کم و بیش 6 دن تک اہلِ کراچی خلجان میں مبتلا رہے۔ رہنا ہی تھا۔ شہر کے بالکل اصلی اسٹیک ہولڈرز میں اندرونی کشمکش نقطۂ عروج پر تھی جو یقیناً ہر اُس شخص کے نزدیک انتہائی تشویشناک تھی جو شہرِ قائد کے لیے سوچنے کا عادی ہو۔ میڈیا والے اس دوران بہادر آباد اور پیر الٰہی بخش کالونی کے درمیان شٹل کاک بنے رہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ اہلِ ایماں کی مانند صورتِ خورشید اِدھر ڈوبے تو اُدھر نکلے اور اُدھر ڈوبے تو پھر اِدھر آ نکلے۔
ایم کیو ایم کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والوں کی حالت تو اُس دیگ کی سی ہوگئی تھی جسے دم پر رکھا گیا ہو۔ اضطراب تھا کہ بڑھتا جاتا تھا۔ بے یقینی تھی کہ دم توڑنے کا نام نہ لیتی تھی۔ فریقین نے درجنوں بار میڈیا سے بات کی مگر میڈیا اور عوام کو وہ بات سُنائی نہ دی جس کی وہ آس لگائے ہوئے تھے۔ الفاظ کی بُھول بُھلیّوں میں عوامی مسائل سمیت کام کی بات ہر بات گم ہوکر رہ گئی۔ یعنی اصلی بات کا ڈبّا گول کردیا گیا!
بہر کیف، شہر کے اصلی اسٹیک ہولڈرز کے آپس کے اختلافات نے پنپ کر کسی حد تک تصادم کی سی شکل اختیار کی تھی جس کے باعث وہ سب کچھ رونما ہوا جس نے اہلِ شہر کو 6 دن تک قبض کی سی کیفیت سے دوچار رکھا۔ روزانہ کوئی نہ کوئی ایسی نئی بات ضرور سننے کو ملتی تھی جو حیرت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ پریشانی کا گراف بھی مزید بلند کرتی تھی۔ اس حوالے سے ہمیں غالبؔ کے کسی خط میں درج شعر یاد آیا ؎
روز اِس شہر میں اِک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے!
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کے درمیان جو کچھ بھی ہوا وہ اس جماعت سے حقیقی ہمدردی رکھنے والے تمام افراد کے لیے شدید پریشانی اور تشویش کا باعث تھا۔ کم و بیش تین عشروں سے شہر میں انتہائی نمایاں مینڈیٹ رکھنے والی جماعت جس کیفیت سے گزر رہی ہے وہ افسوسناک ہی نہیں، پریشان کن بھی ہے۔ افسوسناک یوں کہ تین عشروں کے دوران شہرِ قائد کی نمائندگی کا فریضہ ادا کرنے والی جماعت کی بنیادیں متزلزل ہوچکی ہیں۔ شکست و ریخت کا عمل اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی لاکھ کوشش کرے، انکار نہیں کرسکتا۔ بے اعتمادی کی فضاء دن بہ دن توانا تر ہوتی جارہی ہے۔ اور پریشان کن یوں کہ کئی گِدھ ہیں جو ready to go کی حالت میں ہیں۔ شہر کے حقیقی اسٹیک ہولڈرز کا اعزاز پانے والوں کے پیروں تلے سے زمین سرک رہی ہے یا سرکائی جارہی ہے تو کئی ایک ایسے بھی ہیں جن کے منہ سے خلاء کو پُر کرنے کے تصوّر ہی سے رال ٹپک رہی ہے۔
جو امیدوں سے بھرے تھے وہ پُرامید نظروں سے صورتِ حال کو دیکھ اور پرکھ رہے تھے اور جنہیں پریشان ہونے سے غرض تھی کہ وہ یہ سوچ سوچ کر ادھ مُوئے سے ہوئے جارہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بند ٹوٹ جائے اور ریلے اِس طور چڑھ دوڑیں کہ معاملات کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہ رہے۔ کراچی میں متحرک دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس صورتِ حال سے خوش کم اور حیران زیادہ تھیں۔ گورنر سندھ کو بھی کہنا پڑا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی اندرونی کشمکش سے شہر متاثر نہیں ہوگا۔ دوسری طرف سندھ کے وزیر اعلٰی سید مراد علی شاہ نے خاصا محتاط بیان دیا کہ انہیں ایم کیو ایم کی اندرونی کشمکش اور شکست و ریخت کے بارے میں جان کر خوشی نہیں ہوئی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم کو پی ایس پی سے اشتراکِ عمل کرلینا چاہیے۔
