"MIK" (space) message & send to 7575

شادی سے پہلے، شادی کے بعد

کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ شادی کے بعد انسان کا وزن کیوں بڑھتا ہے؟ اگر آپ کو یہ سوچنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی تو کوئی بات نہیں۔ ماہرین البتہ اس طرح کے تمام معاملات میں غیر معمولی دلچسپی لے کر اب تک اپنی دال روٹی چلا رہے ہیں۔ شادی کے بعد مرد اور عورت دونوں ہی کی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ دونوں کے مزاج میں بھی فرق رونما ہونے لگتا ہے اور مزاج کا نسبتی فرق بھی بڑھتا جاتا ہے۔ بہت سے معاملات میں انسان شادی کے بعد کسی اور ڈھنگ سے سوچنے لگتا ہے۔ اور سوچنے کا دورانیہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر ماہرین اور محققین کے نزدیک کائنات کے چند بڑے سوالوں میں یہ سوال بھی شامل ہے کہ شادی کے بعد مرد اور زن دونوں کے وزن میں اضافہ کیوں ہوتا ہے! 
اللہ کی بسائی ہوئی اِس دنیا میں مسائل کی کمی نہیں۔ قدم قدم پر اِشو موجود ہیں۔ بس، ''دیکھنے والا دیدۂ بینا‘‘ ہونا چاہیے! ایک زمانے سے ماہرین شادی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ چند ایک قارئین نے ہمیں بھی بارہا ٹوکا ہے کہ آپ شادی کے حوالے سے بہت لکھتے ہیں۔ ہم نے ہر بار جواباً یہی عرض کیا ہے کہ ہم اس معاملے میں معذور ہیں۔ جب تک ماہرین اور محققین شادی کے نام کا دہی جماتے رہیں گے، ہم بھی لسّی تیار کرنے سے باز نہیں آئیں گے! 
شادی سے پہلے اور شادی کے بعد انسان جن مراحل سے گزرتا ہے، جس طرح کی زندگی بسر کرتا ہے اُس کے بارے میں اتنی تحقیق کی گئی ہے کہ اگر اس کا صرف اشاریہ ہی ترتیب دیا جائے تو سیکڑوں جلدیں تیار ہوجائیں گی! 
آسٹریلیا کی سینٹرل کوئینز لینڈ یونیورسٹی کے محققین نے 15 ہزار سے زائد جوڑوں کے معاملات کا کئی سال تک جائزہ لینے کے بعد ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ شادی کے بعد وزن میں اضافے کا تعلق کئی معاملات سے ہے۔ ان میں بسیار خوری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تاہم یہ سبب سے زیادہ نتیجہ ہے! ماہرین نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے بتایا ہے کہ شادی کے بعد چونکہ کسی کو متاثر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اس لیے وزن بڑھنے لگتا ہے! اس عظیم نکتے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ شادی سے قبل مرد و زن بہترین جیون ساتھی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ پرکشش دکھائی دینے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ جب انسان پرکشش دکھائی دینے کے حوالے سے حسّاس ہوتا ہے تب کھانے پینے میں احتیاط برتتا ہے۔ ایسے میں وہ کم کھاتا ہے اور غیر معیاری اشیائے خور و نوش سے نفرت کی حد تک گریز کرتا ہے۔ 
جن کی شادی کو 10 سال گزر چکے ہوں ایسے 15 ہزار جوڑوں کے معمولات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوا کہ تنہا افراد کے مقابلے جوڑوں میں وزن بڑھنے کا امکان کئی گنا ہوتا ہے۔ اگر ان کی طرزِ زندگی انتہائی معیاری اور صحت بخش ہو تب بھی وزن بڑھنے کا سلسلہ رکتا نہیں۔ محققین نے اس کا ایک بنیادی سبب یہ بیان کیا ہے کہ شادی کے بعد ملنے جلنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ دعوتیں بھی ہوتی ہیں۔ میل جول بڑھتا ہے تو ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں انسان کھانے پینے کے حوالے سے قدرے بے فکر، بلکہ لاپروا سا ہو جاتا ہے۔ اور یوں وہ اپنے وجود کو متوازن رکھنے کے معاملے کو زیادہ توجہ دینے کی پوزیشن میں نہیں رہتا۔ زیادہ اور متنوع کھانے کے نتیجے میں جسم پھیلتا جاتا ہے اور وزن بھی بڑھتا جاتا ہے۔ 
