"MIK" (space) message & send to 7575

بھارتی مُردہ خانہ

عجیب و غریب لوگوں، رسوم اور طریقوں والے دیس بھارت سے ایک بہت ہی عجیب خبر آئی ہے۔ ناگپور میں ایک نوجوان سڑک کے حادثے میں شدید زخمی ہوا جسے ڈاکٹرز نے مردہ قرار دے دیا۔ مردہ قرار دیئے جانے پر ہمانشو بھاردواج کو سرد خانے میں رکھوادیا گیا! معاملہ چونکہ حادثاتی موت کا تھا اس لیے قانونی کارروائی کے طور پر پوسٹ مارٹم لازم تھا۔ جب ڈاکٹر نے آپریشن ٹیبل پر پوسٹ مارٹم شروع کیا تو ہمانشو کی نبض چل پڑی، دل دھڑکنے لگا اور اُس کے جسم میں حرکت پیدا ہوگئی۔ یہ منظر دیکھ کر پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹرز حیران رہ گئے۔ انہوں نے ہمانشو کو فوری طور پر لائف سپورٹ سسٹم پر رکھا اور پھر انتہائی نگہداشت کے یونٹ منتقل کیا۔ 
اللہ جسے جب تک چاہے زندہ رکھے۔ جو رات قبر میں ہے وہ روئے زمین پر نہیں گزرے گی اور جب تک موت لکھی نہیں گئی کوئی کسی کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ ہمانشو کے نصیب میں زندگی تھی۔ صد شکر کہ سرد خانے سے نکالے جانے کے بعد اُسے آپریشن ٹیبل پر لٹایا گیا۔ اگر کہیں چِتا پر لِٹادیا جاتا تو اُس کے بچ نکلنے کا ہر امکان نذرِ آتش ہوچکا ہوتا! 
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈاکٹرز کسی زندہ انسان کو مردہ قرار دے بیٹھتے ہیں اور اِس میں اُن کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا۔ وہ متعلقہ فرد میں زندگی کی تمام علامات تلاش کرتے ہیں۔ نبض بھی تھم چکی ہوتی ہے۔ دل بھی رک چکا ہوتا ہے۔ جسم کی حرارت بھی گھٹتی جارہی ہوتی ہے۔ ایسے میں کوئی ماہر ڈاکٹر بھی کسی کو مردہ ہی قرار دے گا۔ یہ اللہ ہی کا حکم ہوتا ہے جس کی بدولت کبھی کبھی سکتے کی حالت ختم ہونے پر رکا ہوا دل بھی دھڑکنے لگتا ہے، نبض چلنے لگتی ہے۔ 
ہمانشو بھاردواج خوش نصیب ہے کہ موت کی دہلیز تک جاکر واپس آگیا۔ اُس کے دیس میں جو لوگ سیاہ و سفید کے مالک ہیں اُنہوں نے بہت سے زندہ معاملات کو مردہ ٹھہرا رکھا ہے اور مردوں کو نئی زندگی دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
نئی دہلی کے بزرجمہر جب بھی کسی معاملے کو جیتے جی دفنانا چاہتے ہیں ایسا کر گزرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ کسی بھی مردہ اشو کو یوں پیش کرتے ہیں جیسے اُس سے بڑھ کر کوئی بھی معاملہ زندہ و متحرک نہ ہو۔ 
ایک زمانے سے کشمیر کاز کو بھارتی پالیسی میکرز دنیا کے سامنے مردے کی شکل میں پیش کر رہے ہیں۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ معاملہ مرچکا ہے اور اس پر خواہ مخواہ واویلا مچایا جارہا ہے۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کاز نہ صرف یہ کہ زندہ ہے بلکہ پوری آب و تاب کے ساتھ سفارتی فلک پر چمک بھی رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو سرد خانے کا درجہ دے کر بھارت نے کشمیر کے ایشو کو وہاں رکھ چھوڑا ہے۔ خدا سمجھے حریت پسندوں کو جو بھارتی پالیسی میکرز اور قائدین کی تمام سازشوں، ریشہ دوانیوں اور کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے کشمیر کے اشو کو کسی نہ کسی زندہ رکھے ہوئے ہیں! بھارتی قیادت کوشش کرتے کرتے تھک گئی ہے مگر اب تک اس ایشو کو حقیقی مردے کی شکل میں دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ 
