انتہا پسندی خواہ کسی شکل اور تناظر میں ہو، انتہا پسندی ہی ہوتی ہے۔ محبت میں حد سے گزرنا بھی انتہا پسندی اور نفرت میں کسی حد کا خیال نہ رکھنا بھی انتہا پسندی۔ کسی پر مر مٹنا بھی انتہا پسندی اور کسی کو ایک نظر نہ دیکھنا بھی انتہا پسندی۔ ہم کئی اعتبار سے واقعی انتہا پسند قوم ہیں۔ زندگی کے بیشتر معاملات میں ہمارا عمومی رویہ محتاط ترین الفاظ میں بھی انتہا پسندی ہی کہلائے گا۔
کسی کو مچھلی کے شکار کا شوق ہے تو دنیا جائے بھاڑ میں۔ اُسے صرف ڈور، کانٹے اور ''چارے‘‘ سے غرض ہے۔ کسی کو برانڈڈ کپڑوں کا شوق ہے تو وہ اپنی مرضی کے مطابق ملبوسات خریدنے پر خطیر رقم خرچ کردے گا۔ پھر اگر گھر کا بجٹ غیر متوازن ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ کوئی اگر کھانے کا شوقین ہے تو یہ شوق اُس کی آمدن کا بڑا حصہ کھا جاتا ہے۔ یہ ہے ہمارا حال۔ کوئی کسی سے کم نہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ع
جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے!
چھالیہ کی توقیر میں غیر معمولی اضافہ دیکھ کر ہمیں اہلِ وطن کی انتہا پسند ذہنیت کو ''خراج تحسین‘‘ پیش کرنے کا خیال آیا۔ ایک زمانے سے بات ہو رہی تھی کہ سڑی ہوئی چھالیہ اور چند دوسرے انتہائی مُضِر اجزاء ملاکر گٹکا تیار کیا جاتا ہے۔ یہ گھٹیا گٹکا کھا کھاکر کراچی سمیت سندھ بھر میں لوگ منہ کے کینسر اور دیگر امراض میں مبتلا ہوئے ہیں۔ حکومت عوام کی منت سماجت کرکے تھک گئی مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ میڈیا نے بھی اس معاملے میں اپنا کردار کسی حد تک ادا کرنے کی کوشش کی۔ خطرناک اجزاء سے تیار کردہ گٹکا کھانے سے لوگوں کا جو حشر ہوا اُسے دِکھا دِکھاکر میڈیا نے لوگوں کو انتباہ کیا۔ مقصود یہ تھا کہ لوگ عبرت پکڑیں اور ''گٹکا نواز‘‘ رویّہ ترک کریں۔ بہت کوشش کرنے کے باوجود میڈیا کی بھی دال نہ گل پائی۔
اب عدلیہ حرکت میں آئی ہے تو لوگ بلبلا اٹھے ہیں۔ سڑی ہوئی چھالیہ کی درآمد اور استعمال روکنے کے لیے عدالتی احکام پر کنسائنمنٹ ضبط کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس عمل کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ کراچی میں صاف ستھری، اعلیٰ درجے کی چھالیہ کے نرخ ڈھائی ہزار روپے فی کلو سے بھی اوپر جاچکے ہیں!
یہ ہوئی نا بات۔ چھالیہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر حال میں کھائی جائے، چاہیے ڈھائی ہزار روپے فی کلو سے زیادہ کا نرخ ہی کیوں نہ ہو! ہم نے کالم کی ابتدائی سطور میں انتہا پسندی کا ذکر کیا تھا۔ ایسی ہوتی ہے انتہا پسندی۔ جس طور محبت میں انسان کا دل پر اختیار نہیں رہتا بالکل اُسی طور شوق کے معاملات میں بھی دل و دماغ پر قابو نہیں رہتا۔ انسان پاگل ہو اٹھتا ہے اور کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ ہم من حیث القوم اِسی منزل سے گزر رہے ہیں۔ شوق کے معاملے میں ہم ایسے بے تاب و بے قرار ہو جاتے ہیں کہ کچھ یاد نہیں رہتا کہ کس چیز کا فائدہ کیا اور نقصان کیا ہے۔
پان کے معاملے میں بھی ہماری بے تابی اور بے قراری کا ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ جب پاکستان دو لخت نہیں ہوا تھا تب ڈھاکا سے پان کی کھیپ آیا کرتی تھی۔ مشرقی پاکستان جب بنگلہ دیش بنا تو پان کی آمد بند ہوگئی۔ 1971 کی جنگ کے زمانے میں ملک بھر میں پانی کی شدید قلت ہوگئی۔ کراچی میں حال زیادہ برا تھا کیونکہ یہاں پان سے شوق فرمانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ پان کی بندش نے تو لوگوں پر قیامت ہی ڈھادی۔ جو پان کے بغیر جینے کا تصور تک نہ کرسکتے تھے وہ تو ادھ موئے سے ہوگئے۔ دن بھر منہ چلانے کے عادی جب پانی سے محروم ہوئے تو چہروں پر مردنی سی چھاگئی۔ چھالیہ میں چُونا، کتھا اور تمباکو ملاکر پھانکنے سے وہ بات پیدا نہیں ہوتی تھی جو پان کا بیڑا ایک گال میں دبانے سے سے پیدا ہوتی تھی۔ ہم اس وقت ساڑھے سات برس کے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم نے اس زمانے میں اپنی دادی سمیت بہت سے بزرگوں کو پان کے ناپید ہونے کا ازالہ سلاد، امرود اور دیگر درختوں کے پتوں سے کرتے دیکھا۔ کبھی کبھی چمبیلی کے پتے بھی پان کے طور پر استعمال ہوتے دیکھے۔ اجوائن کے پتوں کی بُو خاصی سخت اور ناگوار سی ہوتی ہے مگر کسی کسی کو ہم نے اجوائن کے پتوں میں چُونا، کتھا، چھالیہ اور تمباکو بھر کر بھی چباتے دیکھا۔ شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیے احمد فرازؔ نے کہا تھا ع
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
بحرن اب بھی ویسا ہی ہے، صرف آئٹم بدل گیا ہے۔ یہ انتہائے شوق نہیں تو پھر کیا ہے کہ لوگ خشک میوہ جات چھوڑ کر چھالیہ جیسی ادنیٰ چیز کو پانے کے لیے خطیر رقم خرچ کرنے کو تیار ہیں! پاکستان کو اللہ نے کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا ہے۔ بہترین پھل یہاں اگتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کا انگور ڈیڑھ دو سو روپے فی کلو دستیاب ہوا کرتا ہے۔ اعلیٰ درجے کا سیب ڈیڑھ تا ڈھائی سو روپے فی کلو کے نرخ پر مل جاتا ہے۔ اس وقت موسم کا ہر پھل سو سوا سو روپے فی کلو کی رینج میں ہے۔ اعلیٰ درجے کی کھجور دو تا تین سو روپے فی کلو کے نرخ پر مل جاتی ہے۔ چلغوزوں کے سوا انجیر، بادام، پستے، اخروٹ، کاجو اور کشمکش سمیت تمام ہی خشک میوہ جات چھالیہ سے سستے ہیں! اور بھی بہت کچھ ہے جو اعلیٰ درجے کا ہے اور چھالیہ سے کہیں سستا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ بہت سی نعمتوں کو ایک طرف ہٹاکر ہم نے محض شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر چھالیہ کو ڈھائی ہزار روپے فی کلو سے بھی زیادہ کے نرخ تک پہنچا دیا ہے۔ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ چھالیہ درآمد کرنا پڑتی ہے۔ یعنی زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔
یہ کہاں کی دانش ہے کہ ہم کسی چیز کے ایسے عادی ہوجائیں کہ اس کی غلامی اختیار کرلیں؟ چھالیہ کی کیا حیثیت ہے کہ ہم اُس کے دام میں پھنس کر رہ جائیں؟ قوم کو مثبت رجحانات اور تعمیری سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ شوق تو انسان کو کسی بھی چیز کا ہوسکتا ہے مگر شوق کے قدموں میں اپنے پورے وجود کو نذر کی صورت رکھ دینا، بچھا دینا کہاں کی حکمت ہے؟ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہوتی ہے اور شوق کی بھی کوئی نہ کوئی حد ہونی ہی چاہیے۔ شوق تو ریلے کے مانند ہوتا ہے۔ بہہ نکلا تو بہہ نکلا۔ اگر اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو ریلے میں بہہ جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کسی بھی شوق کے ہاتھوں کہاں تک بلیک میل ہونا ہے اس کا تعین ہمیں کو کرنا ہوتا ہے۔ کوئی اور تو ہمارے لیے یہ کام کرنے سے رہا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایسا شوق کس کام کا کہ تین سو روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہونے والی چھالیہ لوگ ڈھائی ہزار روپے فی کلو کے نرخ پر بھی خریدنے کو راضی ہوں؟ شوق کے ریلے میں تھوڑی دور تک بہنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر یہ کیا کہ بہتے ہی چلے جائیے!