کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ہماری زندگی میں الجھن اور پیچیدگی پیدا کرنے والوں میں نمایاں ترین باتیں کون سی ہیں؟ مشکل یہ ہے کہ ہم مرتے دم تک زندگی تو بسر کرتے ہیں مگر اس زندگی کے بارے میں شاذو نادر ہی سنجیدہ ہوتے ہیں یعنی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہم اپنی زندگی کو گھر کی مرغی یعنی دال کے برابر گردانتے رہتے ہیں۔ کسی بھی صورتِ حال کا بنیادی تقاضا غور و فکر ہے مگر ہم اس روش پر گامزن ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم ذہن میں پائی جانے والی تمام الجھنیں اور پیچیدگیاں ختم کریں۔ ہمارے ذہن میں ہر وقت طرح طرح کے خیالات پلتے اور چلتے رہتے ہیں۔ توجہ نہ دینے کی صورت میں ان خیالات کو منظم کرنا اور ان کی کوکھ سے کوئی کام کی چیز برآمد کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جب ہم ذہن کو واضح کرنے پر توجہ دیتے ہیں تو بہت کچھ واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر ذہن الجھا ہوا ہو تو کوئی بھی نئی بات اس میں آسانی سے داخل نہیں ہوتی۔ ہمارے لئے لازم ہے کہ نئی زندگی اور ندرت کے لیے ذہن کو غیر منفعت بخش خیالات کا کباڑ خانہ بننے سے روکیں۔
بہت سے ادھورے کام ہمارے ذہن کی پرورش میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ کسی بھی بڑے کام کے لیے ذہن کا یکسو ہونا لازم ہے۔ یہ یکسوئی ہم میں بہت سی دوسری صلاحیتوں کے پروان چڑھنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ جب ہم ذہن کو منظم کر پاتے ہیں تو اس میں خیالات تیزی سے ابھرتے ہیں۔ نئے خیالات ہم میں کام کرنے کی نئی لگن کو جنم دیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ذہن کو کس طور واضح اور منظم کیا جائے؟
جب ہم بہت سے کام جوش و خروش کے ساتھ شروع کرکے ادھورے چھوڑ دیتے ہیں تب ذہن میں الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں۔کسی بھی کام کے ادھورا رہنے کی صورت میں ہمارا ذہن پیچیدہ ہوتا جاتا ہے۔ ادھورے کام اپنے کام میں پورے ہوتے ہیں یعنی ذہن کا بنیادی ڈھانچا تہہ و بالا کرکے دم لیتے ہیں۔ ہر ادھورا کام ذہن کے نہاں خانوں میں گم ہو کر بہت سے الجھنوں کو جنم دیتا ہے۔ جب ہم کوئی کام ادھورا چھوڑتے ہیں تو ضمیر پر ایک بوجھ سا رہ جاتا ہے۔ دل میں ایک خلش سی باقی رہتی ہے۔ ہر ادھورا کام ہمیں نا اہلی اور نا تجربہ کاری کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں عزم، حوصلے اور سکت کی کمی کا بھی احساس کسی نہ کسی شکل میں، کسی نہ کسی سطح پر ستاتا رہتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اس حوالے سے اپنے احساسات کو شناخت کرپاتے ہیں یا نہیں۔
اگر ہم میں کچھ کر گزرنے کا عزم ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو کچھ دیں تو کسی بھی کام کو شروع کرنے سے قبل اپنی لگن، صلاحیت اور عزم کو پوری توجہ سے جانچنا ہوگا۔ اگر یہ اندازہ ہوجائے کہ کسی کام کو پہلے سے طے شدہ ٹائم فریم میں پوری توجہ کے ساتھ مکمل نہیں کر پائیں گے تو ابتداء نہیں کرنی چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ احتیاط کو گلے لگا کر کوئی بھی بڑام کام شروع ہی نہ کیا جائے۔ جب انسان اپنی صلاحیتوں، لگن، عزم اور نیت سے بخوبی واقف ہوتو اس میں بہت کچھ کرنے کا حوصلہ خود بخود پنپنے لگتا ہے اور پھر یہی حوصلہ اس میں کچھ نیا اور باقی دنیا سے ہٹ کر کرنے کا یارا پیدا کرتا ہے۔
جب ہم کوئی کام ادھورا چھوڑ دیتے ہیں تو تادیر اس کی یادیں ہمارے تحت الشعور سے چمٹی رہتی ہیں۔ کسی کام کو مکمل نہ کرنے کی صورت میں ہمیں بہت حد تک اپنے آپ سے ندامت بھی محسوس ہوتی رہتی ہے۔ یہ ندامت ایک طرف تو ہماری صلاحیتوں کو بروئے کار لائے جانے کی راہ میں واضح رکاوٹ بنتی ہے اور دوسری طرف ہمیں خود ہماری نظروں میں گرانے کا سبب بھی بنتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہو تو ہمارے پورے وجود کو زنگ لگ جاتا ہے۔ ہماری صلاحیتیں پورے جوبن کے ساتھ اُسی وقت بروئے کار لائی جا سکتی ہیں جب ہمارے ذہن پر کوئی بوجھ نہ ہو اور ہم پورے شرح صدر کے ساتھ اپنے آپ کو کسی کام کا ثابت کرنے پر توجہ دیں۔
ہر ادھورا کام قرض کی مانند ہوتا ہے جس کا سُود ہمیں تادیر چکانا پڑتا ہے۔ جب ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو بالعموم اپنی تمام صلاحیتوں پر ہماری نظر ہوتی ہے۔ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ پورے عزم کے ساتھ کوئی کام شروع کرنے کے بعد جب ہم کسی بھی وجہ سے اُسے جاری نہیں رکھ پاتے تو تب ذہن الجھتا ہے۔ جس کام کو ہم ادھورا چھوڑ دیتے ہیں وہ ناگ بن کر ہماری صلاحیتوں ، لگن اور عزم کو ڈستا رہتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ دکھ بھی تر و تازہ رہتا ہے کہ ہم نے اپنی صلاحیت اور توانائی ایک ایسے کام پر صرف کی جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔
بہت سے ادھورے کام ہماری زندگی کو کسی واضح جواز کے بغیر الجھاتے رہتے ہیں ۔ ذہن کے کار آمد رہنے کی سب سے بڑی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ کہیں کوئی الجھن نہ ہو اور ازکار رفتہ باتیں بار بار ابھر کر ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم نہ کرتی رہیں۔ ادھورے کام ذہن پر سب سے بڑا بوجھ ہوتے ہیں۔ اور یہ بوجھ ہم خود پیدا کرتے ہیں۔ ہر ادھورا کام ہمارے واجبات میں سے ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی بھر بھگتان کرنے پر بھی ہم اپنے ادھورے کاموں کی ادائیگی نہیں کر پاتے۔ یہ دہرا عذاب ہے۔ جس کام کے کرنے پر کچھ ملا بھی نہیں اس کے لیے ہمیں بہت کچھ ادا کرنا پڑتا ہے۔
جو منصوبے ہم مکمل نہیں کر پاتے وہ ہمیں بہتر منصوبہ بندی کی تحریک بھی دے سکتے ہیں۔ ادھورے کام ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہمیں کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل اس بات کا اچھی طرح اندازہ لگا لینا چاہیے کہ ہم میں صلاحیت، سکت اور لگن کتنی ہے۔ ادھوری لگن اور کمتر صلاحیت کے ساتھ کوئی بھی کام شروع نہیں کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں وجدان کی بڑی اہمیت ہے۔ ہم اپنے آپ سے بہت کچھ پوچھ سکتے ہیں۔ ہمارا اپنا وجود ہمارا سب سے بڑا راہ نما ہے۔ اپنے دل کی آواز سن کر ہم بہت سے کامیاب فیصلے کرسکتے ہیں۔
اگر آپ نے کئی کام پورے جوش اور جذبے سے شروع کیے مگر تکمیل سے ہم کنار نہ کرسکے تو ظاہر ہے ذہن میں خاصی الجھن بھی پیدا ہوئی ہوگی۔ اس الجھن سے نجات پانے کا ایک موثر طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے تمام ادھورے کاموں کو یاد کریں اور اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیں۔ اندازہ لگائیں کہ آپ سے کہاں کہاں غلطی ہوئی اور پھر یہ عزم کریں کہ کسی بھی غلطی کو دہرائیں گے نہیں۔ یہ عزم ہی آپ کو معیاری زندگی کی طرف لے جائے گا اور آپ ادھورے کاموں کے باعث پیدا ہونے والی مستقل کوفت سے نجات پانے کے قابل ہوسکیں گے۔ ہر ادھورا کام اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنی تمام خامیوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لینے کا وسیلہ ہے۔ بہتر زندگی کیلئے لازم ہے کہ آپ ادھورے کاموں میں اضافے سے گریز کریں یعنی اپنا جائزہ لیتے رہیں۔ توجہ نہ دی جائے تو ادھورے کام اپنا کام پورا کرکے دم لیتے ہیں یعنی آپ کے وجود کو زنگ آلود کر ڈالتے ہیں۔