رابطہ کمیٹی کے تقریباً 90 فیصد ارکان ایک طرف تھے۔ عامر خان، عبدالرؤف صدیقی، خالد مقبول صدیقی، فیصل سبزواری، وسیم اختر، بیرسٹر فروغ نسیم، سید سردار احمد، محترمہ نسرین جلیل اور ایم کیو ایم کی دیگر نمایاں شخصیات بہادر آباد کیمپ میں تھیں۔ یہ کیمپ خاصا مضبوط دکھائی دے رہا تھا۔ دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ بڑے اور معروف چہرے کم تھے۔ جھگڑا بظاہر کامران ٹیسوری کو سینیٹ کے لیے نامزد کرنے کے معاملے پر ہوا۔ فاروق ستار کہتے رہے کہ جھگڑا کامران ٹیسوری کا نہیں بلکہ ان کی قیادت کا ہے۔ یعنی کچھ لوگ ان کی قیادت کو برداشت نہیں کر پارہے۔ دوسری طرف رابطہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ سینیٹ کے لیے پارٹی ٹکٹ دینے کا اختیار فاروق ستار کو نہیں بلکہ پارٹی آئین کی رُو سے رابطہ کمیٹی کو ہے۔ اور یہ کہ فاروق ستار صرف توثیق کریں گے۔
فاروق ستار کی پوزیشن بظاہر ایسی مضبوط نہ تھی کہ وہ بہادر آباد کیمپ کو زیادہ پریشان کرسکتے، ہلا سکتے مگر اس کے باوجود کچھ ایسا ہوا جس نے رابطہ کمیٹی کو الیکشن کمیشن والا خط واپس لینے پر مجبور کیا اور یہی نہیں، بلکہ فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کے ارکان کو بلا اجازت اجلاس منعقد کرنے پر اظہارِ وجوہ کے نوٹس بھی جاری کیے۔
کباب میں ہڈی کہیے یا فساد کی جڑ، حقیقت یہ ہے کہ کامران ٹیسوری ہی کے باعث ایم کیو ایم کی صفوں میں انتشار پھیلا ہے۔ فاروق ستار نے پارٹی کی کریم کو ایک طرف ہٹاکر کامران ٹیسوری کے معاملے میں رِٹ دکھائی اور پھر اُن کی رِٹ کو رابطہ کمیٹی نے بھی تسلیم کیا۔ سیاست کا میدان بھی جادو نگری سے کم نہیں ہوا کرتا۔ جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ عموماً دکھائی نہیں دیتا۔ ایم کیو ایم کی تازہ ترین اندرونی کشمکش کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ والی صورتِ حال بار بار جلوہ گر ہوتی رہی۔ اور بالآخر وہ ہوا جس کا کسی کو زیادہ گمان یا اندازہ نہ تھا۔ رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو کنوینر کے منصب سے ہٹانے کا اعلان کردیا اور دوسری طرف فاروق ستار نے جوابی پریس کانفرنس میں کہا کہ ایم کیو ایم حقیقی پارٹ ٹو کی آمد ہے!
عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ تب ایم کیو ایم کیا کرے گی یہ سوچ کر کراچی میں وہ تمام لوگ پریشان ہوئے جاتے ہیں جنہیں شہر کے حقیقی نمائندوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ اگر ایم کیو ایم کی صفوں میں انتشار بڑھا اور دھڑے قائم کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو شہر کا مینڈیٹ بری طرح تقسیم ہوگا اور یہ بات شہر اور اہلِ شہر کے حق یا مفاد میں ہرگز نہ ہوگی۔
لگتا ہے مقتدر حلقوں کا نادیدہ ہاتھ ایم کیو ایم کی دکھتی رگوں پر ہے۔ ایم کیو ایم کا ماضی اب اس کے حال کو بے حال کرکے مستقبل پر خطرناک حد تک اثر انداز ہو رہا ہے۔ اور اِس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ پارٹی میں اختیارات کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
کراچی کا بلدیاتی کنٹرول ایم کیو ایم کے لیے اصلاحِ احوال کا سنہرا موقع ہے مگر اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بظاہر کوئی بھی تیار نہیں۔ ساری توجہ اپنے اپنے ذاتی اسٹیکز کو مضبوط کرنے پر مرکوز ہے۔ اہلِ شہر ترستے ہی رہے کہ اس تازہ جھگڑے کے دوران مفادِ عامہ سے متعلق کوئی بات بھی کی جاتی۔ ہزاروں گھرانے چائنا کٹنگ مافیا کے ہاتھوں لُٹے ہیں مگر اِس بحران کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ شہر بھر میں صفائی کا نظام انتہائی ابتر ہے مگر کسی نے اس حوالے سے کوئی بات نہ کی۔ کارکردگی بہتر بناکر دل جیتنے کا ایم کیو ایم کے پاس یہ شاید آخری موقع ہے۔ دیکھیے، اس موقع سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا نہیں۔