"MIK" (space) message & send to 7575

ہم جو چلتے ہیں …

سارا کھیل ابتداکرنے کا ہے۔ سوچیے، سوچتے ہی رہیے مگر کچھ نہ کیجیے تو کچھ نہیں ہوگا۔ بہت کچھ ہوگا مگر اُس وقت جب آپ کچھ کیجیے گا۔ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ کسی بھی معاملے پر ایک بار نہیں، دس بار نہیں، سو بار سوچیے۔ مگر جب عمل کی گھڑی آئے تو سوچنے کا عمل ترک کرکے میدان میں قدم رکھیے۔ یہ بات نپولین بونا پارٹ نے جنگ کی حکمتِ عملی کے حوالے سے کہی تھی۔ سوچنے کے وقت سوچنا ہی موزوں ہوتا ہے مگر جب عمل کا وقت آجائے تو محض سوچنا کسی کام کا نہیں رہتا۔ تب تو اِس بات ہی کی اہمیت ہے کہ آپ کرتے کیا ہیں۔ 
کسی بھی بڑی کامیابی کی ابتدا چھوٹے چھوٹے کاموں سے ہوتی ہے۔ بیٹسمین 400 رنز کی اننگز کھیلتا ہے وہ بھی جب میدان میں قدم رکھتا ہے تو اسکور بورڈ پر اُس کے نام کے سامنے صفر ہی لکھا ہوتا ہے۔ پھر وہ کھیلنا شروع کرتا ہے۔ رنز کی آمد شروع ہوتی ہے۔ سنگلز، ڈبلز اور چوکوں، چھکوں کی مدد سے وہ اپنی اننگز تعمیر کرتا جاتا ہے اور لوگ داد دیتے جاتے ہیں۔ کوئی کتنا ہی بڑا بیٹسمین ہو اُسے ہر بار اپنی اننگز صفر سے شروع کرنا پڑتی ہے۔ یہی اُس کی صلاحیت اور تحمل کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاکر ہی ہم منزل کی طرف بڑھتے ہیں اور پھر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جو لوگ ابتدائی مرحلے میں تحمل برقرار نہ رکھ پائیں، بے تابی کے ہاتھوں کوئی الٹا قدم اٹھا بیٹھیں تو وہ اُن کے لیے پریشانی کا سامان کرتا ہے۔ 
کسی بھی بڑی کامیابی کی طرف بڑھنے کے لیے ہمیں پورے تحمل کے ساتھ ایک ایک قدم پوری احتیاط کے ساتھ اٹھانا ہوتا ہے۔ ذرا سی چُوک ہوئی اور معاملہ بگڑا۔ بھرپور کامیابی اور حقیقی مسرّت کے لیے ذہن کی بھرپور تیاری لازم ہے۔ کوئی بھی بڑا کام شروع کرنے سے قبل اُس کے حوالے سے تمام ممکنہ پہلوؤں پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ کہیں کسی بھی چھوٹی بڑی خرابی کی زیادہ گنجائش نہ رہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ہم بھرپور تیاری اور تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر کے بغیر کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔ ہم نے کرکٹ اننگز کی مثال دی۔ بیٹسمین کو اگر طویل اور یادگار اننگز کھیلنی ہو تو ہر گیند کا سامنا بھرپور توجہ سے کرنا ہوگا تاکہ غلطی کا احتمال کم سے کم رہے۔ ہر باؤلر چاہتا ہے کہ اُس کی ہر گیند شاندار ہو، بیٹسمین کو چکراکر رکھ دے۔ بیٹسمین کو کئی بار انتہائی ''پرکشش‘‘ گیند بھی تحمل سے کھیلنا پڑتی ہے تاکہ بے دھیانی یا بے تابی میں غلطی نہ ہو۔ دو ڈھائی سو گیندوں کا سامنا کرنے والا بیٹسمین اگر ایک آدھ چانس لے تو کوئی بات نہیں۔ اتنی رعایت تو اُسے ملنی چاہیے۔ وکٹ پر تین چار گھنٹے کھڑا رہنا اور وہ بھی پورے انہماک کے ساتھ ... یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ 
یہی حال زندگی کے دیگر تمام معاملات کا بھی ہے۔ آپ خواہ کسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، پورے انہماک کے ساتھ کام کرنے کی صورت ہی میں بھرپور کامیابی آپ کے ہاتھ آئے گی۔ جہاں آپ کا انہماک کمزور پڑا، سمجھ لیجیے غلطی کی گنجائش پیدا ہوئی اور خرابی کو راہ ملی۔ 
معاملہ اِتنا ہے کہ آپ ابتداء کے لیے کس طور خود کو تیار کر پاتے ہیں۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ نے کہا ہے ؎ 
سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے 
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے! 
جو لوگ سفرکا آغاز کرنے سے ڈرتے ہیں وہ کسی بھی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ سفر میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ ''کچھ بھی‘‘ قابلِ غور ہے۔ سفر کے دوران آپ کو چند ایک مشکلات پیش آسکتی ہیں مگر دوسری طرف یہ بھی تو ممکن ہے کہ آپ کو کسی کی طرف سے معاونت ملے اور سفر آسان ہو جائے۔ سفر وسیلۂ ظفر والا مقولہ تو آپ نے بھی سُنا ہوگا۔ جو لوگ گھر سے نکلتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ ضرور پاتے ہیں۔ اگر راہ میں ملنے والی کامیابی کے مقابلے میں ناکامی زیادہ ہو تب بھی انسان کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے اور اغلاط کے اعادے سے بچنے کے قابل ضرور ہو پاتا ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ خود کو بہتر ابتدا کے لیے تیار کیسے کیا جائے؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جو کام بھی کرنا ہے اُسے کرنا شروع کردیجیے۔ یہ عام آدمی کی اپروچ ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ زندگی میں زیادہ توازن ہو، کامیابی نصیب بھی ہو اور قابلِ رشک بھی ہو تو عام آدمی کی سطح سے خاصا بلند ہوکر کچھ سوچنا اور کرنا پڑے گا۔ غور کیجیے کہ سوچنے کا عمل پہلے ہے۔ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے آپ کو سوچنا ضرور ہے۔ کام شروع کرنے کے بعد سوچنے سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا کرتا۔ کام کی ابتداء سے قبل سوچنا اور حکمتِ عملی تیار کرنا لازم ہے۔ ہم ایک ایسے زمانے کا حصہ ہیں جس میں حکمتِ عملی کی بہت اہمیت ہے۔ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آنے والے ہی زیادہ کامیاب رہتے ہیں اور بھرپور کامیابی نہ بھی ملے تو وہ اپنا نقش ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کی کامیابی کا حجم زیادہ نہیں ہوتا مگر اثر بہت زیادہ اور دیرپا ہوتا ہے۔ 
ہم میں سے بہت سے ہیں جو زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرنے کے بارے میں سوچتے ہی رہتے ہیں۔ یہ سوچتے ہی رہنے کا عمل ختم نہیں ہوتا اور عمل کی دنیا میں قدم رکھنے کا مرحلہ نہیں آتا۔ یا پھر یوں ہے کہ ہم عمل کے مرحلے کو ٹالتے رہتے ہیں۔ تیاری اچھی بات ہے مگر صرف تیاری سب کچھ نہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بہت زیادہ تیاری بھی کبھی کبھی عمل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن جایا کرتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی کے لیے آپ کو ابتدائی مرحلے میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا پڑیں گے۔ یہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں مل کر آپ کی راہ ہموار کرتی جائیں گی۔ اور آپ خود بھی اپنی بھرپور کامیابی دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ کبھی کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ انسان نے اپنی محنت سے جو کچھ حاصل کیا ہوتا ہے اُسے دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ 
کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
ہم جو چلتے ہیں تو بنتا ہی چلا جاتا ہے 
لاکھ مِٹّی میں چُھپاکر کوئی رستا رکّھے! 
زمین کا عام سا ٹکڑا پگڈنڈی اُسی وقت بنتا ہے جب لوگ اُس پر چلنا شروع کریں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے قدموں کے نقوش ایک راستہ تشکیل دینے لگتے ہیں۔ چلنا شرط ہے، قدرت زمین کے ٹکڑے کو آپ کے لیے راستے میں تبدیل کردے گی۔ آپ چلنے کی شرط پوری کریں گے تو قدرت راستہ بنانے کا وعدہ نبھائے گی۔ چلتے وقت آپ کے دل کو یقین ہونا چاہیے کہ قدرت نا انصافی بھی نہیں کرتی اور وعدہ بھی نہیں بھولتی۔ 
زندگی ہم سے بھرپور تیاری اور اس کے بعد بھرپور آغاز کا تقاضا کرتی ہے۔ کسی بھی بڑے کام کو ڈھنگ سے کرنے کے لیے ڈھنگ کی تیاری بھی لازم ہے اور ڈھنگ کی تیاری ہی معیاری آغاز کی راہ ہموار کرتی ہے۔ کم ہی لوگ اس بات کو سمجھ پاتے ہیں اور جو سمجھ پاتے ہیں وہ چلتے ہی چلے جاتے ہیں اور راستے بنتے ہی چلے جاتے ہیں۔ 
٭٭٭

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں