"MIK" (space) message & send to 7575

… ایسی بھی کیا بے اعتمادی!

خواہشات کی غلامی اختیار کرنے کے بعد انسان کے دل و دماغ کی حالت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ ہمارے ہاں ایسے ''غلامانِ خواہش‘‘ کی کمی نہیں جو راتوں رات بہت کچھ یا سب کچھ پانے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو خیر ملک بھر میں ملک سے دل نہ لگانے اور ملک سے باہر جاکر کچھ کر دکھانے کی شدید خواہش والی بیماری پائی جاتی ہے مگر اس معاملے میں پنجاب کے بعض علاقے بازی لے گئے ہیں۔ گجرات، منڈی بہائو الدین اور دوسرے بہت سے چھوٹے شہروں اور قصبوں کے نوجوان دستیاب وسائل سے کسی بھی سطح پر مطمئن نہ رہتے ہوئے ہر وقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور ملک سے باہر جائیں اور ڈھیروں دولت کمائیں۔ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد سے گزرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ گزشتہ دنوں لیبیا سے غیر قانونی تارکین وطن کو لے کر یورپ روانہ ہونے والی ایک کشتی ڈوبی تو موت کے گھاٹ اترنے والوں میں 16 یا 18 پاکستانی نکلے۔ اسماعیل اس کشتی میں اہلیہ عظمت بی بی، پانچ سالہ بیٹے سعد اور شیر خوار فاطمہ کے ساتھ تھا۔ سب کے سب جان سے گئے۔ بدنصیب کشتی کے بدنصیب پاکستانی مسافروں میں قاسم بیگ، بابر شبیر، مظہر حسین، نعمان اور اکرام الحق بھی شامل تھے۔ 
گجرات، منڈی بہائو الدین اور دیگر قریبی شہروں، قصبوں میں انسانی اسمگلرز دھڑلّے سے کام کر رہے ہیں۔ ان علاقوں کے نوجوان کسی نہ کسی طور یورپ یا امریکا جانے کے شدید خواہش مند ہیں اور ان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے نام پر جمع پونجی بٹور کر فرار ہونے والے ایجنٹس یعنی انسانی اسمگلرز فعال ہیں۔ یورپ لے جانے کی باتیں کرنے والے ایجنٹس سادہ لوح نوجوانوں کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ وہ چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جس میں سادہ لوح نوجوانوں کو سب کچھ اچھا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ ایجنٹس یہ تاثر دیتے ہیں کہ آؤٹ آف دی وے جاتے ہوئے یورپ پہنچنا کوئی بہت مشکل یا ناممکن بات نہیں۔ ڈھیروں دولت کمانے کے خواہش مند نوجوانوں کو انسانی اسمگلرز یقین دلاتے ہیں کہ یورپ جانا اور وہاں چند ہی برس کی محنت سے اپنے وطن میں آئندہ تین چار نسلوں کے لیے بھرپور خوش حالی کا اہتمام 101 فیصد ممکن ہے! 
اپنے وطن میں کچھ بھی کرنے سے گریزاں اور کسی نہ کسی طور یورپ پہنچ کر راتوں رات سب کچھ پالینے کے خواہش مند اگر صرف اپنے وجود کو داؤ پر لگائیں تو کوئی بات نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ نوجوان باپ کی جمع پونجی سمیٹنے کے ساتھ ساتھ ماں کا زیور، مکان اور دیگر املاک بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے میں 15 سے 20 لاکھ روپے بھی لگ سکتے ہیں۔ اتنی بڑی رقم کے لیے کئی نوجوان باپ کا مکان یا زرعی زمین تک داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ گھر کا سامان، زیور یا گھر ہی بیچ کر نوجوان یورپ کی راہ لیتے ہیں اور اِدھر مائیں، بہنیں انتظار کرتی ہیں کہ کب وہ خطیر رقوم بھیجنا شروع کریں گے اور زندگی کا رخ تبدیل ہوگا۔ انتہا ملاحظہ فرمائیے کہ گزشتہ برس ایران کے راستے یورپ جانے کی کوشش کے دوران تربت میں قتل ہونے والے خرم شہزاد نے مبینہ طور پر اپنے دو بھائیوں کو اینٹوں کے بھٹے پر گِروی رکھ دیا تھا! 
غیر قانونی طریقے سے یورپ یا کسی اور خطے کا رخ کرنے والے بالعموم ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں اور اگر کامیاب ہو بھی جائیں تو وہاں ان کے لیے خوب کمانا آسان نہیں ہوتا۔ جو رقم خرچ کرکے وہ وہاں پہنچتے ہیں اُس کی ریکوری ہی میں چار پانچ سال لگ جاتے ہیں۔ یورپ ہو یا کوئی اور ترقی یافتہ خطہ، کہیں بھی پیسے درختوں پر نہیں اگتے۔ کچھ کمانے کے لیے وہاں بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ غیر قانونی طریقے سے کسی بھی ترقی یافتہ مغربی معاشرے میں پہنچنے والے پاکستانی اپنے وطن میں جتنی محنت 6 میں نہیں کرتے اُتنی محنت وہ ایک ماہ میں کر گزرتے ہیں۔ اپنے وطن میں شان سے ہٹ کر کچھ کرنا گوارا نہیں کیا جاتا، وہاں سڑک پر جھاڑو دینے میں بھی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ 
سوال یہ ہے کہ ملک سے باہر جاکر کمانے کا ہَوکا کیوں ہے۔ جس کے پاس اپنے وطن میں پندرہ بیس لاکھ روپے ہوں وہ کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرسکتا ہے۔ سوال صرف قناعت پسند ہونے کا ہے۔ غیر قانونی طریقے سے یورپ یا کسی اور خطے کا رخ کرنے میں بیسیوں قباحتیں ہیں۔ جان بھی داؤ پر لگانا پڑتی ہے۔ ایک زمانے میں ترکی سے ہوکر یورپ جانے کا رجحان عام تھا۔ تب بھی لوگ ایران سے ہوکر ترکی پہنچتے تھے اور پھر قبرص ہوتے ہوئے یونان پہنچنے کی خاطر جان و مال کو داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ 
بات یہ ہے کہ پنجاب یا ملک کے کسی اور حصے سے جو لوگ غیر قانونی طور پر یورپ یا کسی امریکا جانے کی کوشش کرتے ہیں ان میں سے بیشتر ناکام رہتے ہیں مگر جو چند ایک کامیاب ہوجاتے ہیں اُنہیں مثال بناکر دوسرے نوجوان بھی رختِ سفر باندھتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ کسی فلم میں ولن خوب مزے کرتا ہے اور آخر میں پکڑا جاتا ہے۔ فلم دیکھنے والے اس کے برے انجام سے سبق نہیں سیکھتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کس غلطی کی بنیاد پر پکڑا گیا۔ بس، وہ غلطی نہیں کرنی! 
کسی ترقی یافتہ ملک میں بسنے اور وہاں چند ہی برس کی محنت سے آبائی وطن میں مرتے دم تک سکون کی زندگی بسرکرنے کا خواب ایک ایسا دھوکا ہے جو اب تک ہمارے ہاں لاکھوں نوجوانوں کی زندگی بربادکرچکا ہے۔ ایک بڑی نفسیاتی الجھن یہ ہے کہ جو بیرون ملک جانے اور وہاں کچھ کرنے کا ذہن بنالے اُسے پھر وطن میں رہنا زہر لگنے لگتا ہے اور اگر کسی وجہ سے باہر نہ جاسکے تو بے دِلی کے ساتھ، گِھسٹ گِھسٹ کر زندگی بسر کرتا ہے۔ 
میڈیا کے ذریعے یہ بات زیادہ نمایاں طور پر بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے وطن میں کوئی کمی نہیں۔ لکھنے والوں کا فرض ہے کہ نئی نسل کو اپنی سرزمین پر محنت کرنے اور زندگی بھرپور دلچسپی کے ساتھ بسر کرنے کی ذہنی تیاری میں مدد دیں۔ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ ہر معاشرے کے اپنے مسائل ہوتے ہیں جو زندگی کو پیچیدہ بناتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں داخل ہوکر راتوں رات کچھ کر پانا ممکن نہیں ہوتا۔ وہاں اگر انسان کچھ پاتا ہے تو اس کے لیے محنت بھی بہت کرنا پڑتی ہے۔ اِتنی محنت اگر انسان اپنے معاشرے میںکرے تو نتیجہ کچھ زیادہ مختلف برآمد نہ ہوگا۔ 
کراچی کے کہنہ مشق شاعر فیاض علی فیاضؔ کہتے ہیں ؎ 
اس قدر چرچا محبت کا ہوا 
سب کو دنیا سے محبت ہوگئی! 
ہماری نئی نسل کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ وہ گھر میں کچھ نہیںکرنا چاہتی اور گھر سے باہر جاکر چاند تارے توڑنے پر بھی اُتر آتی ہے۔ محنت وطن پر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اِس کی بنیادیں مضبوط ہوں۔ قومی معیشت کو نئی نسل کے عزمِ محکم اور لگن کی ضرورت ہے۔ جو اپنے ہاں کچھ نہ کر پائے وہ باہر جاکر کیا تیر ماریں گے؟ جگرؔ مراد آبادی کے شاگردِ رشید حبابؔ ترمذی کہتے ہیں ؎ 
حبابؔ ! ایسی بھی کیا بے اعتمادی 
ڈبودے گی ہمیں موجِ نفس کیا! 
دنیا پر مر مٹنے کی بہر حال ایک حد تو مقرر ہونی چاہیے۔ جو کچھ بہت دور کا معاملہ ہے اس کے لیے اپنے ہاتھ کی چیزیں داؤ پر لگادینا کسی بھی درجے میں مقتضائے دانش نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں