حالات ہمیں ایک ایسے موڑ پر لے آئے ہیں کہ گزرے ہوئے زمانوں کا ایک ایک لمحہ جنت میں بسنے جیسا محسوس ہوتا ہے۔ ویسے تو خیر انسان فطری اعتبار سے کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ گزرے ہوئے ادوار اچھے ہی لگتے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو ماضی میں گم رہنا پسند نہیں کرتا؟ ماضی میں گم رہنا کیوں اچھا لگتا ہے؟ بات کچھ یوں ہے کہ ہر گزرتا ہوا دن اِس دنیا کو مزید پیچیدگی سے دوچار کرتا جاتا ہے۔ ہر دور چند ایک نئی باتیں، نئے رجحانات لے کر آتا ہے اور یوں زندگی بوجھل ہوتی چلی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی ذمہ داریوں اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ معاملہ انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر ایسے میں ہر گزرا ہوا دن یا گزرا ہوا زمانہ سہانے خواب جیسا محسوس ہوتا ہے۔
تاریخ کے ہر دور میں لوگ گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرکے رونے کے عادی رہے ہیں۔ دو تین صدیوں پہلے معاملہ واقعی یہ تھا کہ زندگی ناقابل یقین حد تک سادہ تھی۔ ایجادات و اختراعات کی لہر نہیں اٹھی تھی۔ دو دو تین صدیوں تک کچھ بھی یا کچھ خاص تبدیل نہیں ہوتا تھا۔ زندگی کی قلمرو میں دور دور تک سادگی کا دور دورہ ہوا کرتا تھا۔ ایسے میں بھی گزرا ہوا زمانہ اچھا لگتا تھا کیونکہ کبھی کبھی کسی ملک پر قبضے کی کوشش میں جنگ و جدل کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا جو چار پانچ عشروں تک جاری رہتا تھا۔ ایسے میں معاشروں میں اچھی خاصی اکھاڑ پچھاڑ واقع ہوجایا کرتی تھی۔ یوں لوگ اپنے گزرے ہوئے زمانوں یعنی امن و آشتی کے ادوار کو یاد کرکے دل بہلایا کرتے تھے۔ اگر ہم اُن زمانوں کا جائزہ لیں تو تھوڑی سی حیرت ہوتی ہے کیونکہ جنگ و جدل کے سوا معاشروں میں کوئی بھی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہوتی تھی۔ مجموعی طور پر تمام زمانے ایک سے ہوا کرتے تھے۔ ایسے میں اگر ہم آج کے زمانے کا سو سوا سو سال یا پھر چار پانچ عشروں پہلے کے زمانے سے موازنہ کرکے دیکھیں تو دل و دماغ کی چُولیں ہلتی ہوئی محسوس ہوں گی۔ جس نے 1970 کے عشرے تک کا پاکستان اچھی طرح دیکھا ہو یعنی بہت کچھ اچھی طرح یاد ہو اُسے موجودہ زمانہ کسی کی بددعا جیسا محسوس ہوگا!
1980 کے بعد سے اب تک سب کچھ اتنی تیزی سے اور اس حد تک تبدیل ہوا ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کی شاید ہی کوئی بڑی خصوصیت سلامت رہ پائی ہو۔ کچھ تو ٹیکنالوجی کا کمال کہیے اور کچھ لوگوں کی بے حِسی کو داد دیجیے کہ ہر اچھی بات کو زندگی سے کھرچ کھرچ کر پھینکا جارہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس زیاں پر افسوس بھی نہیں۔ ع
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور معاملہ بھی ہے جو ہماری نفسی ساخت کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہ ہے اِس بات کا رونا کہ لوگ بدل گئے ہیں۔ آج کا تقریباً ہر انسان یہ شِکوہ کرتا دکھائی دیتا ہے کہ لوگ بہت بدل گئے ہیں۔ جسے دیکھیے وہ روّیوں کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ لوگ بدل گئے ہیں؟ لوگوں سے کیا مراد ہے؟ کیا ہم خود لوگ نہیں؟ کیا ہم لوگوں سے ہٹ کر کچھ ہیں؟ اگر لوگ بدل گئے ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ ہم خود بھی بدل گئے ہیں۔
معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ اور افراد کہیں سے نہیں آتے، ہم آپ میں سے ابھر کر معاشرے کا حصہ بنتے ہیں۔ یعنی ہم اور آپ ہی معاشرہ ہیں یا معاشرہ بناتے ہیں۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ معاشرہ خراب تو ہم خراب، معاشرہ اچھا تو ہم اچھے۔ اس نکتے کو گھمائیے تو یوں کہا جائے گا کہ ہم اچھے تو معاشرہ اچھا اور ہم خراب تو معاشرہ خراب۔ جب ہم کہتے ہیں کہ لوگ اچھے تھے تو دراصل یہ بیان دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم اچھے تھے۔ بات اتنی سی ہے کہ معاشرہ ہمارا عکس ہے اور ہم معاشرے کا۔
جب ہم اعلیٰ اقدار کے معترف اور پابند تھے تب ہم زندگی کا معیار بلند کرنے پر خاطر خواہ توجہ دیتے تھے۔ اور پھر اس کا نتیجہ بھی دکھائی دیتا تھا۔ جب تک ہم ایک دوسرے کو اپناتے تھے تب تک سب کچھ اچھا تھا۔ اقدار کو زندگی کا جزو بنائے رہنا جب تک ہماری ترجیحات میں شامل تھا تب تک زندگی رواں دواں تھی، معاشرہ مجموعی طور پر شادمانی سے مُزیّن تھا۔ جب ہم اچھے تھے تو ماحول میں سبھی کچھ اچھا تھا۔ مثبت ماحول میں سبھی کچھ مثبت اور مفید ہوتا ہے۔ پینتیس چالیس سال پہلے کا پاکستانی معاشرہ آج کے معاشرے کے مقابلے میں اس قدر ''خیر یافتہ‘‘ تھا کہ اب اُس دور کے بارے میں سوچیے تو یقین ہی نہیں آتا کہ ہم خود اُس دور سے گزر کر، نکل کر یہاں تک پہنچے ہیں! یاد کرکے اور سوچنے سے حیرت ہوتی ہے کہ کبھی ہم میں بھی خیر کا گراف اِتنا بلند تھا!
سب کچھ اگر بہت بدل گیا ہے تو یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ آپ، ہم سبھی بہت بدل گئے ہیں۔ اور بدل کیا گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہم بگڑ گئے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ہم ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کی قبیح عادت کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ معاشرے میں جو بھی بگاڑ پیدا ہوا ہے اُس کے ذمہ دار ہم سبھی ہیں کیونکہ معاشرہ ہم تمام انسانوں سے مل کر بنا ہے، نباتات و جمادات کے مجموعے کو معاشرہ نہیں کہا جاتا۔
ایک دوسرے میں خیر تلاش کرنے اور ایک دوسرے کا بھلا چاہنے کی روش بھی ہم ہی میں تھی۔ اور یہ کہانی کوئی ہزار بارہ سو سال پہلے کی نہیں، محض تیس چالیس سال پہلے کی ہے۔
1980 کے عشرے میں ریڈیو پاکستان نے ایک قومی نغمہ شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا تھا۔ نغمہ نگار نے مطلع میں کمال کی بات کہی تھی اور کسی نے طنز کیا نہ تمسخر اڑایا۔ مطلع یہ تھا ؎
پاکستان کے ہر گوشے میں ہنستے بستے لوگ ملیں
دِیے جلیں آنکھوں کے اندر، بات کریں تو پھول کِھلیں
کوئی تمسخر کیوں اُڑاتا؟ اِس میں ایسا غلط کیا تھا؟ پاکستان ویسا ہی تو تھا جیسا اِس مطلع میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر جب زمانے کی ہوا لگنے پر سب کچھ داؤ پر لگا تو عزمؔ بہزاد مرحوم نے محض ایک شعر میں معاشرے کا نوحہ پڑھ دیا۔ اور مصرعِ ثانی میں جو بات کہی گئی ہے وہ کسی شاعر ہی کے ذہن میں اُبھر یا سما سکتی تھی۔ عزم کہہ گئے ؎
کہاں گئے وہ لوگ دِلوں میں پُھول کِھلانے والے
آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے!
دِلوں میں پُھول کِھلانے والے، آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے کسی اور دنیا سے نہیں آئے تھے اور ہم سے ہٹ کر بھی نہ تھے۔ یہ ہم ہی تھے۔ نِیت میں اِخلاص پایا جاتا ہو تو سب ایک دوسرے کے لیے مفید ہوتے ہیں، خیر کا منبع و مخزن ہوتے ہیں۔ ؎
یہ کس کو دیکھ کر دیکھا ہے میں نے بزمِ ہستی کو
کہ جو شے ہے نگاہوں کو حسیں معلوم ہوتی ہے
زمانہ کہیں گیا ہے نہ لوگ ہوا ہوئے ہیں۔ سب کچھ یہیں ہے، بس یہ ہے کہ ہم نے وقت کی گرد کو اپنے وجود پر سے جھاڑتے رہنے کی روش ترک کردی ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ہم کہ نغمہ بار تھے، صرف نوحہ و گریہ کی منزل میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