تحقیق کے مطابق جب جوڑوں کو احساس ہو جاتا ہے کہ زیادہ پرکشش دکھائی دینا اُن کے لیے کچھ زیادہ ضروری اور فائدے کی بات نہیں تب وہ زیادہ کھانے ہی کی طرف مائل نہیں ہوتے بلکہ مرغن غذائیں بھی استعمال کرنے لگتے ہیں۔ جو کچھ جسم کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے وہ کھانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ چربی کا زیادہ استعمال کمر کو کمرے میں تبدیل کرتا جاتا ہے! جن جوڑوں کے بچے ہوتے ہیں ان میں زیادہ کھانے کا رجحان بچوں کو دیکھ کر پروان چڑھتا ہے۔ وہ بچوں کی خوشی کے لیے بھی اُن کے ساتھ کچھ زیادہ کھالیتے ہیں۔ علاوہ ازیں شادی شدہ افراد میں گھر سے باہر کھانے کی عادت بھی پختہ ہوتی جاتی ہے۔ بازار کے کھانے کھا کھاکر اُن کا جسم بے ترتیب اور ڈھیلا پڑتا جاتا ہے۔ 
دعوٰی کیا گیا ہے کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ شادی کے بعد وزن کے بڑھنے کا واحد سبب غیر صحت بخش طرزِ زندگی نہیں۔ یعنی یہ پورا معاملہ ذہنی حالت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے تعلق رکھتا ہے۔ لیجیے، محققین اور ماہرین کو نیا موضوع مل گیا ... شادی کے بعد ذہنی حالت میں رونما ہونے والی تبدیلیاں! تحقیق کی گاڑی اِسی طور آگے بڑھتی رہتی ہے۔ 
ایک سال قبل اسکاٹ لینڈ کی گلاسگو یونیورسٹی نے بھی اِسی طرز کی تحقیق کے بعد بتایا تھا کہ شادی کے بعد وزن بڑھنے کا رجحان پوری دنیا میں پایا جاتا ہے یعنی یہ ایک آفاقی حقیقت ہے۔ 
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موٹاپے سے انسان کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور شریک حیات سے تعلق بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ موٹاپے سے اعتماد مجروح ہونے کا معاملہ بھی اپنی جگہ اہم ہوگا تاہم شریکِ حیات سے تعلق متاثر ہونے کا انتباہ ایسا نہیں کہ نظر انداز کردیا جائے۔ 
ماہرین اور محققین نے شادی سے متعلق چورن چٹنی بیچنے کا دھندا اس قدر پھیلالیا ہے کہ بہت سے لوگ کے معاملے میں متذبذب ہی رہتے ہیں۔ ؎ 
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں 
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے! 
غیر شادی شدہ افراد جب اپنے ماحول پر نظر ڈالتے ہیں تو چند ایک لوگوں کے بُرے انجام سے خوفزدہ ہوکر شادی کا ارادہ ترک کردیتے ہیں یا پھر اس معاملے کو سرد خانے کی نذر کردیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا بھر کے محکمہ ہائے بہبودِ آبادی (بلکہ محکمہ ہائے ''تحدیدِ آبادی‘‘) نے ماہرین اور محققین کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں تاکہ غیر شادی شدہ لوگ ازواجی زندگی کے حوالے سے انٹ شنٹ تحقیق کے نتائج پڑھ پڑھ کر گھر بسانے کے تصور سے دور بھاگتے رہیں! 
دنیا بھر میں تحقیق کرنے والوں کے لیے جیسے موضوعات کا کال پڑگیا ہے۔ وہ گھوم پھر کر ازواجی یا گھریلو زندگی کی طرف آجاتے ہیں۔ اور گھوم پھر کر کیا، وہ اس چوراہے سے دور جاتے ہی کب ہیں! معاملہ تحقیق کا ہو تو بات کہیں سے بھی چلی ہو، کچھ دیر میں شادی اور گھریلو زندگی تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ گویا ؎ 
ہے انتہائے یاس بھی اِک ابتدائے شوق 
پھر آ گئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم 
ماہرین کو شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے معاملات پر دادِ تحقیق دینا شاید اس لیے اچھا لگتا ہے کہ تحقیق کے لیے زیادہ مغز نہیں پھوڑنا پڑتا، اِدھر اُدھر نہیں دیکھنا پڑتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ اُن کی بھرپور معاونت کے لیے ذاتی تجربہ جو موجود ہوتا ہے! گھر کی کھیتی ہے، جب جی چاہا اگائی اور توڑ لی۔ کچھ کچھ ایسا ہی الزام ہماری کالم نگاری پر بھی عائد کیا جاتا رہا ہے تاہم یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ابتداء محققین نے کی ہے! ہم سے پہلے اُن پر فردِ جرم عائد کی جانی چاہیے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں