نہ جانے کیا مصیبت پڑ گئی ہے یا کس کی بددعا ہے کہ کام کی ہر بات پیچھے رہ گئی ہے۔ ہر لایعنی بات کو سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے اور جن باتوں کا زندگی کا معیار بلند کرنے سے انتہائی بنیادی تعلق ہے‘ انہیں کونوں کھدوں میں بیٹھے رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ انسان نے بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی ہے اور بہت حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آں سمجھا تھا میں
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں
دنیا بھر کے ماہرین نفسیات اپنی سی کوشش کر رہے ہیں کہ احساسات اور جذبات کو سمجھنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی جائے۔ اس دنیا کو رہنے کے قابل بنائے رکھنے کے لیے ایسا کرنا لازم ہے مگر ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس حوالے سے تمام کوششیں کسی اور دائرے میں کی جا رہی ہیں۔ جو کچھ جہاں ہونا چاہیے بس وہیں نہیں ہے، باقی ہر جگہ ہے۔
جانوروں کو جذبات کے سمجھنے کی تربیت دی جاتی رہی ہے اور اِس کے خاصے حوصلہ افزا نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ ایک بڑی تبدیلی، بلکہ ماہرین نفسیات کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ جانور انسان سے خاصی قربت اختیار کر چکے ہیں۔ کتوں اور بلیوں جیسے پالتو جانوروں کے ساتھ ساتھ شیر، چیتے اور بھالو جیسے درندوں کو بھی تربیت دے کر انسان کے جذبات سمجھنے کے قابل بنایا جا چکا ہے۔ سرکس سے ہٹ کر نجی سطح پر بھی بہت سے درندے اب انسانوں کے درمیان خوش اسلوبی سے سکونت پذیر دکھائی دیتے ہیں۔
معاملہ جانوروں تک محدود نہیں رہا۔ ماہرین نے سینسرز کی مدد سے ایسے روبوٹس بھی تیار کیے ہیں جو انسانوں کے جذبات کو حیرت انگیز حد تک سمجھتے ہیں۔ اس صلاحیت کی بنیاد پر اب انسان اور روبوٹ کا ساتھ ساتھ رہنا، بہترین ڈھنگ سے اشتراکِ عمل کی منزل تک پہنچنا ممکن ہوگیا ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا اور یورپ کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں انسان اور روبوٹس کا ساتھ نمایاں ہو چلا ہے۔ روبوٹس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا، ان سے کام لینا انسانوں کو زیادہ آسان لگتا ہے۔ انہیں مشینی انداز کے خادم درکار ہیں جو دی ہوئی ہدایات پر عمل کریں، بے تکے سوالات یا انکار کے ذریعے پریشان نہ کریں۔
بازار میں ایسی کاریں بھی دستیاب ہیں جو خودکار نظام کے تحت کام کرتی ہیں یعنی انہیں چلانے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ پوری گاڑی میں سینسرز لگے ہوتے ہیں جو گاڑی کی حرکات و سکنات کو عمدگی سے کنٹرول کرتے ہیں اور حادثات کو ٹالنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں مگر شاید یہ کافی نہ تھا۔ اب برطانیہ کے ماہرین نے ایک ایسی کار تیار کی ہے جو ڈرائیونگ سیٹ میں بیٹھے ہوئے مرد یا عورت کے جذبات کو سمجھنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ الٹرا نوعیت کے سینسرز ڈرائیور کے موڈ میں رونما ہونے والی تبدیلی کو برق رفتاری سے سمجھتے ہیں اور اِس تبدیلی کے مطابق گاڑی کی مجموعی کارکردگی کو بھی تبدیل کرتے ہیں۔ گاڑی کی ونڈ سکرین اور کھڑکیاں گاڑی کی اندرونی و بیرونی روشنیوں کا رنگ تبدیل کرنے کی بھی اہلیت رکھتی ہیں مگر اِس سے کہیں بڑھ کر گاڑی کے اندر لگے ہوئے جدید ترین سائیکالوجیکل سینسرز ڈرائیور کے موڈ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگاتے اور یوں گاڑی کو موڈ کے مطابق رواں رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
انسان نے کیا طے کر رکھا ہے‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں، اندازہ بھی نہیں۔ ماہرین زمانے بھر کے موضوعات پر خاک چھانتے رہتے ہیں، تفکر کی گہرائیوں میں پڑے رہتے ہیں اور پھر عمل کی وادیوں میں بھٹکتے ہیں۔ جانوروں کو سکھایا جا رہا ہے کہ انسان کو کیسے اور کہاں تک سمجھنا ہے۔ بے جان مادّے سے بنائے جانے والے روبوٹس اور گاڑیوں تک کو سینسرز کی مدد سے اس قابل بنایا جا رہا ہے کہ انسان کو کسی نہ کسی حد تک ضرور سمجھ لیں۔ ابھی خدا جانے اور کون کون سی چیزیں ہیں جنہیں انسان کے جذبات کے سمجھنے کی طرف لایا جائے گا۔ ماہرین کو اگر فکر لاحق نہیں ہے تو صرف اس بات کی کہ انسانوں کو ایک دوسرے کے جذبات سمجھنے کے قابل بنایا جائے!
کیا ماہرین نفسیات ہار مان چکے ہیں؟ کیا وہ تسلیم کرچکے ہیںکہ انسانوں کو انسانوں کے جذبات سمجھنے کے قابل بنانا اُن کے بس کی بات نہیں؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ انسان ایک دوسرے کو سمجھے بغیر معیاری اور پرسکون زندگی بسر کرنے قابل ہو جائیں؟ کیا اتنا کافی ہے کہ پالتو جانور، درندے، روبوٹس، دوسرے آلات اور گاڑیوں کو جذبات کے ادراک سے مزیّن کر دیا جائے؟ نفسیاتی امور کی یہ کیسی تحقیق ہے جو انسانوں کو انسانوں سے دور کر رہی ہے اور حیوانات و بے جان اشیاء کو قریب لا رہی ہے؟
ایسے ہی اور بھی بہت سے سوالات ہیں جو ذہنوں میں ابھرتے ہیں اور جواب نہ ملنے پر حافطے کی بھول بھلیّوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین نفسیات انسانوں کے ماحول میں جانوروں اور بے جان اشیاء کو عمدگی سے داخل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تحقیق اس نکتے کے گرد گھوم رہی ہے کہ انسانوں کو انسانوں سے بچاتے ہوئے کسی طور زندگی بسر کرنے کے قابل بنایا جائے۔ جانوروں کو مختلف تجربات کے ذریعے یہ سکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فلاں فلاں معاملے کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوجائو تاکہ انسانوں میں ڈھنگ اور آسانی سے رہ سکو۔ یہی معاملہ روبوٹس اور دوسری بہت سی بے جان اشیاء کا بھی ہے۔ ان میں جدید ترین سینسرز نصب کرکے انسانوں کو بہتر انداز سے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی جا رہی ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ بیوی کے جذبات میاں یا میاں کے جذبات بیوی سمجھے نہ سمجھے، گھر اور گاڑی کا روبوٹ ضرور سمجھے!
کیا یہی وہ سب کچھ ہے جسے انسان کا ''درجۂ کمال‘‘ قرار دیجیے؟ کم و بیش تین ہزار سال سے انسان اِس دنیا کا معیار بلند کرنے کے لیے سرگرداں رہا ہے۔ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ دنیا کو زیادہ سے زیادہ ''قابلِ سکونت‘‘ بنایا جائے۔ یہ دنیا انسانوں کے درمیان تفاعل سے چلتی ہے۔ ہر دور کا انسان یہی سوچتا آیا ہے۔ ہر عہد کے دانشوروں نے یہ نکتہ ذہن نشین رکھا ہے کہ اگر اِس دنیا کو مثالی بنانا ہے تو انسانوں کو ایک دوسرے کے ادراک اور تفہیم کے قابل بنانا پڑے گا مگر ایسا لگتا ہے کہ عہدِ حاضر کے ماہرین نفسیات نے طے کر لیا ہے کہ انسان کو انسان کے لیے ناگزیر سمجھنے کی ذہنیت سے یکسر کنارہ کرنا ہے اور انسانی ماحول میں یا تو حیوانوں کی توقیر کا اہتمام کرنا ہے یا پھر مشینوں کی۔ سوچنے کا یہ انداز اب خوب کُھل کر گُل کِھلا رہا ہے۔
دنیا بھر کے مفکرین کو یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کے لیے بہت کچھ ضروری ہے مگر سب سے زیادہ ضروری ہے خود انسان۔ روئے ارض کے بنیادی و مرکزی مکین انسان ہیں۔ یہ درجہ حیوانات کو دیا جا سکتا ہے نہ جدید ترین مشینوں کو۔ کمپیوٹرز اور روبوٹس کتنی ہی ترقی کر جائیں، حتمی تجزیے میں یہ بات بھلائی نہیں جا سکتی کہ یہ ترقی اُنہیں انسان نے دی ہے۔ کام کی بات یہ ہے کہ انسان کو انسان کے لیے زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول بنانا ہے۔ اگر کام کی یہ بات ذہنوں سے محو ہوئی تو سمجھ لیجیے ہم سب گئے کام سے!