''ام الخبائث‘‘ کے پیدا کردہ تماشے ہزار۔ پیتے جائیے، تماشا بنتے جائیے۔ کسی کسی کو یہ ایسی راس آتی ہے کہ خُم کے خُم بھی پی لے تو کچھ اثر نہ ہو۔ اور کسی سے اضافی دو گھونٹ بھی برداشت نہیں ہو پاتے۔ پیمانہ خالی ہوتے ہی ظرف کا پیمانہ یوں چھلکتا ہے کہ ایک دنیا تماشا دیکھتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ام الخبائث کو ''ابوالقباحت‘‘ بنتے بھی دیر نہیں لگتی۔ جب یہ چڑھتی ہے تو انسان کو اتار دیتی ہے، ظرف و کردار کا ملبوس تار تار کرکے انسان کے وجود کو برہنہ کر دیتی ہے۔
جام پر جام لُنڈھانے سے اچھا خاصا انسان حیوانی سطح پر آ جاتا ہے۔ اور حیوانوں میں نمایاں ترین ہے بندر۔ شراب میں ڈوبا ہوا انسان بندروں جیسی حرکتیں کرتا پھرتا ہے۔ جوش ہی جوش رہ جاتا ہے، ہوش کونہ پکڑتا ہے۔ اور جب ہوش سے محرومی کی حالت بھرپور جلوے بکھیرتی ہے تو جوش بھی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ کوئی برابر کی تگڑی پارٹی ٹکر جائے تو ہوش ٹھکانے لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگاتی!
یہ تو ہوا انسانوں کے بندر بننے کا معاملہ۔ اور اگر کوئی بندر رندِ بدمست ہو بیٹھے؟ پھر تو سمجھ لیجیے کہ گئی بندر کی بھینس پانی میں! بنگلور (بھارت) میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو کلپ کے مطابق ایک بندر نے انسانوں کا مرغوب مشروب پیا اور‘ انسان ہی کی طرح، آپے سے باہر ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ؎
اِک جام میں گرے تھے کم ظرف لڑکھڑا کے
پینے گئے تھے چل کر، لائے گئے اُٹھا کے
والی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ بنگلور کے ایک شراب خانے میں بندر گھس آیا۔ کچھ اور تو اُس کی سمجھ میں آیا نہیں اس لیے ایک بوتل زمین پر دے ماری۔ بوتل میں بھری ہوئی شراب فرش پر پھیل گئی۔ بندر نے ساری شراب چاٹ لی۔ گنجائش اور حد سے زیادہ شراب بندر کے معدے میں پہنچی تو اپنے حصے کا کام کرنے پر تُل گئی۔ بس، بندر کا تماشا شروع ہو گیا۔ مخمور، بلکہ بدمست بندر شراب خانے سے نکلا تو اپنے ظرف کے جامے سے بھی نکل آیا۔ گلی میں لوگوں کو اس نے چھیڑنا شروع کیا۔ کسی پر جھپٹا مارا تو کسی پر دانت کچکچائے۔ کسی کے پیچھے یوں بھاگا کہ وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ پہلے تو لوگ سمجھے نہیں کہ بندر نشے میں دُھت ہے۔ جب لوگوں کو اندازہ ہوا تو ایک تماشا لگ گیا۔ بہت سوں نے نشے میں دُھت بندر پہلی بار دیکھا تھا۔ بندر کی کیفیت کچھ کچھ ویسی ہی تھی جیسی ''آپ کی قسم‘‘ میں بھنگ پینے کے بعد راجیش کھنتہ اور ممتاز پر طاری ہوئی تھی! ''ایک کے دو، دو کے چار مجھ کو تو دِکھتے ہیں‘‘ والا سماں پیدا ہو گیا!
بندر نے وہ غُل غپاڑا کیا کہ لوگ کو بغیر ٹکٹ سرکس کا مزا مل گیا۔ شراب میں ڈوب کر گلیوں میں ہنگامہ برپا کرتے ہوئے ''بیوڑے‘‘ لوگوں نے بہت دیکھے ہیں مگر اُن کے ''بیوڑے پن‘‘ میں وہ بات کہاں جو ''ٹن‘‘ ہونے کے بعد بندر کی حرکات و سکنات میں تھی! کہیں اُس نے پھل چھین کر کھائے اور کہیں یہ بھی ہوا کہ کسی نے پھل پیش کیے تو وہ ناراض ہو گیا! گویا تم کون ہوتے ہو پیشکش کرنے والے؟ دیا ہوا کیوں لیں، ہم تو اپنا حق چھیننے نکلے ہیں!
نشے میں دُھت ہو کر انسان جو کچھ کرتا ہے وہ سب کچھ کرنے کے بعد بندر نے بھی وہی کیا جو انسان کیا کرتے ہیں۔ نشے میں آپے سے باہر ہونے والے جس سے خفا ہوتے ہیں آخرِ کار اُسی سے لپٹ جاتے ہیں۔ بندر نے بھی پہلے تو سڑک پر سوئے ہوئے ایک نوجوان سے چھیڑ چھاڑ کی۔ نوجوان نے ڈنڈے سے ڈرا کر بھگا دیا۔ کچھ دیر بعد جب نشے کا گراف نیچے آیا تو بندر کو خیال آیا کہ اب کچھ ہوش کی دوا کی جائے یعنی دھینگا مشتی بہت ہو چکی، کچھ آرام بھی کر لیا جائے۔ اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ بندر اُسی نوجوان کے پاس آیا اور اُس سے لپٹ کر سو گیا!
شراب ہو، اقتدار و اختیار، عسکری قوت، معاشی استحکام یا علوم و فنون میں برتری... تقریباً ہر معاملے میں نتیجہ یکساں ہی برآمد ہوتا ہے۔ شراب کی طرح طاقت اور برتری کا نشہ بھی بے حواس کر کے دم لیتا ہے۔ انسان آپے سے ایسا باہر ہوتا ہے کہ کسی کے سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ ہمارے ہاں آج کل سیاسی شراب خانے میں آپے سے باہر ہونے کے متعدد کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ جو حقیقی مینڈیٹ رکھتے ہیں اُن کا تو حق بنتا ہے کہ بدمست ہوکر آپے سے باہر ہوں مگر تماشا یہ ہے کہ جن کا کل ''سیاسی اثاثہ‘‘ ڈرائنگ روم کی جگت بازی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں‘ وہ بھی سینہ تان کر چینلز پر نمودار ہوتے ہیں اور ملک و قوم کا مقدر تبدیل کرنے کے دعوے کرنے سے نہیں ہچکچاتے!
جن کے پلّے کچھ نہیں جب اُن کا یہ حال ہے تو سٹیک اور مینڈیٹ رکھنے والوں کا آپے سے باہر ہوجانا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اُنہیں تو سات خون معاف ہیں!
بنگلور کے بندر کی اوٹ پٹانگ حرکتیں دیکھ کر یاد آیا کہ نئی دہلی میں بھی کچھ ''رہبرانِ قوم‘‘ ایسے ہی بدمست ہیں اور آپے سے باہر ہوئے جاتے ہیں۔ حالات نے اقتدار و اختیار کے ساتھ ساتھ اُنہیں علاقائی سطح پر برتری پانے کا تھوڑا بہت موقع بھی عطا کیا ہے۔ نئی دہلی کے بیشتر پالیسی میکرز اور سٹیک ہولڈرز نے ہاتھ آنے والی بوتل گرا کر شراب چاٹ لی ہے اور اب نشے میںدُھت ہو جانے کے بعد ان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا کہ کس معاملے میں کس نوعیت کی طرزِ فکر و عمل اپنائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اوٹ پٹانگ حرکتیں جاری ہیں۔ کبھی پاکستان کو لائن آف کنٹرول پر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ کبھی نہتے کشمیریوں پر سارا غصہ اتارا جاتا ہے۔ کبھی نیپال کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ کبھی در اندازی روکنے کے نام پر بنگلہ دیش کو ہراساں کیا جاتا ہے اور کبھی ایک قدم آگے جاکر چین کو بھی دام میں لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بدلتی ہوئی علاقائی صورتِ حال کے پیش نظر بھارتی قیادت جو کچھ کر رہی ہے‘ اُسے بدمست بندر کی سی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے ہٹ کر کچھ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کئی عشروں تک جس ماسکو نے ساتھ دیا، اُس سے نئی دہلی بہت حد تک محروم ہو چکا ہے۔ اسلام آباد اور بیجنگ کو بھی نظر انداز کرکے ہزاروں میل دور کے واشنگٹن سے دوستی اور اشتراکِ عمل کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔
کبھی تو نشہ ٹوٹے گا، کبھی تو ہوش کا گراف بلند ہو گا۔ ایک موہوم سی امید ہے ؎
تڑپ مِرے بے قرار دل کی کبھی تو اُن پہ اثر کرے گی
کبھی تو وہ بھی جلیں گے اِس میں جو آگ دل میں دہک رہی ہے
حالات بتا رہے ہیں کہ یہ نشہ زیادہ دیر ٹِکنے والا نہیں۔ بنگلور کا بندر نوجوان سے لپٹ کر سو گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نشے کی ندّی اُترنے پر نئی دہلی کس سے لپٹ کر انٹا غفیل ہونا پسند کرے گا!