بھارت میں اقلیتوں کو بھی اُسی انجام سے دوچار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس انجام سے ڈاکٹرز کی غفلت یا تکنیکی پیچیدگی نے ہمانشو بھاردواج کو دوچار کیا۔ اس معاملے میں مسلمان ''اولین ترجیح‘‘ ہیں۔ سات عشروں سے بھارت کے مسلمانوں کو پاکستان کے قیام کی تحریک میں عملی کردار ادا کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ برطانوی راج کے خاتمے پر ہند کی تقسیم اور پاکستان کا قیام اب قصۂ پارینہ ہے مگر انتہا پسند ہندوؤں نے اِس معاملے کو دلوں میں تازہ رکھن کا اہتمام کر رکھا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو اب تک معافی نہیں ملی۔ وہ آج بھی محبِ وطن نہیں سمجھے جاتے۔ جن کی دسیوں نسلیں بھارتی زمین میں دفن ہیں اُنہیں بھی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اُنہیں نظر انداز کرنا انتہائی خطرناک ہے مگر اس کے باوجود اُنہیں نظر انداز کرکے پورے ریاستی ڈھانچے کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں آبادی کے تناسب سے جس قدر نمائندگی مسلمانوں کو ملنی چاہیے اُس کے 10 فیصد کے مساوی بھی نہیں مل پارہی۔ یہ پورے جمہوری ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے۔ 
مسلمانوں کے بعد اب عیسائیوں، سِکھوں اور دَلِتوں کی باری ہے۔ عیسائیوں پر غیر معمولی حد تک مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ جنوبی ریاستوں میں اُن سے زیادہ گندا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ امریکا اور یورپ یہ سب کچھ دیکھ کر چپ ہیں کیونکہ انہیں تجارتی و سفارتی مفادات کی زیادہ فکر ہے۔ کسی مسلم ملک میں عیسائیوں سے ذرا بھی گندا سلوک روا رکھا جائے تو مغربی دنیا آسمان سر پر اٹھالیتی ہے۔ 
بھارتیہ جنتا پارٹی ایک زمانے سے ''سنگھ پریوار‘‘ یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اُس کی ہم خیال انتہا پسند تنظیموں کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے بھارت کو ہندو ریاست کا درجہ دلانے کی راہ پر گامزن ہے۔ ہر معاملے کو خالص ہندو نقطۂ نظر سے دیکھنے کی سوچ ''ہندُتوا‘‘ کو اِس طور پروان چڑھایا گیا ہے کہ اب پورا بھارت ایک رنگ میں رنگتا دکھائی دے رہا ہے۔ انتہا پسند ہندو بھارت میں کسی بھی مذہبی اقلیت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حد یہ ہے کہ وہ نچلی ذات کے ہندوؤں یعنی دَلِتوں کو بھی کچل کر رکھنا چاہتے ہیں۔ دَلِتوں کے پاس اب اسلام قبول کرنے کے سوا کوئی باعزت راستہ نہیں بچا۔ دَلِت ایک ناقابل تردید حقیقت ہیں مگر انتہا پسند ہندو اُنہیں مردہ قرار دے کر سیاسی سرد خانے میں ڈالنے کے درپے ہیں۔ دَلِتوں پر زیادہ مظالم اِس لیے بھی ڈھائے جارہے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ اب دَلِتوں کو بھی سیاسی مردہ خانے کی نذر کرنے کی تیاری کی جارہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے دَلِت ہی پالیسی میکرز کی سازشوں کو ناکام بنانے والے ''ڈارک ہارس‘‘ ثابت ہوں گے۔ 
نئی دہلی کے عالی دماغ یہ بات کب سمجھ پائیں گے کہ کسی بھی زندہ معاملے کو مردہ قرار دینے کی کوششیں تضیعِ اوقات کے سِوا کچھ نہیں۔ کائنات کا ایک بنیادی اُصول یہ ہے کہ حقیقت ہر رنگ میں، ہر روپ میں اپنے وجود کو منوا لیتی ہے۔ کوئی کچھ کرلے، کتنے ہی ہاتھ پیر مار لے، حقیقت چُھپ نہیں پاتی۔ شاید یہ گِھسا پٹا، زباں زدِ عام شعر بھی بھارتی پالیسی میکرز نے نہیں سُنا ۔ ؎ 
صداقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اُصولوں سے 
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے 
کشمیر کاز، اقلیتوں اور جمہوریت کو مردہ خانے کی نذر کرنے سے متعلق بھارتی پالیسیاں قدم قدم پر بیک فائر کر رہی ہیں مگر یہ سب کچھ عقل کے اندھوں کو دکھائی نہیں دے رہا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں