی محنت پر ڈاکا ڈال کر اپنے لیے سہولتوں اور راحتوں کا اہتمام کرنے یعنی حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ پڑھنے کا رجحان اب منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ بہتر اور پُرلطف زندگی اُسی کا حق ہے جو اُس کے لیے محنت کرتا ہو، محنت کا حق ادا کرتا ہو۔ تن آسانی اور مفت خوری اگر سرکاری مشینری میں بُری ہے تو باقی ورک فورس میں بھی اِس قبیح عادت کا خاتمہ ہونا ہی چاہیے۔