"MIK" (space) message & send to 7575

چوہے، کتے اور کچرا

ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے بہانے کراچی کا جو حال کئی سال سے ہے اُسے بیان کرنے کے لیے الفاظ تلاش کرنا بھی ایک کارِ مسلسل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ شہر کے متعدد علاقوں میں سڑکیں کھدی ہوئی ہیں، استر کاری ہو رہی ہے۔ ماس ٹرانزٹ منصوبوں پر بھی کام جاری ہے جس کے نتیجے میں شہر کا حلیہ بگڑ گیا ہے۔ متعدد مقامات پر کھدائی کے باعث مٹی پڑی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں دُھول اڑتی رہتی ہے۔ اور اب یہ دھول شہریوں کے لیے پریشانی کا ایک بڑا سبب ہوکر رہ گئی ہے۔ تمام متعلقہ و غیر متعلقہ اداروں کی مہربانی سے جو کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے اُسے بیان کرنے کا حق ادا کرنے کے لیے اہلِ کراچی میرزا نوشہ یعنی غالبؔ کا سہارا لے سکتے ہیں ؎ 
کب سے ہوں، کیا بتاؤں، جہانِ خراب میں 
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں! 
کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس صورتِ حال کا تدارک کیسے کیا جائے۔ شہر میں پانی اِتنی وافر مقدار میں دستیاب نہیں کہ لوگ چھڑک چھڑک کر دُھول کی گرد بٹھانے کی کوشش کریں! جہاں لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہوں وہاں چِھڑکاؤ کی عیاشی کا متحمل کون ہوسکتا ہے؟ 
اُستاد شاعر قمرؔ جلالوی نے کہا تھا ؎ 
دعا بہار کی مانگی تو اِتنے پُھول کِھلے 
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو! 
کراچی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کہاں تو ترقیاتی منصوبے شروع نہیں کیے جاتے اور کہاں یہ کیفیت کہ ترقیاتی منصوبوں کی بھرمار سے شہریوں کا ناطقہ بند ہوچلا ہے! ترقیاتی منصوبوں کی بھرمار سے پیدا ہونے والی کیفیت بیان کرنے کے لیے قمرؔ جلالوی کے ساتھ ساتھ احمد فرازؔ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ ؎ 
یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے؟ 
کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے! 
کراچی کی صورتِ حال ہمیں یوں یاد آئی کہ ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق نے عمران خان اور آصف زرداری کو ایک ایسے مشورے سے نوازا ہے جس نے ؎ 
دل سے تِری نگاہ جگر تک اُترگئی 
دونوں کو اِک ادا میں رضامند کرگئی! 
والی کیفیت پیدا کردی ہے۔ سعد رفیق کہتے ہیں کہ کام تو مسلم لیگ (ن) نے کیے ہیں۔ مخالفین اور ناقدین کو صرف کیڑے نکالنے سے غرض ہے۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان پشاور میں چوہے ماریں اور آصف زرداری کراچی کا کچرا ٹھکانے لگائیں۔ پشاور کے چوہوں کے ساتھ عمران خان کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے اِس سے ہمیں کچھ خاص غرض نہیں۔ ہاں، کراچی کے کچرے سے متعلق سعد رفیق کا مشورہ ہمیں اچھا نہیں لگا۔ بات یہ ہے کہ آصف زرداری کو کچرا سُوٹ نہیں کرتا اور پھر یوں بھی ہے کہ یہ اُن کا دائرۂ کار ہے نہ دائرۂ اختیار۔ کراچی میں بکھرے پڑے کچرے سے بہت سوں کی دال روٹی چل رہی ہے۔ جن کے پاس الاپنے کے لیے کوئی اور ڈھنگ کا راگ نہیں ہوتا وہ کچرے کا راگ الاپ کر دال روٹی کا بندوبست کرلیتے ہیں! 
کم و بیش دو سال سے کراچی میں کچرے پر سیاست ہو رہی ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے بعد سے کچرے کا معاملہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر کہتے ہیں کہ کچرے کے علاوہ آوارہ کتے بھی سابق انتظامیہ سے ترکے یا ورثے میں ملے ہیں! شہر میں آوارہ کتوں کی ایسی بھرمار ہے کہ اُن سے بچ کر گزرنے میں ویسی ہی دِقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسی دِقّت کا سامنا عیدگاہ کے باہر بیٹھے ہوئے پیشہ ور بھکاریوں سے بچنے کے لیے کرنا پڑتا ہے! 
وسیم اختر جب سے میئر بنے ہیں اُنہیں کچرے کی گردان سننا پڑی ہے۔ مخالفین نے سارا کچرا، سوچے سمجھے بغیر، اُن کے کھاتے میں ڈالنے کی روش اپنائی ہوئی ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ سال سے وسیم اختر اور اُن کے رفقاء کبھی فنڈز اور کبھی اختیارات کا رونا روتے رہے ہیں۔ اور یہ رونا بہت حد تک بلا جواز بھی نہیں۔ کچرے سے شروع ہونے والا راگ اب آوارہ کتوں تک آ پہنچا ہے۔ مخالفین نے آوارہ کتے بھی شہر کا مینڈیٹ رکھنے والوں کے کھاتے میں ڈال دیئے ہیں۔ وسیم اختر کہتے ہیں کہ سیاسی یا انتظامی ورثے میں ملنے والے کتوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انڈس اسپتال کی معاونت سے آوارہ کتوں کو ''نس بندی‘‘ کے مرحلے سے گزارا جائے گا یعنی وہ نسل بڑھانے کے قابل ہی نہ رہیں گے۔ کتوں کی نس بندی کی بات سُن کر ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک شخص مچھر مار پاؤڈر بیچ رہا تھا۔ کسی نے استعمال کا طریقہ دریافت کیا تو وہ بولا پہلے مچھر کو پکڑو، پھر گدگدگی کرو۔ جب مچھر ہنسے گا تو ظاہر ہے منہ کھولے، بس پاؤڈر اُس کے منہ میں ڈال دو! 
بات عمران خان اور آصف زرداری سے شروع ہوئی تھی اور چوہوں، کچرے کے انبار سے ہوتی ہوئی کراچی کے میئر اور آوارہ کتوں تک آگئی ہے۔ سعد رفیق چاہتے تو چوہوں کے حوالے سے عمران خان کو پشاور کے ساتھ ساتھ کراچی کا ''مینڈیٹ‘‘ بھی دے سکتے تھے کیونکہ جہاں کچرے کے ڈھیر ہوتے ہیں وہاں چوہے بھی ہوتے ہیں۔ کراچی کے متعدد علاقوں میں رات کے پچھلے پہر بلی کے بچوں سے بھی بڑے حجم کے چوہوں کو کچرے کے ڈھیر پر اور نالیوں میں مٹر گشت کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے! 
کراچی ہر اعتبار سے کاسموپولیٹن شہر ہے۔ یہاں دنیا بھر کے ادارے کام کرتے ہیں۔ اور دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ سکونت پذیر ہیں۔ اِتنے بڑے اور معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے شہر کے لیے موثر منصوبہ بندی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ضرورت پڑنے پر کسی ایک یا چند علاقوں میں کچھ نظم و ضبط پیدا کردیا جاتا ہے مگر مجموعی طور پر پورے شہر کو بے ہنگم رہنے دیا گیا ہے۔ کچرا صرف وہ نہیں جو گھروں کے باہر، علاقوں میں خالی پلاٹس پر دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ بھی تو کچرا ہی ہے جو اداروں کی انتہائی ناقص کارکردگی کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ اِس کچرے کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ 
وسیم اختر کے لیے بڑے چیلنج دو ہی ہیں ... کتے اور کچرا۔ اور دونوں ہی ٹکّر کے ہیں۔ کچرا قابو میں آنے کا نام لیتا ہے نہ کتے۔ کچرے کا حجم بڑھ رہا ہے اور کتوں کی تعداد۔ گویا ع 
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی! 
کراچی میں کچھ لوگ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ کچرا اٹھالیا گیا اور کتے کنٹرول کرلیے گئے تو شہر کیسا دکھائی دے گا! یہ پریشانی بلا جواز نہیں۔ آنکھ جن نظاروں کی عادی ہوجائے وہ اگر دکھائی نہ دیں تو شدید الجھن محسوس ہوتی ہے۔ ع 
اتنے مانوس صیّاد سے ہوگئے اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے! 
تمسخر برطرف، کوئی تو ہو جو کراچی اور اہلِ کراچی کی وحشتوں کا ساتھی ہو۔ کچرا ہو یا آوارہ کتے ... دونوں ہی کراچی ماتھے پر بدنما داغ کے مانند ہیں۔ پہلے مرحلے میں اِن سے گلو خلاصی لازم ہے۔ دیگر مسائل کا حل بعد میں سوچا جائے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں